Quran Hai Saddique Ka Ehsaan (قرآن ہے صدیق کا احسان)

قرآن ہے صدیق کا احسان

ابن ماجہ حدیث نمبر 1944 کے مطابق قرآن کی دو آیات ایک کاغذ پر لکھی تھیں تو حضور ﷺ کے وصال کے وقت ایک بکر ی آئی اور وہ کاغذ کھا گئی۔بخاری 4987 کے مطابق حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے قرآن پاک جلا دیا۔سوال یہ ہے کہ کیا وہ دو آیات صرف اسی ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھی ہوئی تھیں اور جب قرآن پاک جلا دیا گیا تو ہم کون سا قرآن تلاوت کر رہے ہیں؟

1۔ اللہ کریم نے قرآن نازل فرمایا اور اللہ کریم ہی حفاظت کرنے والا ہے یعنی حفاظت کے اسباب سب اللہ کریم ہر دور میں پیدا فرماتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے شروع میں قرآن کے علاوہ کچھ لکھنے سے منع فرما دیا تھا، اسلئے صحابہ کرام کی ہمت صرف اور صرف قرآن یاد کرنے اور قرآن لکھنے پر لگ گئیں۔نبی اکرم ﷺ کے امین اور فقہاء صحابہ کرام”کاتبان وحی“ اور حافظ قرآن تھے۔

2۔ جنگ یمامہ میں جب قرآن کے 700 حافظ صحابی شہید ہوئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قرآن اکٹھا کرنے کا مشورہ دیا۔ حضرت زید بن ثابت، حافظ قرآن، کاتب وحی، رضی اللہ عنہ کو یہ مشکل کام سونپا گیا جو دو بندوں کی گواہی ڈال کر اکٹھا کرتے رہے (الاتقان ۷۷/۱)

3۔ حضرت ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم سب حافظ قرآن تھے، البتہ کام اسطرح ہوا کہ حکومتی اعلان کے بعد حضرت عمر فاروق اور حضرت زید رضی اللہ عنھما دونوں حضرات مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھ جاتے پھر جو کوئی آپ دونوں کے پاس کتاب اللہ کی کوئی آیت دو گواہوں کے ساتھ لے کر آتا تو اس کو آپ دونوں لکھ لیتے (فتح الباری ۱۷ /۹، الاتقان ۷۷/۱)

4۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا کہ سب سے زیادہ اجر وثواب کے مستحق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے جمع قرآن کا شاندار کارنامہ انجام دیا (الاتقان ۷۷/۱)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر ایک ہی جلد میں مجلد کروانے کا حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا یعنی جو سب صحابہ کرام کی تصدیق سے مکمل ہوا۔ (تدوین قرآن ص40)

5۔ قرآن کو اکٹھا کر کے نام ”مصحف“ رکھا گیا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، اُس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور پھر اُن کی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کے پاس رہا۔(بخاری)

6۔ صحیح بخاری 2287 اور مسلم 818 کے مطابق قرآن کریم سات لغات و لہجات میں اتارا گیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں صحابہ کرام پھیل گئے، سات قراءت یا حروف پر تکرار شروع ہو گئی۔ ایک کہتا تو غلط ہے اور دوسرا کہتا تو غلط ہے۔اس پر یہ مشورہ ہوا کہ اس فتنے کو دور کرنے کے لئے قرآن پاک کو قریش کے لہجہ میں جمع کر دیا جائے۔

7۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا سے مصحف منگوا کر حضرت زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ھشام رضی اللہ عنھم نے ورکنگ کر کے ”قریش“ کے لہجے میں مصحف تیار کیا اورجس ملک میں مسلمان تھے بھیج دیا گیا اور اصل مصحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کو واپس کر دیا۔ ساری دنیا کے نسخے جو اختلاف کا باعث تھے، نسخوں سے سیاہی دھو کر علیحدہ دفن کر دی گئی اور صرف کاغذ جلا دیا گیا تاکہ اختلاف ابھر کر سامنے نہ آئے۔

8۔ اہلتشیع کی معتبر کتابوں میں ان کے علماء نے لکھا ہے کہ قرآن میں تحریف کی گئی ہے، اس پر توبہ کرنے کی بجائے، قرآن کو اکٹھا کرنے کے دوران صحابہ کرام کی آپس میں بحثوں کو بنیاد بنا کر اہلتشیع دھرم والے الزام لگاتے ہیں کہ قرآن تبدیل کیا گیا ہے حالانکہ بحثوں کے بعد سب متفق ہوتے تو لکھا جاتا۔

حفاظت قرآن

۱) قرآن پاک زیادہ تر سینوں میں محفوظ رہتا ہے کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ ”میں آپ پر ایسی کتاب نازل کرنے لگا ہوں جس کو پانی نہیں دھو سکے گا۔ اسلئے صحابہ کرام حافظ قرآن بھی تھے اور حافظ حدیث بھی تھے۔ جنگ یمامہ میں سات سو حافظ قرآن شہید ہوئے۔

۲) کاتبان وحی سے حضورﷺ قرآن لکھواتے اور یہ بھر فرماتے کہ فلاں سورت میں فلاں جگہ لکھ دو (مختصر کنز ص 48 بحوالہ تدوین قرآن ص 27) اور رسول اللہﷺ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن مجید لکھواتے تھے (فلاں جگہ لکھا جائے) (مجمع الزوائد ۷/۱۵۷، کنز العمال ۳/۴۰) اگر کوئی غلطی ہو جاتی تو حضورﷺ اصلاح فرما دیتے مجمع الزوائد ۱/۶۰)

۳) قرآن مجید (الف) زیادہ تر پتھروں کی چوڑی اور پتلی سلوں (لِخاف) پر لکھا گیا جسے سلیٹ کہہ سکتے ہیں، (ب) اونٹوں کے مونڈھوں کی چوڑی گول ہڈیوں (کَتِف) کو تراش کرتیار کر کے لکھا گیا، (پ) چمڑوں کے کافی باریک پارچوں (رِقاع) پر لکھا گیا، (ت) بانس کے ٹکڑوں پر بھی لکھا گیا (ث) درخت کے چوڑے اور صاف پتے بھی کتابت کے لئے استعمال ہوئے (ج) کھجور کی شاخوں کی چوڑی جڑوں (عسیب) اور کھجور کے جڑے ہوئے پتوں کو کھول کر ان کی اندرونی جانب لکھا گیا (د) محدثین نے کاغذ پر بھی کتابت قرآن کا ذکر کیا ہے (فتح الباری ۱۷/۹)

۴) صحابہ کرام کے پاس قرآن کے مختلف ٹکڑے بھی تھے اور پورا پورا قرآن بھی تھا جیسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب اپنی اسلام لانے والی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنھما سے پوچھا کیا پڑھ رہے تھے تو ان کے پاس بھی ایک صحیفہ تھاجس میں سورہ طہ کی آیات لکھی ہوئی تھیں (سنن دار قطنی ۱/۱۲۳ باب نہی المحدث عن مس القرآن) حضورﷺ نے بھی مصاحف (لکھا ہوا قرآن مجید) دشمنوں کی زمین میں لے جانے سے منع فرمایا (صحیح بخاری)

۵) پورا قرآن مجید بائیس سال، پانچ ماہ، چودہ دن میں نازل ہوا (مناہل العرفان ص ۴۳)
مسلمان: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟

جماعتیں: دیوبندی، اہلحدیث، سلفی، توحیدی، محمدی، وہابی ایک فیصلہ کر کے بتا دیں کہ سعودی عرب کے وہابی علماء کے عقائد پر اکٹھا ہونا ہے تو ایک عقائد کی کتاب اور صحیح احادیث پر اکٹھے ہو جائیں۔ بریلوی دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ضرور بتائیں مگر سارے کے سارے بریلوی چار مصلے اجماع امت اہلسنت کا نعرہ لگا کر بتائیں کہ اتحاد امت خلافت عثمانیہ کے متفقہ عقائد پر ہو گا ورنہ رافضیت پھیلانے میں دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث سب شامل ہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general