HajJ ya Bhokaa (حج یا بھوکا)

حج یا بھوکا

ایک بندے نے سوال کیا کہ ایک آدمی حج کرنے جا رہا ہے لیکن اُس کا ہمسایہ بھوکا ہے تو کیا اُس کا حج قبول ہو گا؟ اب اس سوال کو عملی طور پر سمجھتے ہیں کیونکہ یہ سوال نہیں کسی نے ہوا میں چھوڑی ہے:

۱) کیا اُس بھوکے ہمسائے کے ساتھ صرف ایک ہمسایہ رہتا ہے جو حج کرنے جا رہا ہے؟
اگر نہیں تو کیا باقی سب ہمسائے بھی بھوکے ہیں یا کماتے ہیں؟
کیا بھوکا آدمی کوئی کام کر سکتا ہے یا نہیں، اگر کر سکتا ہے تو اُس کو کام پر کیوں نہیں لگاتے؟
کیا بھوکا آدمی پہلے کوئی کام کرتا تھا، اگر کرتا تھا تو کتنے پر؟ اگر دس ہزار روپیہ کماتا تھا تو اب پانچ ہزار پر کام کرے گا یا نہیں؟

۲) یہ بھوکا آدمی نمازی ہے یا بے نمازی ہے؟ اگر بے نمازی ہے تو نمازیوں کا اُس کی مدد کرنا بنتا ہے کیونکہ زکوۃ بھی غریب نمازیوں کا حق ہے جن کا اسلام سے تعلق ہے ورنہ زکوۃ کا حق ادا نہیں ہوتا۔
اگر زکوۃ ہر ایک گناہ گار کو دینی چاہئے تو کیا “بے نمازی” زکوۃ صدقہ خیرات اللہ کریم کی نافرمانی کر کے کیوں مانگ رہا ہے؟
اگر بے نمازی کا زکوۃ مانگنا جائز ہے تو پھر کیا نماز ادا کرنا ناجائز ہے؟

۳) اگر ہمسایہ کوئی عورت ہے تو کیا بیوہ ہے یا مطلقہ ہے؟
اگر بیوہ یا مطلقہ یا تین بچوں کی ماں ہے تو وہ دوسرا نکاح کیوں نہیں کرتی؟
اگر دوسرا نکاح ہمارے معاشرے میں جائز نہیں تو کیا پھر ہم ہندوؤں سے بڑھکر نہیں ہیں، اُن کی عورت تو خاوند کے ساتھ جل کر مر جاتی تھی اور ہم عورتوں کو جیتے جی مار دیتے ہیں اور ایسی عورت بعض اوقات اپنی عزت بھی بچا نہیں پاتی۔

۴) ایسا سوال علماء سے کیوں پوچھا جاتا ہے کیونکہ علماء تو خود مدارس میں زکوۃ و صدقات و خیرات کے مال مانگ کر خدمت اسلام کر رہے ہیں۔اُن سے پوچھنے کا مطلب کیا ہوا؟
حق تو یہ بنتا ہے کہ صدقہ، زکوۃ و خیرات سے نہیں بلکہ مسلمان دین کی خدمت اپنی جان سے کریں یعنی خود عالم بن کر فی سبیل اللہ مؤذن، امام اور خطیب بن کر دین کی خدمت کریں۔
اگر ایسا نہیں کر سکتے تو محلے کا ہر بندہ مسجد کے امام کو 500 روپیہ ہر ماہ دے، جو نماز ادا کرتا ہے یا نہیں کرتا، تاکہ امام یا خطیب کو معاشی پریشانی نہ ہو اور وہ حق بات بھی کرنے سے نہ گبھرائے۔

۵) مذہبی اور معاشرتی کرپشن بھی اسلئے زیادہ ہے کہ جب حقدار کو دین پر چلنے کا حق نہیں ملتا تو وہ دو نمبر سے کرپشن کرتا ہے اور کماتا ہے جیسے آج کے دور میں دو نمبر پیر اور علماء سوء موجود ہیں۔ ہم کرپشن خود ختم نہیں کرنا چاہتے ورنہ مذہبی کرپشن تو اسطرح سمجھ میں آسانی سے آ جاتی ہے اگر باربار پڑھیں:

۶) قرآن وسنت پر چلنے والا ہر مسلمان اہلسنت ہے اور مسلمانوں کے اتحاد میں رکاوٹ سعودی عرب اور ایران ہیں کیونکہ سعودی عرب کے وہابی علماء نے خلافت عثمانیہ 600 سالہ دور، چار مصلے، اجماع امت کو بدعتی و مشرک کہا، انہی کے ایجنڈے پر دیوبندی حنفی اور اہلحدیث غیر مقلد ”بریلوی اہلسنت“ کو بدعتی و مُشرک کہتے ہیں حالانکہ دیوبندیت کو حنفیت (پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے اور المہند کو جھوٹا کہہ کر) اور اہلحدیث کو غیر مقلدیت چھوڑ کر سعودی عرب کے ”حنبلی مصلے“ کے مطابق پاکستان میں نماز ادا کرنی چاہئے تاکہ ایک مصلہ پاکستان میں ہو جائے۔

۷) ایران کے اہلتشیع علماء سے عرض ہے کہ اپنی عوام کو لعنت بے شمار کی بجائے یہ بتائیں کہ اگر اہلسنت کی احادیث بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں لکھی گئیں تو اہلتشیع کی کس دور (صحابہ، تابعین و تبع تابعین) میں لکھی گئیں اور کون کون سے صحابی، تابعی اور تبع تابعین راوی ہیں ورنہ اہلتشیع منگھڑت مذہب ہے جو مولا علی اور حضور ﷺ پر جھوٹ باندھ کر اپنا ٹھکانہ جہنم میں کر رہا ہے۔

نتیجہ: ایسا کوئِ بھوکا نہیں ہے جو رات کو روٹی کھا کر نہ سوتا ہو۔ بھوک سے کسی کو مرتے نہیں دیکھا بلکہ لوگوں کو خواہشات کے ہاتھوں مرتے دیکھا ہے۔ اس حدیث سے سب کو سمجھ آ جائے گی اور جو عمل نہیں کرتا اُس کا گناہ اُس پر ہے۔
صحیح بخاری 5975: رسول اللہ نے فرمایا! بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کرنے کو، ضرورت کے موقع پر خرچ نہ کرنے کو، بغیر ضرورت سوال کرنے کو، لڑکیوں کے زندہ درگور کرنے کو، حرام کیا ہے اور فضول بحث و گفتگو کو، کثرت و سوال کو، مال کے ضائع کرنے کو تمھارے لئے نا پسند کیا ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general