دفاع اہلبیت اور سادات کی عظمت
1۔ سید، اہلبیت، آل رسول کی یہ تعریف یاد رکھیں کہ حضرات علی، جعفر، عباس، عقیل اور حارث رضی اللہ عنھم کی اولاد ”سید“ کہلاتی ہے جن پر صدقہ حرام ہے۔ حضور ﷺ کی ازواج مطہرات (بیویاں)، اولاد اور داماد یعنی حضرت علی رضی اللہ عنھم ”اہلبیت“ ہیں۔ بعض کے نزدیک حضور ﷺ کی اولاد، بعض کے نزدیک قرابت دار جن پر صدقہ حرام ہے اور بعض کے نزدیک حضور ﷺ کی تمام امت ”آل رسول“ ہے۔ البتہ آجکل سید سے مراد صرف حضرات حسن وحسین رضی اللہ عنھما کی اولاد کو لیا جاتا ہے۔
2۔ اہلبیت صحابہ کرام میں بھی شامل ہیں اور صحابہ کرام کی درجہ بندی میں بالترتیب سب سے پہلے چاروں خلفاء راشدین، عشرہ مبشرہ، اصحاب بدر، اصحاب احد، اصحاب بیعت رضوان، فتح مکہ کے اصحاب اور اس کے بعد مسلمان ہونے والے صحابہ کرام ہیں۔
3۔حضور ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام اور اہلبیت کی آزمائش ہوئی اور مینجمنٹ کے حوالے سے مسائل پیدا ہوئے جس میں عام صحابہ کرام کا بھی عمل دخل نہیں تھا تو ہما و شما کیسے اُس وقت کے معاملات و مسائل کے خلاف کسی کو ”باغی“ یا ”مُجرم“ قرار دے سکتے ہیں۔ اسلئے صحابہ کرام اور اہلبیت کے بارے میں جو ”احادیث“ حضور ﷺ کے وصال کے بعد ان کے آپس کے معاملات کی ہیں، ان کو اہلسنت ”اجتہادی فیصلے“ اور ”اجتہادی خطا“ قرار دیں گے مگر کسی ایک کے خلاف یا مقابلے میں نہیں بولیں گے۔
4۔ البتہ اہلتشیع نے ورکنگ کر کے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہلبیت کو تاریخ کی کتابوں میں مظلوم بنایا اورممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خود شہید بھی کر دیا ہو کیونکہ لاشوں پر سیاست ہوتی ہے۔ اہلتشیع کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اس کی خوفناک وجوہات یہ ہیں:
اہلتشیع کی صحیح احادیث کی کتابیں (الکافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام، استبصار) اور اہلتشیع کے راوی (زرارہ، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید،ابوبریدہ) کہتے ہیں کہ یہ قرآن اصل نہیں ہے اور یہ بھی نہیں بتاتے کہ حضورﷺ کی احادیث کس کس صحابی یا اہلبیت نے سُنیں اور کس صحابی کو سُنائی اور اُس صحابی نے کس تابعی اور تابعی نے کس تبع تابعی کو سُنائی، اُن کے نام کیا ہیں؟ اہلسنت کے نزدیک یہ سب احادیث منگھڑت ہیں اور اس سے کی گئی تفاسیر اور فقہ جعفر بھی منگھڑت ہے۔
5۔ اہلتشیع جو کام خود کرتے تھے اُس کیلئے انہوں نے نام نہاد سُنی علماء اور پیرحضرات کی ہمدردیاں کسی نہ کسی طریقے سے حاصل کیں، جنہوں نے اہلتشیع کا ساتھ دینے کیلئے اہلسنت کی کمزور روایات کو بیان کیا اور صحیح احادیث کی تشریح غلط کی، حالانکہ اہلسنت کا قانون موجود تھا کہ کسی صحابی کے خلاف نہ بولا جائے ورنہ دوسرا اہلبیت کے حوالے سے کوئی حدیث نکال لائے گا جو اُس دور کی مینجمنٹ کے متعلق تھی تو کیا ہو گا، البتہ یہی تو شیطانی ایجنڈا ہے تاکہ اہلتشیع کے جھوٹ پر پردہ پڑا رہے اور قیامت والے دن سُنی علماء اور پیر کے ساتھ ساتھ ان کے مرید بھی اہلتشیع کے ساتھ جہنم میں جائیں۔
6۔ دفاع اہلبیت اور سادات کی عظمت کوئی اتنی مشکل نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی غلطی کرے تو اُس کو قانون کے مطابق سمجھانا ہی ”دفاع“ کہلاتا ہے لیکن یہاں سب سے پہلے کُفر کا فتوی لگایا جاتا ہے جس سے بدامنی پھیلتی ہے اور عوام مزید گمراہ ہوتی ہے۔ البتہ مشہدی صاحب جن پیروں کے ساتھ ہیں اُن کے بارے میں مشہور ہو چُکا کہ وہ رافضی ایجنڈے پر ہیں اور جلالی گروپ کی غلطی پکڑ کر آپس میں اور عوام کو اُلجھا رہے ہیں، ایک دوسرے کومناظروں کی دعوت دی جا رہی ہے حالانکہ مناظروں سے کام پہلے بھی کبھی نہیں بنا بلکہ علماء کی وجہ سے عوام تقسیم در تقسیم ہوئی اور ہو رہی ہے۔
7۔ جناب احمد رضا خاں صاحب نے 1905 میں چار دیوبندی علماء کی چار عبارتوں پر کُفر کا فتوی حرمین شریفین کے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) سے لگوایا اور دیوبندی علماء نے اپنی عوام کو کہا کہ ”المہند“ کو پڑھ کر حرمین شریفین کے اہلسنت علماء نے فتاوی واپس لے لئے۔ 1921 میں جناب احمد رضا خاں صاحب کی وفات ہو گئی اور 1924 میں سعودی عرب کے وہابی علماء نے خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کو بدعتی و مُشرک کہہ کر نکال باہر کیا۔
8۔ یہ ذاتی رائے ہے کہ بریلوی علماء نے 1905سے لے کر 1970 کی دہائی تک کافر کافر کہہ کر دیوبندی علماء کو بہت ذلیل کیا ہو گا اور ایک دوسرے سے مناظرے بھی ہوئے مگر بے سود رہے۔ دیوبندی علماء نے بعد میں سعودی عرب کے وہابی علماء سے ہاتھ ملا لیا، اہلحدیث غیر مقلد بھی سعودیہ کے ساتھ ہیں جنہوں نے البریلویہ لکھ کر سعودی عرب سے جناب احمد رضا خاں صاحب کا فتاوی اور کنزالایمان بین کروایا، سعودی عرب کے تعاون سے دیوبندی علماء نے 1970کے بعد بریلوی علماء کو رضا خانی، قبر پرست، بدعتی و مُشرک کا پراپیگنڈہ شروع کر دیا جس پر بریلوی علماء اپنا دفاع کرنے لگے اور کچھ ”ایران“ کی طرف ہو گئے یعنی رافضیت ایجنڈے پر کام کرنے لگے جو آجکل پیروں، کچھ سادات اور علماء کی صورت میں کام کر رہا ہے۔
9۔ اہلبیت کا دفاع کرنا یا سید کو سردار ماننا اُس صورت میں ہے جب ہر پیر فتاوی رضویہ میں لکھیں ”پیر کی چار شرائط“ پر پورا اُترے۔ اگر پیر کی شرائط پر سید یا پیر نہیں ہے تو وہ پیر نہیں ہو سکتا۔ اس وقت مجبوری یہ بھی بنی ہوئی ہے کہ خلافت عثمانیہ، چار مصلوں،کا نام نہ تو دیوبندی لیتا ہے اور نہ ہی بریلوی لیتا ہے، علماء کی آپس کی لڑائی کی وجہ یا اُن کی مجبوری کی وجہ یا اُن کے رزق کے مسائل کی وجہ سے حضور ﷺ کی ساری اُمت کو مذہبی انتشاربگھتنا پڑرہا ہے۔ خارجی اور سبائی اب بھی کام کر رہے ہیں۔فتاوی رضویہ کے پیر کی شرائط اور سادات کی عظمت کے حوالے کمنٹ میں موجود ہیں اور مانگ بھی سکتے ہیں۔
10۔اگر دیوبندی اور بریلوی علماء اپنی عوام کو حق بتا دیں اورمتفقہ عقائد اہلسنت پر سب کو اکٹھا ہونے کی دعوت دیں تو محی الدین بن جائیں گے۔ مشہدی، جلالی دیگر سید پیر حضرات قانون اہلسنت پر آ جائیں ورنہ انانیت کے بُت پہلے دیوبندی اور بریلوی علماء کے بھی نہیں ٹوٹے اوراب بھی علماء کے نہیں ٹوٹنے جس سے فائدہ سبائی، رافضی و خارجی لے رہے ہیں۔ عاجزی سے بڑھکر کوئی بات نہیں،اسلئے یہ پیغام، اگر ہو سکے تو عام عوام سب علماء تک پہنچا دے اور اپنی نسلوں کو حقائق سکھا دے۔
11۔ دوسری صورت اتحاد امت کی یہ ہے کہ دیوبندی حنفیت اور اہلحدیث غیر مقلدیت چھوڑ کر سعودی عرب کے وہابی علماء کی طرح حنبلی نماز اور عقائد اختیار کر لیں تاکہ پاکستان اور سعودی عرب میں ”ایک مصلہ“ ہو جائے یا سعودی عرب مان لے کہ خلافت عثمانیہ، چار مصلے،600 سالہ اہلسنت علماء کرام بدعتی و مشرک نہیں تھے اور پاکستان میں دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث جماعتوں کو خلافت عثمانیہ کے دور کے قرآن و سنت کے مطابق“عقائد اہلسنت“ پر اکٹھا کر لے۔
12۔ اہلحدیث حضرات صرف اُس مجتہد کا نام بتا دیں جس نے کہا تھا کہ تقلید بدعت و شرک ہے اور اب اہلحدیث جماعت قرآن و صحیح احادیث کے مطابق میری تقلید، اتباع یا سلسلہ اختیار کرے گی۔