Sayyidina Abu Bakr Aur Sayyida Fatima

سیدنا ابوبکر اور سیدہ فاطمہ

1۔ قرآن و سنت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے فضائل ملتے ہیں۔ حضور ﷺ کے وصال کے بعد وحی آنی بند ہو گئی اور دین مکمل ہو گیا۔ اسلئے حضور ﷺ کے وصال کے بعد اہلبیت کے اہلبیت کے درمیان مسائل، اہلبیت کے صحابہ کرام کے ساتھ معاملات اور صحابہ کرام کے صحابہ کرام کے ساتھ اختلافات پر تاریخ میں بہت کچھ سچ جھوٹ لکھا گیا ہے لیکن کوئی ایک مسلمان بتا سکتا ہے کہ تاریخ کا کونسا راوی اور کونسی کتاب مستند ہے جس پر عقائد بنتے ہوں۔

2۔ عقائد قرآن و سنت پر بنتے ہیں، اسلئے حضور ﷺ کے بعد صحابہ کرام اور اہلبیت کے درمیان جو اختلافات پیش آئے اس پر اہلسنت علماء کرام کا اجماع امت ہے کہ سب صحابہ کرام، اہلبیت کی شان بلند کرو مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں نہیں لانا، اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں نہیں لانا۔ صحابہ کرام اور اہلبیت دونوں کا اہلسنت دفاع کرنے کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اہلبیت اور صحابہ کرام دونوں جنتی ہیں جیسے:

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ

1۔ شیعہ حضرات بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ بخاری مسلم میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھاکا جنازہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پڑھایا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے نعوذباللہ ناراضگی تھی اسلئے راتوں رات دفن کر دیا اور کسی کو خبر تک نہ ہونے دی- امام بخاری و مسلم نے احادیث اکٹھی کی ہیں لیکن علماء اہلسنت سب احادیث کو اکٹھی کر کے قانون سمجھائیں گے ورنہ امام بخاری و امام مسلم کی کتابوں سے ثابت نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے مکمل نماز کیسے ادا کی۔

2۔ بخاری حدیث نمبر 4240 کے اندر امام زہری کا قول ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہ دی گئ بلکہ راتوں رات دفن کیا گیا حضرت علی نے جنازہ پڑھایا۔ یہ امام زہری کی ذاتی رائے ہے ورنہ امام زہری کے علاوہ گیارہ راویوں نے بھی یہی حدیث بیان کی مگر زہری والا اضافہ نہ کیا۔ لہذا زہری کا اضافہ بغیر دلیل و سند کے ہے اور صحیح یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا۔ علماء کا اجماع ہے کہ بخاری و مسلم کی احادیث صحیح ہیں مگر علماء کا یہ بھی اتفاق ہے کہ بخاری مسلم میں موجود اقوال ، تفردات و تعلیقات صحیح ہوں یہ لازم نہیں۔ ( نعمۃ الباری شرح بخاری 7/615 وغیرہ)

3۔ سیدنا امام مالک، سیدنا امام جعفر سیدنا امام زین العابدین جیسے عظیم الشان آئمہ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی وفات مغرب و عشاء کے درمیان ہوئی تو فورا ابوبکر عمر عثمان زبیر عبدالرحمن (وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین) پہنچ گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے ابو بکر آگے بڑھیے جنازہ کی امامت کیجیے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ کے ہوتے آگے بڑھوں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا جی بالکل اللہ کی قسم آپ کے علاوہ کوئی جنازہ کی امامت نہیں کرا سکتا تو سیدنا ابوبکر نے سیدہ فاطمہ کے جنازے کی امامت کرائی اور رات کو ہی دفنایا گیا۔(تاریخ الخمیس1/278 الریاض النضرۃ 1/176، سمط النجوم 1/536)

4۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھارات کےوقت وفات پاگئیں تو فورا ابوبکر عمر عثمان طلحۃ زیر سعید رضی اللہ عنھم اور دیگر کئ صحابہ جن کےنام امام مالک نے گنوائے سب آئے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا آگے بڑھیے جنازہ پڑھیے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم آپ خلیفہ رسول کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا پس ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا چار تکبیریں کہیں اور اسی رات دفنایا گیا (الكامل في ضعفاء الرجال 5/422 ,423، ذخیرۃ الحفاظ روایت نمبر 2492)

5۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث1/381)

6۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں۔(حلیۃ الاولیاء 4/96)

7۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا رات کےوقت وفات پاگئیں تو فورا ابوبکر عمر اور دیگر کئ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آئے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا آگے بڑھیے جنازہ پڑھیے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم آپ خلیفہ رسول کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا پس ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا چار تکبیریں کہیں (ميزان الاعتدال 2/488)

8۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھاکا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں (الطبقات الكبرى 8/24)

9۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بنت رسول سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں (الطبقات الكبرى 8/24)

10۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں (البدایہ و النہایۃ 1/98، اتحاف الخیرۃ 2/460، حلیۃ الاولیاء 4/96، کنزالعمال 15/718)

11۔ بےشک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی جب وفات ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کندھوں سے پکڑ کر جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کیا اور رات ہی میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کو دفنایا۔ (سنن کبری بیھقی روایت نمبر 6896)

فیصلہ: مذکورہ حوالہ جات میں سے کچھ یا اکثر ضعیف ہیں مگر تمام سنی شیعہ علماء کے مطابق “ وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن ترجمہ: تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور متن قوی (معتبر مقبول صحیح و حسن) ہوجاتا ہے۔ (شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)

ناراضگی کی وجہ

1۔ خیبر میں ایک قصبہ ہے جس کی اکثریت یہودی آبادی کی تھی۔ فتح خیبر کے موقع پر یہودیوں سے ان شرائط پر صُلح ہو گئی۔ کہ اہل فدک کے مال و اسباب اور زرعی زمینیں یہودیوں کے پاس رہیں گی، مسلمان ان کو تحفظ دیں گے، یہودی ہر سال اپنی کُل آمدنی جو ان زمینوں سے ہو گی اس کا نصف مسلمانوں کو دیں گے۔

2۔ سات ہجری میں فدک کی اراضی سے آنے والی آمدنی چوبیس ہزار دینار سالانہ تھی۔ سنن ابی داود کی روایت کے مطابق نناوے ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں فدک کی آمدن چالیس ہزار دینار تک پہنچ گئی تھی۔

3۔ البتہ علماء کرام کے مطابق فدک کی حیثیت ”مالِ فے“ کی تھی یعنی جو مال دشمن سے بغیر جنگ کے حاصل ہو وہ مال فے کہلاتا ہے۔ اس کے بار ے میں اللہ کریم نے یہ فرمایا ہے:

جو (اَموالِ فَے) اللہ نے (قُرَیظہ، نَضِیر، فِدَک، خَیبر، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ) بستیوں والوں سے (نکال کر) اپنے رسول (ﷺ) پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے لئے ہیں اور (رسول ﷺ کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنومطّلب) کے لئے اور (معاشرے کے عام) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہیں، (یہ نظامِ تقسیم اس لئے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔

اور جو کچھ رسول (ﷺ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسولﷺ کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ (مذکورہ بالا مالِ فَے) نادار مہاجرین کے لئے (بھی) ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال (اور جائیدادوں) سے باہر نکال دیئے گئے ہیں، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضاء و خوشنودی چاہتے ہیں اور (اپنے مال و وطن کی قربانی سے) اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ ہی سچے مؤمن ہیں۔

(یہ مال اُن انصار کے لئے بھی ہے) جنہوں نے اُن (مہاجرین) سے پہلے ہی شہرِ (مدینہ) اور ایمان کو گھر بنا لیا تھا۔ یہ لوگ اُن سے محبت کرتے ہیں جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں (الْحَشْر)

4۔ مال غنیمت کے بر عکس اموال فے کی ملکیت کسی کو منتقل نہیں کی گئی بلکہ یہ ریاست کی تھی۔ ان آیات کے مطابق مال کی تقسیم حضورﷺ ریاست کے لیڈر ہونے کی وجہ سےاپنے مبارک زمانے میں کرتے رہے۔

5۔ یہ جھوٹ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا، حضرت علی و عباس رضی اللہ عنھما، ازواج مطہرات، اہلبیت وغیرہ کو رسول کریم ﷺ کی املاک سے مطلقا محروم کیا گیا….سچ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نےخود بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا و اہلبیت میں سے کسی کو مالک نہ بنایا بلکہ نبی پاک ﷺ نے اپنی ساری ملکیت اسلام کے نام وقف کی اور فاطمہ ازواج مظہرات اہلبیت وغیرہ پر وقف میں سے جو نفع پیداوار ملتی، اسکو ان پر خرچ کرتے تھے۔

6۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ کی سنت پے چلتے ہوئے حضرت سیدنا صدیق اکبر عمر و علی رضی اللہ عنھم نے بھی اہلبیت آل رسول ازواج مطہرات وغیرہ کسی کو مالک نہ بنایا بلکہ فدک وغیرہ رسول کریم ﷺ کے چھوڑے ہوئے صدقات میں سےسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آل محمد اہلبیت ازواج مطہرات فاطمہ علی عباس پر اور کچھ صحابہ اور کچھ عوام مسلمین پر خرچ کرتےتھے۔ حضرت عمر و علی رضی اللہ عنھما نے بھی یہی طریقہ جاری رکھا یہی طریقہ رسول کریم کا رہا تھا۔ (دیکھیے تاریخ الخلفاء ص 305، ابوداود روایت نمبر 2970 ,2972، سنن کبری للبیھی روایت نمبر 12724، بخاری روایت نمبر 2776 ،3712)

7۔ رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ریاست کے خلیفہ بنے تو آپ نے فدک پر (management) تولیت قبضہ کیا نہ کسی سے قبضہ چھڑایا، اس کے مصارف بھی نہیں بدلے اور نہ ہی ذاتی استعمال میں لائے۔

مطالبہ: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے فدک کے انتظامات ان کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ ہبہ واپس لینے کا نہیں تھا بلکہ بنتِ رسول کی حیثیت سے فدک کی تولیت (management) کا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہ ”اللہ کی قسم میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا، تمام انتظامات اسی طرح رہیں گے جیسے حضورﷺ کے دور میں تھے اور وہیں پر یہ مال خرچ کیا جائے گا جن پر حضورﷺ خرچ کرتے تھے۔ میں اپنے اقرباء سے زیادہ صلہ رحمی پسند کرتا ہوں کہ حضورﷺکے اقربا سے کروں“۔

6۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھانے بعد میں اس مسئلے پر کوئی بات نہیں کی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نیابتِ رسول ﷺ کے سبب فدک کے انتظامات اپنے پاس رکھے مگر اس کی آمدن کی تقسیم بالکل وہی رہی جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں تھی یعنی ازواج مطھرات و آل فاطمہ سمیت دیگر مصارف فے کی کفالت جاری رہی۔

7۔ حضرت عمر، حضرت عثمان، سیدنا علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنھم کے دور میں بھی یہی معاملہ رہا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں تھا۔ اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ غلط ہوتا تو حضرت علی اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اس کو بدل دیتے مگر ایسا نہیں ہوا۔

8۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی بیماری میں ان کی اجازت سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے تیمارداری کی۔ امام بیہقی اس بابت رقمطراز ہیں: جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے گھر تشریف لائے اور عیادت کے لیے اجازت طلب کی۔ مولا علی علیہ السلام نے آپ سے پوچھا: فاطمہ! ابوبکر تشریف لائے ہیں آپ کی عیادت کی اجازت چاہتے ہیں۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا آپ ان سے ملاقات کی اجازت دیں گے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں۔ پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور ان کو راضی کیا۔

روایات میں اس عیادت کا احوال یوں بیان ہوا ہے کہ: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میں نے اپنا گھر بار، اپنی جان و مال اور اپنی اولاد سب اللہ‘ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلبیت کو راضی کرنے کے لیے قربان کر دی۔ اس طرح کی باتوں سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ الزھراء سلام اللہ علیہا کی رنجش دور کرنی چاہی تو وہ ان سے راضی ہو گئیں۔(بیهقی، السنن الکبری)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا ترک کلام

1۔ اول بات تو یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ ناراض نہ ہوئیں تھیں بعض کتب میں جو مہاجرت و ترک کلام لکھا ہے اسکا معنی علماء نے یہ لکھا ہے کہ فدک وغیرہ کے متعلق کلام ترک کردیا مطالبہ ترک کر دیا…(دیکھیے ارشاد الساری شرح بخاری 5/192 ،عمدۃ القاری 22/233 وغیرہ کتب)

2۔ بالفرض اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا ناراض بھی ہوئی تھیں تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں منا لیا تھا، راضی کر لیا تھا اور سیدہ فاطمہ راضی ہوگئ تھیں (ترضاھا حتی رضیت) سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنھا بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا کو (غلط فھمیاں دور فرما کر) مناتےرہےحتی کہ سیدہ راضی ہوگئیں(سنن کبری 12735 عمدۃالقاری 15/20، السیرۃ النبویہ ابن کثیر 4/575)

3۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زوجہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی بیماری میں ان کی دیکھ بھال کرتی رہیں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا نے انہیں وصیت کی تھی کہ وہ انہیں غسل دیں، یہ بات شیعہ کتب سے بھی ثابت ہے: "میری میت کوغسل ابوبکرکی زوجہ اورعلی دیں(شیعہ کتاب مناقب شہر آشوب 3/138)”

مسلمان: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھنے سے بنتا ہے اور اہلتشیع کے علماء (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید، ابو بریدہ) اور بنیادی صحیح کتب (الکافی، من لا یحضر الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) کا سماع حضور ﷺ، حضرت علی، حسن و حسین وجعفر صادق و دیگر امام کے ساتھ ثابت نہیں ہے، اسلئے ان کی کتابیں سب منگھڑت ہیں اور اہلسنت کی کتابوں کو یہ مانتے نہیں تو پھر کون ہیں اہلتشیع؟

جماعتیں: دیوبندی، اہلحدیث، سلفی، توحیدی، محمدی، وہابی ایک فیصلہ کر کے بتا دیں کہ سعودی عرب کے وہابی علماء کے عقائد پر اکٹھا ہونا ہے تو ایک عقائد کی کتاب اور صحیح احادیث پر اکٹھے ہو جائیں۔ بریلوی دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ضرور بتائیں مگر سارے کے سارے بریلوی چار مصلے اجماع امت اہلسنت کا نعرہ لگا کر بتائیں کہ اتحاد امت خلافت عثمانیہ کے متفقہ عقائد پر ہو گا ورنہ رافضیت پھیلانے میں دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث سب شامل ہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general