اہلتشیع سے علمی بات
دور حاضر میں مسلمانوں کو ایک ہونا چاہئے لیکن اس میں رکاوٹ اہلتشیع حضرات کی جہالت، حضور ﷺ اور مولا علی رضی اللہ عنہ سے جھوٹی اور منگھڑت بات منسوب کرنا، اہلتشیع کا اپنی کتابوں سے انکار اور اہلسنت کی کتابوں سے احادیث کے لفظوں کی غلط تشریحات ہیں جیسے حدیث فدک، قرطاس، غدیر وغیرہ پر جھوٹ بولتے ہیں اور اہلسنت پر الزامی سوال تیار کرتے ہیں حالانکہ اہلتشیع پہلے اپنی کتابوں میں لکھے ائمہ کرام کے اقوال، منگھڑت احادیث کے حوالوں پر توبہ کریں اور پوسٹ کے آخر پر لکھے سوال کا جواب دیں:
قرآن کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ: احتجاج طبرسی میں ہے: ولوسرحت لك كل ما اسقط وحرف وبذل مما يجرى هذا المجرى لطال وظهر ما حظره التقية اظهاره (ص 128مطبوعہ ایران)’’ اگر میں سب کچھ تفصیل سے بتائوں جو آیتیں قرآن سے خارج کر دی گئی ہیں یا جن میں تحریف اور تبدیلی کر دی گئی ہے تو بات طویل ھو جائے گی اور جس راز کے افشا کرنے سے تقیہ مانع ھے وہ ظاہر ھو جائے گا۔
قرآن میں کمی بیشی: عن هشام بن سالم عن ابى عبد الله عليه السلام قال ان القرآن الذى جاء به جبريل عليه السلام سبعة عشر الف آية ’’حضرت جعفر کہتے ہیں کہ جوقرآن حضرت جبرئیل جناب نبی کریمﷺ پر لائے تھے وہ سترہ ہزار آیات پر مشتمل تھا۔‘‘ (اصول كافى ص 671 باب النوادر )
علماء کا اتفاق: فصل الخطاب ص30 ‘‘میں ہے ’’شیعی علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تحریف قرآن پر دلالت کرنے والی روایات متواتر ہیں۔” اور تفسیر صافی کے مقدمہ میں شیعی مفسر جناب کاشی لکھتے ہیں کہ ’’ قرآن کچھ وہی ھے کچھ بدلا ہوا ہے اور کچھ حذف کر دیا گیا ہے۔‘‘ گویا اللہ تعالیٰ نے جو ﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحافِظونَ﴾ کے ذریعے اس کی حفاظت کا اعلان فرمایا تھا، وہ غلط تھا یا وقت نے اسے غلط ثابت کر دیا۔نعوذ بالله من ذلك جبکہ موجودہ قرآن 6666 آیات پر مشتمل ہے۔ جب قرآن ہی آپ کے نزدیک غیر محفوظ ہے تو پھر اس کی تفسیر کے موجود ہونے کا دعویٰ کیسا؟
احادیث شیعہ: شیعہ کتب حدیث کو جب دیکھا جاتا ہے تو ان کتب کے اندر تناقضات اور تضادات کے علاوہ ان کے راویان حضرات بھی ماشاءاللہ تقریباً سب ہی مناکیر، مجاہیل،کذاب، وضاع ہی دیکھنے میں آتے ہیں جیسا کہ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی بحوالہ کتب شیعہ ضعفاء اور مجاہیل شیعی راویوں کے ناموں کی کھیپ بیان فرماتے ہیں:
فهؤلاء كلهم مجاهيل مع جماعة أخرى لا تكاد تحصى وقد روى عنهم شيوخهم كعلي بن ابراهيم وابنه ابراهيم ومحمد بن يعقوب الكليني وابن بابويه وأبي جعفر الطوسي وشيخه أبي عبدالله الملقب بالمفيد في صحاحهم التي أوجب العمل بما فيها مجتهدوهم وزعموا انها توجب العلم القطعي، نص على ذلك المرتضى والطوسي والحلي "حاصل ترجمہ یہ کہ تمام راوی مع اپنے ساتھیوں کے جو بے شمار ہیں، سب کےسب مجہول ہیں، لیکن ابو جعفر طوسی اور مفید ایسے شیعی مصنفوں نے اپنی ان صحاح میں جن شیعہ مجتہدین کے نزدیک عمل کرنا واجب ہے کئی راویوں کی احادیث کو جمع کیا ہے جیسا کی مرتضیٰ اور طوسی وغیرہ نے تصریح کی ہے۔‘‘( تحفه اثناعشریه ص 223)
ائمہ اہل بیت حرام و حلال میں مختار: دو روایتیں بطور نمونہ ملاحظہ فرما لی جائیں علامہ حسین قمی نو اور میں ایک حدیث لائے ہیں: عن محمد بن سنان قال: كنت عند أبي جعفر الثاني عليه السلام فأجريت اختلاف الشيعة، فقال: يا محمد إن الله تبارك وتعالى لم يزل متفردا بوحدانيته ثم خلق محمدا وعليا وفاطمة،والحسن والحسین فمكثوا ألف دهر، فخلق جميع الاشياء، فأشهدهم خلقها وأجرى طاعتهم عليها وفوض أمورها إليهم، فهم يحلون ما يشاۆون ’’پہلے اللہ تعالیٰ واحد تھا، پھر حضرت محمد ﷺ علی، فاطمہ، حسن و حسین کو پیدا فرمایا، پھر ایک ہزار زمانہ توقف کیا پھر ان کے سامنے دوسری چیزوں کو پیدا فرمایا اور ان لوگوں پر ان کی اطاعت فرض فرمائی اور مخلوق کے کام ان کے سپرد کر دیئے جو چاہیں ان پر حلال کریں اور جو چاہیں حرام کریں۔‘‘ ( تحفه اثناعشریه ص 338)
غور کے قابل: اہل بیت کی طرف اس کو منسوب کرنا حد درجہ نادانی ہے کیونکہ اللہ کریم کی حلال و حرام کی تشریح کا حق تو حضور ﷺ کو حاصل ہے، البتہ قرآن پاک میں نبی کریم پر سورہ تحریم ﴿يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ﴾ بھی نازل فرمائی۔
توہین حضرت بتول: ’’پس جب ارادہ تزویج فاطمہ ہمراہ علی ہوا، جناب فاطمہ سے پنہاں حضرت نے بیان کیا، جناب فاطمہ نے کہا کہ میرا آپ کو اختیار ہے لیکن زنان قریش کہتی ہیں کہ علی بزرگ شکم اور بلند دست ہے اور بند ہائے استخوان پراگندہ ہیں،آگے سر کے بال نہیں آنکھیں بڑی اور ہمیشی خندہ دہاں اور مفلس ہیں۔(جلال العیون ص 130ج1 ) سوچنے کی بات یہ ہے کیا واقعی حضرت فاطمہ ایسی بازاری گفتگو کی خوگر تھیں؟
توہین حضرت علی: ان عليا عليه السلام قال على منبر كوفة يايها الناس ستدعون الىٰ شىء فسبونى ’’ حضرت علی فرماتے ہیں لوگو تمہیں میری دشنام طرازی کی دعوت دی جائے گی ،پس تم گالی گلوچ دے لینا۔‘‘ (اصول كافى ص 484)
قاتل اہل بیت: شیخ کشی نے بہ سند معتبر حضرت محمد باقر سے روایت کی ہے کہ’’ ایک روز حضرت حسن اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھے تھے، ناگاہ ایک شیعی سوار آیا کہ اسے سفیان بن ابی یعلی کہتے تھے اس نے کہاالسلام عليك يا مذل المومنين ’’مومنوں کو ذلیل کرنے والے تجھے سلام۔‘‘ (جلال العیون ص 228) بلکہ حضرت حسین کے قاتل بھی شیعہ ہی تھے’’پس بیس ہزارمرد عراقی نے امام حسین کی بیعت کی جنہوں نے بیعت کی تھی انہوں نے ہی شمشیر امام حسین پر کھینچی اور ہنوز بیعت ہائے امام حسین ان کی گردنوں میں تھی کہ امام حسین کو شہید کیا۔(جلال العیون ج 1 ص 279 ) حضرت علی کا قاتل بھی شیعہ تھا۔ جلاء العیون میں ہےکہ عبدالرحمٰن بن ملجم قاتل حضرت علی بھی شیعہ تھا۔(ج ا ص 199)
احایث کے دلائل: اسی طرح اہلسنت کی کتابوں میں اہلتشیع گند ڈالتے ہیں اور انکے ساتھ ساتھ نام نہاد سنی علماء بھی ایک حدیث پکڑ کر تشریح کرتے ہیں حالانکہ حدیث بخاری کی ہو یا مسلم کی، ایک حدیث سے نہیں بلکہ سب احادیث کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے جیسے باغ فدک کی حدیث پر کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض گئیں حالانکہ اہلسنت کہتے ہیں کہ احایث کے دلائل ایسے ہیں:
عن عائشة فقال لهما أبو بكر: سمعت رسول الله ﷺ يقول: لا نورث، ما تركناه صدقة، إنما يأكل آل محمد من هذا المال.قال أبو بكر: والله لا أدع أمراً رأيت رسول الله ﷺ يصنعه فيه إلاّ صنعته.قال: فهجرته فاطمة عليها السلام فلم تكلّمه حتى ماتت. (بخارى شريف ص995، 996)
اس روایت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی معذرت اور اس کی دلیل جس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا دوبارہ مطالبہ نہ کرنا صاف طور پر ذکر ہے اور فہجرت کا معنی یہ ہے کہ پھر جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فدک کے معاملے پر ملاقات نہیں کی اور پھر چھ ماہ کے بعد اپنے آنحضرت ﷺ کو جا ملیں اور بخاری کی دوسری حدیث میں وجدت کا لفظ بھی آیا ہے۔ جس کا معنی ندمت اور حزنت ہے اس لیے اب معنی یوں ہو گا کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے آپ نے جب معقول جواب سنا تو اپنے دعوے پر نادم ہوئیں اور غضبت کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں اپنے آپ پر غصہ آیا ہو۔
اغضاب اور غضب میں نمایاں فرق ہے۔ اغضاب کا معنی بلاوجہ ناراض کرنا ہوتا ہے لیکن حضرت ابونکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تو حدیث’’ لا نورث، ما تركناه صدقة ‘‘ کی وجہ سے مجبوری کا اظہار فرما رہے ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ راست فیصلہ وما اتاكم الرسول فخذوه کے عین مطابق تھا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی یہ ناراضگی اور رنجیدگی محض غلط فہمی کی بناء پر تھی اور اہل اللہ کی ایسی رنجیدگی جس کی بنیاد غلط فہمی پر ہو اس کا کوئی نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہوتا ورنہ حضرت ہارون علیہ السلام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام ناراض ہو گئے تھے، تو کیا حضرت ہارون علیہ السلام مغضوب علیہ قرار پائیں گے؟ ہرگز ہرگز نہیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صلح ہو گئی تھی روى البيهقي من طريق الشعبي أن أبا بكر عاد فاطمة فقال لها علي هذا أبو بكر يستأذن عليك قالت أتحب أن آذن له قال نعم فأذنت له فدخل عليها فترضاها حتى رضيت ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو راضی کر لیا اور وہ راضی ہو گئیں۔‘‘ (حاشیہ بخاری شریف ص 532 ص 1)
ااہلتشیع کی کتابوں میں بھی لکھا ہے: علاوہ ازیں حضرت ابوبکر نے بقول شیعہ مصنف کے فدک بھی حضرت فاطمہ کو دے دیا۔ ( ملاحظہ ہو: اصول کافی ص 355 ) اور شیخ ابن مطہر جلی نے بھی منہاج الکرامہ میں اعتراف کیا ہے: لما وعظت فاطمة ابابكر فى فدك – كتب لها كتابا وروها عليها اور حجاج السالکین میں ہے: فقالت : والله تفعلن فقال والله لأفعلن فقالت اللهم اشهد فرضيت بذالك وأخذت العهد عليه . (تحفه اثنا عشريه فارسى ص279) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فدک کی تحریر لکھ دی تھی۔(جلاء العيون اردو ص 151)
قانون: اگر غضب کے معنی اسطرح لینے ہیں تو پھر اس حدیث پر بھی کیا یہی قانون لگے گا۔ حضرت امام صادق سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی (جمیلہ) سے نکاح کرنا چاہا۔ جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض ہو کر میکے چلی آئیں، حضرت نبیﷺ نے جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کہا کہ جاؤ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما کو بلا لاؤ، پس جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ گئے۔ ابوبکر و عمر عنھما کو بلا لائے، جب نزدیک رسول خدا ہوئے تب آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: علی! تم نہیں جانتے کہ فاطمہ (رضی اللہ عنھا) میرے پارہ تن ہے اور میں فاطمہ سے جس نے اسے ایذاء دی اس نے مجھے ایذء دی الخ۔ اور بالکل یہی واقعہ ہماری کتب احادیث میں بھی موجود ہے چنانچہ ترمذی شریف میں ہے۔
عن عبد الله بن الزبير ، أن علياًً ذكر إبنة أبي جهل ، فبلغ النبي ، فقال إنها فاطمة بضعة مني ، يؤذيني ما آذاها ، وينصبني ما أنصبها "حضرت عبداللہ بن زبیر سے روایت ھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا تو جب آنحضرتﷺ کو اطلاع پہنچی تو فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنھا میرا گوشہ جگر ہے، جو چیز فاطمہ رضی اللہ عنھا کو تکلیف دہ ہے وہ مجھے بھی تکلیف دہ ہے، جو چیز اس کیلیے بوجھ کا سبب ہے وہ میرے لیے بھی ہے۔(مسلم شريف ج 2 ص 290)
اسی طرح شیعہ اصول کے مطابق تو صغریٰ کبریٰ جوڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں بھی "مغضوب علیہ” نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے جو نتیجہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حق میں نکالنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ بحمدللہ ہمارے نزدیک لاریب حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے پیشرؤں کی طرح جنتی ہیں چوتھے درجہ اور چوتھے خلیفہ برحق تھے۔
شیعہ کی کتابیں بھی خلفاء ثلاثہ کے فضائل سے بھری پڑی ہیں چند حوالے نگارش کیے دیتا ہوں فروع کافی ج 3 ص 146، تفسیر حسن عسکری ص231 تفسیر آیت غار، تفسیر قمی ص 157 تفسیر آیت غار، کشف الغمہ 220 مطبوعہ ایران، احتجاج طبرسی۔ مجمع البیان28 آية الذى بالصدق وغيره
پوسٹ کا سوال: قرآن کے بارے میں اہلتشیع کا عقیدہ کیا ہے اور جن کتابوں میں تحریف قرآن کا عقیدہ لکھا ہے اُن علماء، راوی اور کتابوں کے بارے میں کیا عقیدہ ہے؟ اہلتشیع کی معتبر تفسیر کونسی ہے جس کا حوالہ مانتے ہوں؟ اہلتشیع کی احادیث کی معتبر کتابیں کونسی ہیں، معتبر راوی کونسے ہیں؟ اہلتیشع اگر اپنی کتابوں کو تسلیم نہیں کرتے تو کس اصول سے اہلسنت کی احادیث کی کتابوں کی اپنی مرضی کی تشریح کرتے ہیں۔ اتنی متضاد باتیں ان کی کتابوں میں کیوں ہیں؟
دعوی: اہلسنت کا دعوی ہے کہ اہلتشیع کی منگھڑت احادیث کی وجہ سے یہ اعلان ہے کہ اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ورنہ ان سوالوں کے جواب دیں۔
نتیجہ: اسلام ایک ہی ہے مگر اہلتشیع جماعت کو ان کے ذاکرین اور علماء اچھے طریقے سے سمجھا نہیں پائے جس سے غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اللہ کرے ان کی غلط فہمیاں اپنی کتابوں کی تصدیق سے ہی ٹھیک ہو جائیں اور توہین رسالت کی طرح توہین صحابہ پر بھی قانون منظور ہو جائے۔
اتحاد امت: اہلسنت کہلانے والی جماعتیں اور جماعتوں کی عوام سے سوال ہیں:
۱) اہلسنت بریلوی کا کہنا ہے کہ دیوبندی اپنے علماء کی چار کفریہ عبارتوں سے توبہ کرلیں اور اعلان کریں کہ دیوبندی وہی ہیں جو خلافت عثمانیہ والے تھے اور جن کو وہابی علماء نے (ذکر ولادت، عرس، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے) بدعتی و مُشرک کہا۔
۲) دیوبندی بریلوی حضرات کے فتاوی رضویہ سے بدعت و شرک نہیں دکھاتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ بریلوی فتاوی رضویہ پر عمل نہیں کرتے اور مستحب اعمال (اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، عرس، ایصالِ ثواب، میلاد، قبر پر اذان والے کلمات وغیرہ) کو فرض سمجھ کر کرتے ہیں۔
افسوس: دیوبندی اور بریلوی کی اس لڑائی میں عوام جاہل اور گنوار بن گئی ہے بلکہ رافضی اور قایانی بہتر طور پر پروموٹ ہوئے اس کے مبارک باد دونوں جماعتوں کو جاتی ہے۔
3) اہلحدیث حضرات تقلید کو بدعت و شرک کہتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد کے کہنے پر کہتے ہیں اور کس مجتہد نے ان کو کن اصولوں پر بخاری و مسلم کی صحیح احادیث پر اکٹھا کیا؟
حل: سعودی عرب اگر خلافت عثمانیہ، چار مصلے اجماع امت، کے محدثین و مفسرین کو بدعتی و مشرک کہنے کا پراپیگنڈہ نہ کرے بلکہ متفقہ عقائد اہلسنت پر عمل کرے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں یا پاکستان کے علماء اپنی اپنی عوام کو ایک ہونے کا مشورہ دیں۔