
وقت سے فائدہ (Opportunities)
1۔ ہر مسلمان کو اُس کی زندگی میں بارہا ایسا وقت نصیب ہوتا ہے جس میں اُسے اچھا یا بُرا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ سب سے بڑا موقعہ حکومت وقت کے پاس ہوتا ہے کہ انسانیت اور اسلام کے لئے اچھے سے اچھے قانون منظور کرکے اپنے وقت کو اللہ کریم کی بارگاہ میں پیش کرے۔حضورﷺ، حضرت ابوبکر اور عُمر رضی اللہ عنھما کا دور اس کی بہترین مثال ہے۔
2۔ حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنھم کا دور اس بات کی مثال ہے کہ خارجی، سبائی اور ایرانی ایجنٹوں کے حملوں کی وجہ سے اندرونی و بیرونی محاذ پر بہت پریشر ہے، آپس میں لڑائیاں مگر شہید ہونے والوں کو جنتی قرار دینا، کسی کو بھی لونڈی یا غلام نہیں بنانا اور مال غنیمت نہیں بنانا۔ اپوزیشن اور گورنمنٹ میں صحابہ نے اچھا کام کیا حالانکہ بہت سے نامور صحابہ کرام اس فتنے میں لا تعلق بھی رہے۔
3۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے وقت سے فائدہ اُٹھایا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی تاکہ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پراکٹھا کر دیا گیا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے سے مسلمانوں کے 19سال امن میں گذارے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ یزید کو خلیفہ بنانے کا درست ثابت نہیں ہوا مگر یزید کے نام سے حُسینی فرقے کی بنیاد اہلتشیع نے بنائی جس کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں، اسلئے فائدہ ایرانی، سبائی و خارجی ایجنٹوں نے وقت سے اُٹھایا۔
4۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں میں بڑے مسائل پیدا ہوئے مگر وقت سے فائدہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اُٹھایا اور مسلمانوں کے لئے عُمر ثانی کہلائے۔
5۔ اندرونی و بیرونی خلفشاروں کے ساتھ وقت گذرتا رہا مگر شاہ رکن الدین بیبرس، حکمران مصر نے تاتاریوں کو ناکوں چنے چبوائے اوروقت سے فائدہ اُٹھا کر اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کو اکٹھا کرکے اُن سے رائے لی اور چار مصلے(چار فقہی انداز میں نماز)خانہ کعبہ میں رکھے تاکہ پوری دنیا کے حنفی، شافعی، مالکی،حنبلی مقلد اپنے اپنے امام کے پیچھے بغیر اضطراب کے نماز ادا کر سکیں۔
6۔ سلطنت عثمانیہ کی حکومت آئی اور تین براعظم تک پھیل گئی۔اُس دور میں وقت سے فائدہ اُٹھا کرحرمین شریفین کے علماء نے تاریخ کے مسائل جنگ جمل، جنگ صفین، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، یزید پلید اور صوفی حضرات کے لئے قرآن و سنت کے مطابق قانون بناکر تاریخ کے اضطراب کو دور کردیا۔یہ عقائد اہلسنت عالم احمد رضا خاں صاحب نے اپنے فتاوی رضویہ شریف میں لکھے ہیں۔
7۔ 1924میں سعودی حکومت آئی،اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) چار مصلے والوں کا سارا ریکارڈ غائب کیا۔مسلمانوں کواکٹھا کرنے کی بجائے اہلحدیث، سلفی، توحیدی، دیوبندی،وہابی حنبلی، محمدی، غیر مقلد میں تقسیم کیا۔ اہلسنت کی کتابوں کا حوالہ دئے بغیر بدعتی و مشرک کا پراپیگنڈہ کر کے رافضی بنانے کی کوشش کی، مبارک ہو ان کو کیونکہ بہت سے پیروعلماء رافضی ہیں۔
8۔ وقت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی ہر جماعت خاص طور پر دیوبندی حضرات اُن کے عقائد پر آ جائیں جس میں مزار، پیر مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے،یا رسول اللہ مدد پکارنا، میلاد، عرس، ایصال ثواب، صحابہ کرام کے دن منانا وغیرہ نہیں ہے۔البتہ اگروقت سے فائدہ اُٹھا کر جہنم کما رہے ہیں تو پھر جہاں ہیں وہیں رہ کر ہر کوئی مرنے کا انتظار کرے۔
9۔ اہلسنت کہلانے والی جماعتیں وقت سے فائدہ اُٹھاتیں تو عوام کو 100سال تک عقائد اہلسنت سکھاتے، فروعی مسائل کا فرق سمجھاتے، مستحب اعمال کو مستحب کے درجے پر رکھنے کی ترغیب دیتے، چار مصلے کی اہمیت سمجھاتے، سعودی عرب سے علمی مذاکرات کی بات کرتے، دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا عوام کو بتاتے مگر ایسا نہیں کیا گیا جس کا جواب قیامت والے دن دینا ہو گا۔
10۔ دیوبندی اور بریلوی کی لڑائی سے، اہلحدیث اور دیوبندی حنفی کی لڑائی سے، سعودی کو وہابی وہابی کا نعرہ لگوا کر، مزارات پر قبضے کر کے، وقت سے فائدہ اہلتشیع نے اُٹھایا۔ اگر رافضی غلط ہیں تو سعودی عرب کے خارجی بھی اپوزیشن بن کر فائدہ رافضیوں کو ہی دلوا رہے ہیں تاکہ اہلحدیث اور دیوبندی صرف اہلسنت کو بدعتی و مشرک کہیں ورنہ اہلسنت سے علمی مذاکرات کس نے کئے۔
11۔ یہ دور اب ہمارا ہے اور ہم نے وقت سے فائدہ اُٹھانا ہے۔ ہمارے ساتھ کون ہیں، کتنے بندے ہیں، کوئی مانے گا یا نہیں، مخالفت ہو گی، لعنت بے شمار کہا جائے گا، اپنے بھی مخالف ہوں گے مگر نعرہ ایک ہی ہے چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت۔ عوام اپنی اپنی مساجد و مدارس میں پوچھ لے اور اگر علماء کہیں کہ یہ ایک پاگل ہے اور جواب نہ دیں تو اللہ کا شکر جیت گئے۔
12۔ اس وقت پاکستان میں حکومت وقت سے فائدہ اُٹھائے اور مسلمانوں کو ایک کر دے لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔ وفاقی و صوبائی اداروں کے چیف ایسیکٹو ادارے کی کرپشن دور کریں اور ملازمین اپنے وقت سے عوام کی بھلائی کرکے فائدہ اٹھائیں۔