اہلسنت کا قرآن و سنت
ہر مسلمان قرآن و سنت پر عمل کرنے کی وجہ سے اہلسنت کہلاتا ہے۔ حضور ﷺ کے دور کے بعد خلفاء کرام بھی قرآن و سنت پر تھے، اسلئے امامت ابوبکر رضی اللہ عنہ، باغ فدک، جنگ جمل، جنگ صفین، جنگ نہروان، صلح حضرت حسن و حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنھم سب کے فیصلے قرآن و سنت کے مطابق تھے۔احادیث: صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا ہر فیصلہ قرآن و سنت سےاجتہاد اور مشاورت سے ہوتا، دور دراز کے صحابہ کو خطوط لکھ کر پالیسی سمجھائی جاتی، اس دور میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کوئی بھی نہیں تھے۔ پہلی اور دوسری صدی ہجری کی، بخاری و مسلم سے پہلے، احادیث کی کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:(1) صحیفہ حضرت سعد بن عبادۃ انصاری (2) صحیفہ حضرت جابر بن عبداللہ (3) صحیفہ صادقہ (حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص) (4) صحیفہ حضرت عبداللہ ابن عباس (5)صحیفہ حضرت عمر بن حزام (6) کتب حضرت ابوھریرہ (7) کتاب حضرت عبداللہ ابن عمربن خطاب (8) کتاب حضرت انس بن مالک (9) کتاب حضرت علی ابن ابی طالب (10) صحیفہ حضرت ہمام بن منبہ (11) کتاب خالد بن معدان (12) کتب ابو قلابہ (13) کتب حضرت حسن بصری (14) کتب امام محمد الباقر (15) کتب مکحول شامی (16) کتاب حکم بن عتبہ (17) کتاب بکیر بن عبداللہ (18) کتب قیس بن سعد (19) کتاب سلیمان الیشکری (20) الابواب از امام عامر شعبی (21) کتب امام محمد بن شہاب الزہری (22) کتاب ابو العالیہ (23) کتاب سعید ابن جبیر (24) کتب حضرت عمر بن عبدالعزیز (25) کتاب مجاہد بن جبیر (26) کتب رجاء بن حیوۃ (27) کتاب ابوبکر بن عمرو بن حزم (28) کتاب بشیر بن نہک (29) کتاب عبداللہ ابن جریب (30) موطا امام مالک (31) موطا ابن ابی زئب (32) کتب امام محمد بن اسحاق (33) مسند ربیع بن صبیح (34) کتاب سعید بن ابی عروۃ (35) کتاب حماد بن سلمہ (36) جامع حضرت سفیان ثوری (37) جامع معمر بن راشد (38) کتاب امام عبدالرحمن الاوزاعی الشامی (39) کتاب الزہد از امام عبداللہ ابن مبارک (40) کتاب ھشیم بن بشیر (41) کتاب جریر بن عبداللہ (42) کتاب عبداللہ بن وھب (43) کتاب یحیی ابن کثیر (44) کتاب محمد بن سوقہ (45) کتاب زید بن اسلم (46) کتاب موسیٰ بن عقبہ (47) کتاب اشعث بن عبدالملک (48) کتاب عقیل بن خالد (49) کتاب یحیی بن سعید الانصاری (50) کتاب عوف ابن ابی جمیلہ (51) کتب امام جعفر الصادق (52) کتاب یونس بن زید (53) کتاب عبدالرحمن المسعودی (54) کتاب زائدہ بن قدامہ (55) کتب ابراہیم الطہمان (56) کتب ابو حمزہ السکری (57) الغرائب از شعبہ بن الحجاج (58) کتب عبدالعزیز بن عبداللہ الماحبثون (59) کتب عبداللہ بن عبداللہ بن ابی اویس (60) کتب سلیمان بن بلال (61) کتب عبداللہ ابن لہیہ (62) جامع حضرت سفیان ثوری (63) کتاب الاثار از امام اعظم امام ابو حنیفہ (64) کتاب معتمر بن سلیمان (65) مصنف وکیع بن جراح (66) مصنف عبدالرزاق (67) مسند زید بن علی (68) کتب امام شافعی (69) مسند ابو داود الطیالسی (70( الرد علی سیر الاوزاعی از امام قاضی ابو یوسف (71) الحجۃ علیٰ اہل المدینہ از امام محمد بن حسن الشیبانی (72) مسند عبیداللہ بن موسیٰ العبسی (73) مسند حمیدی (74) مسند مسرد بن مسرہد البصری (75) مسند نعیم بن حماد الخزاعی (76) مسند اسد بن موسیٰ (77) مسند اسحاق بن راہویہ (78) مسند عثمان ابن ابی شیبہ (79) مسند امام احمد بن حنبل (80) مسند محمد بن مہدی (81) مسند کبیر از بقئ بن مخلد رضی اللہ تعالیٰ عنھم ورحمتہ تعالیٰ علیھم اجمعینفقہ: آپﷺ کے دور میں صحابہ کرام اس طرح عمل کرتے جیسے حضورﷺ کو دیکھتے۔ حضورﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام سارے مجتہد اور فقیہ تھے، البتہ فتوی دینے والے چند فقیہ صحابہ اور صحابیات رضی اللہ عنھم کے نام (1) حضرت عمر بن خطاب (2) حضرت علی بن طالب (3) حضرت عبداللہ بن مسعود (4) ام المومنین حضرت عائشہ (5) حضرت زید بن ثابت (6) حضرت عبداللہ بن عباس (7) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم ہیں۔
شہر: فقیہ صحابہ مختلف شہروں میں مقیم رہے اور فتاوی دیتے رہے۔ اسلئے (مدینہ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (مکہ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگردمجاہد بن جبیر، عطاء بن رباح، طاؤس بن کیسان رحمتہ اللہ علیھم (کوفہ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگرد علقمہ، نخعی، اسود بن یزید اور ابراہیم نخعی رحمتہ اللہ علیھم (بصرہ) حضرت ابو موسی اشعری، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنھمااور ان کے شاگرد محمد بن سیرین (شام) حضرت معاذ بن جبل اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنھما اور ان کے شاگرد ابو ادریس خولانی رحمتہ اللہ علیہ (مصر) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد یزید بن حبیب رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔
چار ائمہ کرام: دوسری صدی ہجری میں چار استاد (1) حضرات نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ 80 ۔ 150) تابعی جن کا سلسلہ حضرت حماد، علقمہ رحمتہ اللہ علیھما، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہوتا ہوا حضورﷺ سے متصل ہے (2) حضرت مالک بن انس (93 ۔ 179)، (3) حضرت محمد بن ادریس (امام شافعی 150۔ 204)، (4) احمد بن محمد حنبل (165۔ 241) اور چار فقہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کو عروج حاصل ہوتا ہے۔ اسلئے ساری دُنیا میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی امام کی قرآن و سنت کی تشریح کے مطابق چار انداز (چار مصلوں) پر نماز ادا ہو رہی ہے، اسلئے خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ دور میں بھی اجماع امت کے فیصلے سے چار مصلوں پر ایک وقت میں چار انداز میں نماز ادا کی جاتی رہی ہے۔
اختلاف: چار علماء کی آپس میں عقائدپر لڑائی ہرگز نہیں تھی بلکہ اختلاف کی وجہ (1) قرآن کریم کی قراتوں میں اختلاف تھا (2) صحابہ کرام نے مختلف روایات بیان کیں تھیں (3) روایات کے ثبوت میں شبہ تھا (4) قرآن و احادیث کی نص کو سمجھنے اور اس سے مسائل اخذ کرنے کا مسئلہ تھا (5) عربی الفاظ کی ڈکشنری کے مطابق سمجھنا کیونکہ مطلب میں فرق پڑ جاتا ہے (6) حالات کی وجہ سے دلائل میں فرق ہوتا ہے اس کو سمجھنا جسے دلائل میں تعارض کہتے ہیں (7) کتاب و سنت میں احکام محدود اور مسائل بہت زیادہ ہیں اسلئے اجتہاد کرنا وغیرہ۔ اسلئے ان چار امام نے مجتہد بن کر قرآن و احادیث سے سمجھنے کے قانون بنائے۔
صحاح ستہ: صحاح ستہ لکھنے والے ان مجتہدین کے بعد آئے، مام محمد بن اسماعیل (194۔256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی) ھجری میں پیدا ہوئے۔ فقہ کے چار امام اور احادیث کے چھ امام حضور ﷺ کے مقابلے میں نہیں بلکہ حضورﷺ کی اتباع میں ہیں۔
اہلحدیث جماعت: صحاح ستہ سے پہلے قرآن و احادیث موجود تھا جس پر عمل ہو رہا تھا۔ صحاح ستہ کے آنے کے بعد بھی اسی طرح عمل جاری رہا کیونکہ حضور ﷺ، صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین کے دور میں احادیث پر عمل ہو رہا تھا۔ اہلحدیث نے تقلید کو بدعت و شرک کہہ کر بخاری و مسلم کی صحیح احادیث پر عمل کرنے کا قانون بنایا مگر یہ نہیں بتا رہے کہ کس مجتہد نے یہ قانون بنایا جس کی ساری اہلحدیث جماعت مقلد ہے؟
احادیث کی اقسام: (۱) مرفوع: جس حدیث کی سند حضور ﷺ تک پہنچتی ہو اس کو مرفوع حدیث کہتے ہیں۔ (۲) موقوف: جس حدیث کی انتہا صحابہ کرام تک ہو اس کو موقوف کہتے ہیں۔ (۳) مقطوع: وہ حدیث جو حضور ﷺ اور صحابی سے منسوب نہ ہو بلکہ تابعی تک سند ہو۔ اس لئے اب سمجھیں کہ حضور ﷺ، صحابہ کرام اور تابعین کے قول و فعل و تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔
ہوم ورک: محدثین فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی بات (حدیث) کو 114000 صحابہ کرام نے سُنا (سماع) ہے اور صحابہ سے تابعین اور تابعین سے تبع تابعین نے سُنا اور پھر احادیث کتابی شکل میں سند اور متن کے ساتھ اکٹھی کی گئیں ہیں۔ اس پر اہلتشیع بے بنیاد مذہب سے سوال ہے:
سوال: حضور ﷺ کے کم و بیش 124000 صحابہ کرام (اہلبیت سمیت) نے ملکر حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق زندگی گذاری، احادیث کو بیان کیا جس میں سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔ اہلتشیع کا کونسا ڈپلیکیٹ علی ہے جس نے قرآن بھی خود اکٹھا کیا اور اہلتشیع یہ بھی بتائیں کہ تین دور ( صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین) کی مرفوع، موقوف اور مقطوع احادیث کے اہلتشیع راوی (صحابی، تابعین و تبع تابعین) کون کون ہیں؟
بے بنیاد مذہب: اہلتشیع کی احادیث کی کتابیں اسناد اور راوی کے بغیر منگھڑت ہیں، حضور ﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جھوٹ منسوب ہے، اسلئے جب قرآن و سنت ہی نہیں تو فقہ جعفر کیسے سچی ہو سکتی ہے۔ اب جس کی بنیاد ہی جھوٹ پر بنی ہو اُس کو مسلمان کیسے کہہ سکتے ہیں۔ قصے اور کہانیوں کا نام اور الزامی سوالوں کا نام ”اسلام“ رکھا ہے۔ اللہ کرے مرنے سے پہلے کسی اہلتشیع کو سمجھ آ جائے۔
اتحاد امت: خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی علماء کرام اہلسنت ہیں جنہوں نے 600 سال میں دین کی خوب خدمت کی اور اُس دور میں بہت سا علمی کام ہوا، البتہ سعودی عرب کے وہابی علماء نے خلافت عثمانیہ کے احتتام پر ساری دُنیا کے اہلسنت کو بدعتی و مُشرک کہاجس سے امت مسلمہ کا نقصان ہوا۔
دیوبندی اور بریلوی خلافت عثمانیہ والے ہیں جن کا آپس میں اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کُفریہ عبارتیں ہیں۔ اگر دیوبندی سعودی عرب کے وہابی علماء کے ساتھ ہیں تو ان کے اکابر وہابی کے نزدیک بدعتی و مُشرک ہیں۔ اسلئے تقیہ بازی نہ کریں۔
ایک مصلہ: ساری دُنیا میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی طریقے سے قرآن و سنت کے مطابق نماز ادا کی جاتی ہے، اگر سعودی عرب نے ایک مصلے پر ساری دُنیا کو اکٹھا کیا ہے تو پھر دیوبندی کو حنفیت چھوڑ کر اور اہلحدیث کو غیر مقلدیت چھوڑ کو ”حنبلی“ طریقے سے نماز ادا کرنی چاہئے ورنہ مصلہ ایک نہیں ہے۔