Dar Ka Karobar (ڈر کا کاروبار)

ڈر کا کاروبار

غوروفکر: سوال یہ ہے کہ عوام نجومی، کاہن، پامسٹ کو ہاتھ دکھا کر یا اخبار میں "آپ کا یہ ہفتہ کیسے گذرے گا” پڑھکر یا طوطے یا کسی بھی طریقہ سے فال نکلوا کر یا جتنے بھی عملیات ہیں ان پر اعتماد کیوں کرتی ہے؟
اس کی وجہ کیا یہ نہیں کہ ہر کوئی پنڈت، پادری، عام، کاہن، نجومی کے پاس جا کر اپنی آج اور آنے والی کل کی پریشانیاں جان کر اُس کا حل نکالنا چاہتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ڈر کا یہ کاروبار کافی منافع بخش ہے۔
کیا اس کی دوسری وجہ یہ نہیں ہے کہ ہمیں یہ تعلیم ہی نہیں دی گئی کہ ڈر، خوف، مصیبتیں، پریشانیاں، بیماریاں اور رزق کے کم ہو جانے سے اللہ کریم ہمیں آزماتا ہے، اسلئے ہر پریشانی اپنے وقت پر آتی ہے اور اپنے وقت پر چلی جاتی ہے، لیکن ہر مسلمان کا کام کوشش کرنی ہے مگر نتیجہ دیکھنا نہیں ہے۔
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ جس کو اللہ کریم آزمائش میں ڈالے، اُس کو کوئی نکال دے یا کما حقہ اُس کی وجوہات سمجھا دے؟
کیا مسلمان کو اپنی تقدیر پر ایمان لانے کے بعد یہ یقین نہیں ہے کہ اللہ کریم اُس کا مستقبل بدل سکتا ہے اور کسی بھی وقت اُس کی تقدیر بدل کر اُس کو امیر بنا سکتا ہے؟ کیا اللہ کریم پر ہمیں یقین نہیں ہے؟
البتہ عوام پر قرآن واحادیث کا ”دَم“ اسلئے اثر نہیں کرتا کیونکہ ان کی نظرمیں نائن الیون اور بریگزٹ جیسی من و عن پیش گوئیاں کرنے والا بلغاریہ کا نجومی ”بابا وانگا“، نجومی پنڈت جگناتھ گروکا یہ بتانا کہ بچہ پیدا ہو گا یا بچی اور فٹ بال کا ٹیسٹ میچ کا فائنل کون جیتے گا بتانے والے "نجومی” زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے جواری جوا کھیلتے ہیں، ایسے پنڈت، دو نمبر پیر اور نجومی عوام کے دلوں میں ”بُت“ کی طرح رچ بس گئے ہیں۔
نتیجہ: اگر عوام کو شعور آ جائے کہ اس کا مستقبل یہ دنیا کی پریشانیوں کا حل نکالنا نہیں بلکہ آخرت کی پریشانیوں کا حل نکالنا ہے، یہ نجومی، کاہن، پنڈت، پامسٹ، طوطے، ستارے، ہر ہفتے کا حال بتانے والے آخرت کی بات نہیں کرتے کیوں؟ اسلئے کہ ان کی آخرت خراب اور دوسروں کی کر رہے ہیں۔
عقیدہ: ہمیں تو اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ کریم نے سچ فرمایا اور رسول اللہ نے سچ فرمایا ہے، اسلئے کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے اور ہم اُس اللہ کریم کو نہیں مانتے جو کچھ دے نہیں سکتا بلکہ اُس اللہ کریم کو مانتے ہیں جو سب کچھ دے سکتا ہے۔
ایمان: یہ ایمان رکھو کہ اللہ تعالی زمین اور آسمان کے غیب کا علم رکھنے والا ہے(النمل:65)۔ البتہ کسی کو اللہ کریم کے حکم سے کچھ علم حاصل بھی ہو جائے تو وہ بھی ہماری آزمائش ہے جیسے
صحیح مسلم 5817: بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ لغو ہیں کچھ اعتبار کے لائق نہیں ۔ “ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ ! بعض باتیں ان کی سچ نکلتی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” سچی بات وہی ہے جس کو جن اڑا لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے جیسے مرغ مرغی کو بلاتا ہے دانے کے لیے (اور دوسرا مرغ اس کی آواز کو سمجھ جاتا ہے اسی طرح جن کی بات اس کا دوست سمجھ لیتا ہے اور لوگ نہیں سمجھتے) پھر وہ اس میں اپنی طرف سے سو جھوٹ سے بھی زیادہ ملاتے ہیں ۔ “
شیطان: یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کے لیے اسے سجا دیا گیا ہے۔ اور اسے ہر مردود شیطان سے محفوظ رکھا ہے۔ ہاں مگر جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرے اس کے پیچھے دہکتا ہوا (کھلا شعلہ) لگتا ہے۔(سورہ حجر 16، 17، 18)
سزا: ” جو شخص عراف( کسی غیب کی خبریں سنانے والے) کے پاس جائے اس سے کوئی بات پوچھے تو اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہ ہو گی (صحیح مسلم 5821)
شریعت کا مُنکر: جو کسی کاہن (نجومی یا غیب کا علم بتانے والے) کے پاس گیا اور جو اس نے کہا اس نے اسکی تصدیق کی تو وہ ان چیزوں سے بری ہو گیا جو محمدﷺ پر نازل کی گئیں یعنی اس نے نبیﷺ پر نازل کی گئی شریعت کا انکار کیا۔ (سنن ابو داؤد 3904)
آسٹرالوجسٹ: ستاروں کے ذریعے جو آسٹرالوجسٹ کہتے ہیں کہ تمہارا ستارا گردش میں ہے اس کو ماننا کفر قرار دیا گیا ہے۔
آج کل اخبارات و رسائل اور جرائد میں “ستارے کیا کہتے ہیں؟” کے عنوان سے عموما مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ لوگ ان امور کی حقیقت پر غور نہیں کرتے ۔ ستاروں اور برجوں کی تاثیر کا عقیدہ رکھنا یہی تو “کہانت” ہے۔ ہر علاقہ میں اس کی تردید اور مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔ایسے رسائل گھروں میں نہ لائے جائیں ، نا خود پڑھے جائیں نہ کسی کو دیئے جائیں کیونکہ ان ستاروں اور برجوں کا علم حاصل کرنا، اپنی ولادت کے برج کو جاننا اور اپنے موافق ستارے کی معلومات رکھنا ،اس کے متعلق تحریرات پڑھنا ایسے ہی ہے جیسے کسی نجومی کے پاس جاکر اس سے احوال دریافت کیے جائیں ۔ ایسی باتوں کو پڑھ کر ان کو درست سمجھنا اور ان کی تصدیق کرنا کفر ہے۔
صحیح بخاری 4147: آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندوں نے اس حالت میں صبح کی کہ ان کا ایمان مجھ پر تھا اور کچھ نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ میرا انکار کئے ہوئے تھے ۔ تو جس نے کہا کہ ہم پر یہ بارش اللہ کے رزق ‘ اللہ کی رحمت اور اللہ کے فضل سے ہوئی ہے تو وہ مجھ پر ایمان لانے والا ہے اور ستارے کا انکار کرنے والا ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ بارش فلاں ستارے کی تاثیر سے ہوئی ہے تو وہ ستاروں پر ایمان لانے والا اور میرے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔
پہنچی ہستی:جو جادوگر شیطان، ہمزاد، موکل سے کام لے کر ہماراماضی اور حال بتا کر ہمارا ایمان لوٹتے ہیں حالانکہ انہوں نے ہمارا ماضی اور حال ہمارے ہمزات شیطان سے معلوم کیا ہوتا ہے، کیونکہ آپﷺ نے فرمایا ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان پیدا ہوتا ہے جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے اور میرا بھی شیطان تھا لیکن اب وہ مجھے خیر کے علاوہ کچھ نہیں بتاتا۔ (صحیح مسلم 7108)
٭ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ، مجھ سے ایک انصاری صحابی نے بیان کیا کہ وہ رات کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے ، اتنے میں ایک ستارہ ٹوٹا اور بہت چمکا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم جاہلیت کے زمانے میں کیا کہتے تھے جب ایسا واقعہ ہوتا ۔ “ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے ، لیکن ہم جاہلیت کے زمانے میں یوں کہتے : آج کی رات کوئی بڑا شخص پیدا ہوا یا مرا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تارہ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے کے لیے نہیں ٹوٹتا لیکن ہمارا مالک جل جلالہ جب کچھ حکم دیتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے تسبیح کرتے ہیں پھر ان کی آواز سن کر ان کے پاس والے آسمان کے فرشتے تسبیح کہتے ہیں یہاں تک تسبیح کی نوبت دنیا کے آسمان والوں تک پہنچتی ہے پھر جو لوگ عرش اٹھانے والے فرشتوں سے قریب ہیں وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا حکم دیا تمہارے مالک نے ، وہ بیان کرتے ہیں ۔ اسی طرح آسمان والے ایک دوسرے سے بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ خبر اس دنیا کے آسمان والوں تک آتی ہے ان سے وہ خبر جن اڑا لیتے ہیں اور اپنے دوستوں کو آ کر سناتے ہیں ۔ فرشتے جب ان جنوں کو دیکھتے ہیں تو ان تاروں سے مارتے ہیں (تو یہ تارے ان کے کوڑے ہیں) پھر جو خبر جن لاتے ہیں اگر اتنی ہی کہیں تو سچ ہے لیکن وہ جھوٹ ملاتے ہیں اس میں اور زیادہ کرتے ہیں۔(صحیح مسلم 5819)
دل کا راز جاننا: نبی کریم ﷺ نے جادوگر کو دین کی دعوت دی تو اس نے نبیﷺ کو کہا میں آپ کے دل کی بات بھی جانتا ہوں، تو نبیﷺ نے دل میں سورۃ دخان کی آیات کی تلاوت کی تو آپﷺ نے پوچھا کہ بتاؤ میرے دل میں اس وقت کیا خیال ہے تو یہ جان نہ سکا اور کہا کہ آپ نے” دخ” تو کہا ہے، جس پر نبیﷺ نے فرمایا تو اپنی بساط سے آگے کبھی نہیں بڑھ سکے گا۔ (صحیح بخاری 1354)
کوشش: سیدنا معاویہ بن حکم نے رسول اللہ سے عرض کیا: ہم ایام جاہلیت میں کاہنوں کے پاس جایا کرتے تھے اور بُرا شگون لیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ” اب کاہنوں کے پاس مت جاؤ اور برا شگون وہ خیال ہے جو تمہارے دل میں گزرتا ہے لیکن اس خیال کی وجہ سے تم کوئی اپنا کام نہ چھوڑو۔ (مسلم 5813)
کمائی: نبی کریم ﷺ نے کتے کی قیمت، کاہن کی کمائی (نجومی، آسٹرالوجی، پالمسٹری) اور زانیہ عورت کے زنا کی کمائی کھانے سے منع فرمایا (بخاری 5346)۔ کہانت کا علم حاصل کرنا جادو سیکھنا ہے اور اس کی کمائی حرام ہے۔
حرام علم: جس نےعلم نجوم میں سے کچھ حاصل کیا اس نے جادو کا ایک حصہ حاصل کر لیا اور اب جتنا زیادہ علم حاصل کرے گا گویااتنا ہی زیادہ جادو حاصل کرے گا۔ (ابن ماجہ 3726)
فال: طوطوں (پرندوں) کے ذریعے فال نکالنا ایسا ہی ہے جیسے مشرکین عرب تیروں کے ذریعے فال نکالا کرتے تھےجیسے سورۃ المائدہ 3: ” اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری ہو یہ سب بد ترین گناہ ہیں”
ابو داود 2027: جب نبیﷺ جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں پر رکھی گئی سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کی تصویریں جن میں ان کے ہاتھوں پر فال کے تیر تھے، آپﷺ نے وہ تصاویر خانہ کعبہ سے نکلوا دی اور کہا کہ اللہ انہیں ہلاک کرے، اللہ کی قسم ان دونوں ہستیوں (ابراہیم علیہ اسلام اور اسماعیل علیہ السلام )نے کبھی فال نہیں نکالا۔
حالت: ایک مرتبہ جب سیدنا جریر یمن پہنچے تو وہاں ایک شخص نے تیروں سے فال نکالنے والے کو کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی یہاں آ گئے ہیں۔ اگر انہوں نے تمہیں پا لیا تو تمہاری گردن مار دیں گے۔ابھی وہ اس مسئلے کے لئے فال نکال ہی رہا تھا کہ سیدنا جریر وہاں پہنچ گئے اور فرمایا کہ یہ فال کے تیر توڑ کر کلمہ لا الٰہ الا اللہ پڑھ لے ورنہ میں تیری گردن مار دوں گا۔ اس شخص نے تیر وغیرہ توڑ ڈالے اور کلمہ ایمان کی گواہی دی۔ (صحیح بخاری 4357)
چاند و سورج گرہن: ہماری حاملہ عورتوں کو سورج و چاند گرہن سے ڈرایا گیا ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن اس دن لگا جس دن (آپ ﷺ کے صاحبزادے) ابراہیم کا انتقال ہوا بعض لوگ کہنے لگے کہ گرہن ابراہیم ؓ کی وفات کی وجہ سے لگا ہے ۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ گرہن کسی کی موت و حیات سے نہیں لگتا ۔ البتہ تم جب اسے دیکھو تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو۔ (صحیح بخاری 1043)
سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ، اور ان دونوں کو کسی کے مرنے سے گرہن نہیں لگتا ، تو جب تم ان دونوں میں سے کسی کو گرہن لگا دیکھو تو نماز پڑھو ، اور دعا کرو یہاں تک کہ جو تمہیں لاحق ہوا ہے چھٹ جائے۔ (صحیح بخاری 1503)
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا ۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ (صحیح بخاری 1044)
رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ (صحیح بخاری 2519)
فرعون: فرعون کو جب نجومی نے کہا کہ نبی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تمہاری حکومت ختم کر دے گا۔ تو فرعون نے اس کاہن، نجومی کی بات میں آکر نبی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ یہی حال ہمارا ہوتا ہے کہ ہم عامل، پنڈت اور نجومی و دو نمبر پیر کی باتوں میں آ کر اپنوں پر شک کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے ہمارے صرف تعلقات خراب نہیں ہوتے بلکہ آخرت خراب ہوتی ہے۔
دُعا: یہ بات پسندیدہ ہے کہ ہم دوسروں کے لئے اچھے الفاظ نکالیں جیسے میرا دوست، بیٹا یا فلاں ایک دن بہت بڑا آدمی بنے گا وغیرہ۔
صحیح بخاری 5754، 5776: نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں البتہ نیک فال لینا کچھ برا نہیں۔“ صحابہ کرام‬ نے عرض کی: نیک فال کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی اچھا کلمہ جو تم میں سے کوئی سنتا ہے، یا کوئی اچھی بات کہنا“۔
ابو داود 3917: رسول اللہ ﷺ نے ایک بات سنی جو آپ کو بھلی لگی تو آپ نے فرمایا : ” ہم نے تیری فال تیرے منہ سے سن لی (یعنی انجام بخیر ہے ان شاء اللہ)۔ ابوداود 3910: اسلئے بدشگونی کو نبی کریم ﷺ نے شرک بھی کہا ہے۔
تجربہ اور سائنس: اسی طرح ایسی پیشنگوئی کرنا جس میں آپ کے تجربے کی بنا پر ہو جائز ہے، جیسا کہ صحافی ملکی ماضی حالات کے تجربے سے مستقبل کی پیشنگوئی اور تجزیہ کرتے ہیں بغیر کسی علم غیب یا ستاروں کے علم کا دعوی کیے۔ اسی طرح موسم کی صورتحال کا بتانا اپنے کیلکولیشنز، موسمی آلات اور دیگر سائنسی طریقوں کے ذریعے یہ بھی جائز ہے۔
ہندوانہ اور انتقامی واقعات

میرے دوست نے ایک واقعہ سُنایا کہ میری بیٹی کی منگنی کو ایک سال ہو گیا تھا اور چند دن میں بارات آنی تھی کہ اچانک میری بیوی کو میرے ہونے والے داماد کا فون آیا کہ آپ اپنی بیٹی کا نام بتائیں، اپنا نام بتائیں، کس وقت بیٹی پیدا ہوئی، رات کو ہوئی یا دن کو ہوئی کیونکہ میں نے ایک نجومی یا پیر کو ہاتھ دکھایا ہے، اُس نے کہا ہے کہ اُس کے ساتھ تمہاری زندگی ٹھیک نہیں گذرے گی، لڑکی بڑی بدتمیز ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ بات ہی ایسی تھی۔

اسی طرح کا ایک واقعہ ایک دوست نے سُنایا کہ میرے چچا کہ پیر صاحب مدینہ پاک آئے اور مجھ سے کچھ ریال قرضہ لیا لیکن کئی سال تک واپس نہ کیا تو میں نے کہا کہ آپ میرے چچا کہ پیر ہیں میرے نہیں، اسلئے میرے پیسے نکالیں جو اُس کو نکالنے پڑے لیکن اُس پیر نے اسطرح بدلہ لیا کہ میرا رشتہ مدینہ شریف کے تاجر نے اپنی بیٹی کے لئے مانگا تو میرے چچا اُسی پیر کے پاس گئے، اُس نے چچا کو ڈرا دیا کہ یہاں اس کا نکاح نہیں کرنا اور پھر میرے چچا نے نکاح ہونے نہیں دیا۔۔۔

نجومی یا دو نمبر پیر بھی عوام کے ساتھ ساتھ جہنم کما رہے ہیں کیونکہ مسلم 2230: جو شخص کسی نجومی کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کرے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ سنن ابن ماجہ: 639 جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس آئے اور اس کی بات کی تصدیق کرے تو اس نے اس شریعت کا انکار کیا جو محمد ﷺ پر نازل کی گئی۔

البتہ عوام پر احادیث کا ”دَم“ اثر نہیں کرتا کیونکہ نائن الیون اور بریگزٹ جیسی من و عن پیش گوئیاں کرنے والا بلغاریہ کا مشہورنجومی ”بابا وانگا“، نجومی پنڈت جگناتھ گروکی پیش گوئیاں کہ بچہ یا بچی کیا پیدا ہو گا، فٹ بال کا ٹیسٹ میچ کا فائنل کون جیتے گا یہ بتانے والے نجومی ہیں، جن کی وجہ سے جواری جوا کھیلتے ہیں اور ایسے پنڈت، دو نمبر پیر اور نجومی عوام کے دلوں میں ”بُت“ کی طرح رچ بس گئے ہیں۔

اللہ کریم نے فرمایا: زندگی اور موت کو اسلئے پیدا کیاتاکہ تمہیں آزماؤں کہ کون اچھے عمل کرتا ہے (الملک) اللہ کریم خوف، بھوک، بیماری، کاروبار میں نقصان دے کر آزماتے ہیں۔ اسلئے ایک باپ نے ایک پیر سے پوچھا کہ کیا میں اپنی بیٹی کا نکاح فلاں جگہ کر دوں تو پیر صاحب نے کہا جہاں مرضی کرو لیکن ایک بات یاد رکھو میاں بیوں میں آزمائش، پریشانی، تنگی ضرور آئے گی، البتہ اس طرح تحقیق کرو:

حضور ﷺ نکاح کے خطبہ میں فرماتے: ایمان والو ”سیدھی سچی بات کہو“۔ اسلئے نکاح سے پہلے لڑکی والے لڑکی کی عُمر، تعلیم، ذات پات، بہن بھائی،نمازی ہے یا نہیں، قرآن پڑھ سکتی ہے، بانجھ تو نہیں، حیض آتا ہے یا نہیں، کنواری ہے یا مطلقہ، گھر میں کسطرح کا کھانا کھاتے اور کپڑے پہنتے ہیں، شوق کیا ہیں۔ اسی طرح لڑکے کی عُمر، تعلیم، کمائی، دین کا شوق، پہلا نکاح یا دوسرا، بچے ہیں یا نہیں، کماتا کتنا ہے، کیا علیحدہ مکان میں رکھ سکتا ہے یا نہیں، عادات کیسی ہیں، گھر میں اپنی کمائی کس کو دیتا ہے اور بعد میں کس کو دے گا؟ اس پر تحقیق ہونی چاہئے اور سچ بتاکرقرآن پر عمل کرنا چاہئے۔

تمام دوستوں سے عرض ہے کہ اللہ کریم سے معافی مانگیں اورقرآن و سنت پر عمل کر کے اللہ کی رحمتوں کی امید رکھیں۔نجومی کے سر پر پستول رکھ کرپوچھیں وڈا توں نجومی ایں تے دس تینوں موت کدو اے گی بس کہانی ختم۔ سوئی ہوئی امت کو جگانے کے لئے یہ بتا رہے ہیں کہ اس پر بھی تحقیق کریں:

۱) ہمارے نزدیک دیوبندی اور بریلوی خلافت عثمانیہ، چار مصلے والے ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا، البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفریہ عبارتیں ہیں۔ اگر دیوبندی علماء چار عبارتوں کا دفاع کرنے کی بجائے توبہ کرلیں تو سب بریلوی دیوبندی ہو جائیں گے۔

۲) اہلحدیث جماعت یہ بتا دے کہ کس مجتہد نے اہلحدیث جماعت کو قرآن و احادیث سے ثابت کیا تھا کہ ”تقلید“ بدعت و شرک ہے اور اب صحیح احادیث میں اہلحدیث جماعت میری پیروی کرے گی اور ضعیف احادیث کی مُنکر ہو گی۔نام بتا دے بات ختم ہو جائے گی۔

اتحاد امت: اگر اہلحدیث اور دیوبندی حضرات سعودی عرب کے وہابی علماء سے متفق ہیں تو پاکستان میں بھی دیوبندی حنفیت اور اہلحدیث جماعت غیر مقلدیت چھوڑ کر امام کعبہ کی طرح نماز ادا کریں یا سعودی عرب اعلان کرے کہ 1200سالہ ائمہ کرام کے ماننے والے بدعتی و مشرک نہیں تھے۔

اہلتشیع کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ قرآن کو اللہ کریم نے حضور ﷺ کے صحابہ کرام سے اکٹھا کروایا مگر اہلتشیع کے نزدیک حضرات ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم نعوذ باللہ کافرہیں۔دوسری طرف حضور ﷺ کی احادیث 124000 صحابہ کرام (اہلبیت بھی صحابہ ہی ہیں) نے تابعین کو سکھائیں۔ اب 124000کو چھوڑ کر کونسا ڈپلیکیٹ علی ہے جو حضور ﷺ کے مقابلے میں معصوم اور جس کا فرمان ”حدیث“ کے برابر ہے بلکہ اصل یہ ہے کہ اہلتشیع خود جنگ نہروان والے سبائی ہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general