Jalil ul Qadar Islami Calendar (جلیل القدر اسلامی کمانڈرز)

جلیل القدر اسلامی کمانڈرز

اسلام اللہ کریم کا پسندیدہ دین ہے اور اللہ کریم نے اس دین کو حضور ﷺ، خلفاء راشدین، سیدنا حضرات سعد بن وقاص، خالد بن ولید، ابوعبیدہ بن جراح، عمرو بن عاص مشہور و معروف اور جلیل القدر صحابہ اور کمانڈرز کے ذریعے دوسرے ممالک میں پھیلایا۔ اس کے بعد فاتح ترکستان قتیبہ بن مسلم، فاتح سندھ محمد بن قاسم، فاتح افریقہ موسی بن نصیر، فاتح اندلس طارق بن زیاد اور یوسف بن تاشفین کمانڈرز کے نام آتے ہیں۔

1۔ قتیبہ بن مسلم
قتیبہ 48ھ (669ء) میں پیدا ہوا، اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں متنازعہ شخصیت حجاج ابن یوسف نے ابن اشعث کے خلاف معرکہ میں پسند کر کے عبدالملک کو سفارش کی تو قتیبہ کو خراسان کا والی مقرر کر دیا گیا اور قتیبہ نے ”اسلام“ کو ماوراء النہر، بخارا، سمرقند، روس کو فتح کرنے کے بعد چین کی سرحد تک جا پہنچایا۔ 47 سالہ قتیبہ 96ھ میں وفات پا کر ازبکستان میں دفن ہوا۔

2۔موسی بن نصیر
حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ نے افریقہ میں فتوحات کیں، اُس کے بعد حسان بن نعمان افریقہ کے گورنر بنے اور ان کے بعدفاتح افریقہ موسی بن نصیر کو افریقہ کا گورنر بن کر بھیجا گیا (موسی بن نصیر کے ابتدائی حالات معلوم نہیں ہیں سوائے ایک دو واقعات کے)، جنہوں نے اچھی مینجمنٹ کی اور اسلامی ریاست کو منظم کیا۔ افریقہ کے قبائل کو سمجھانے کے لئے 3 فوجی حملے کئے جس سے قبائل راہ راست پر آ گئے۔ بربر قبیلے کو دینی تعلیم سے روشناس کروانے کے لئے 17علماء مقرر کئے۔

فاتح اندلس طارق بن زیادہ بھی موسی بن نصیر کا بربر قبیلے سے چُنا ہوا ہیرا ہے جسے والی طنجہ مقرر کیا گیا۔ طارق کی فتوحات کا سلسلہ 83ھ سے 92ھ تک ہے جس میں طارق بن زیاد نے اندلس بھی فتح کیا۔ فتح اندلس کی وجہ اندلس کے بادشاہ راڈرک کا رعایا کے ساتھ ظُلم، اندلس میں مسلمانوں کا راستہ روکنے والا سبتہ کا حکمران کاونٹ جولین کی بیٹی کے ساتھ راڈرک کی زیادتی، کاونٹ جولین کا موسی بن نصیر سے مدد مانگنا، موسی بن نصیر کا حکمت عملی سے پہلا حملہ کاونٹ جولین سے کروایا۔

3۔ طارق بن زیاد
اُس کے بعد طارق بن زیاد، جبل الطارق (جبرالٹر) نے اسپین کی سر زمین پر اترکرکشتیاں جلانے کا حُکم دیا جس کو نفح الطیب للمقری ج 1ص 258 اور المقری سے پہلے الادریسی المتوفی 560ھ جو ابن خلدون سے پہلے کے مورخ ہیں اُس نے بھی یہ واقعہ نزہتہ المشتاق فی اختراق الافاق طبع عالم الکتاب بیروت ج 2 ص 540 پر ذکر کیا ہے، اس کے ساتھ الاکتفاء فی اخبار الخلفاء لابن الکردبوس طبع الجامعتہ الاسلامیہ المدینہ المنورہ ج 2 ص 1007 اوربعد اذاں الحمیری المتوفی 900ھ نے الادریسی کی عبارت کو الردض المعطار فی خبر الاقطار طبع مؤ سستہ ناصر للشقافتہ بیروت ج 1 ص 224 میں نقل کیا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طارق بن زیاد کو خواب میں حضور ﷺ کی زیارت ہوئی اور آپ ﷺ نے اُس کو فتح کی خوشخبری دی۔موسی بن نصیر نے طارق بن زیادہ کو سات ہزار مجاہدین کے ساتھ بھیجا، بعد میں پانچ ہزار اور فوجی بھیجے اور طارق بن زیاد نے جنگ وادی لکہ میں وزیگوتھ حکمران لذریق کے ایک لاکھ کے لشکر کو ایک ہی دن میں بدترین شکست دی جس میں راڈرک مارا گیا۔ فتح کے بعد طارق نے بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کر لیا اور طارق کو ہسپانیہ کا گورنر بنا دیا گیا۔

حکومت: چاروں کمانڈرز 24 سالہ جناب محمد بن قاسم (72ھ – 96ھ)، 48سالہ قتیبہ بن مسلم (48ھ – 96ھ)، موسی بن نصیر اور 46 سالہ طارق بن زیاد (55ھ – 101ھ) اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں فتوحات کرتے رہے اور ولید کی وفات کے بعد سلیمان بن عبدالملک کے دور حکومت میں معزول کئے گئے یا سزا دی گئی۔ اُن کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ اللہ کریم کی مرضی لیکن اس کے بعد اسلام کے دروازے کُھلتے چلے گئے اور اللہ کا دین سب تک پہنچتا گیا۔ حکمرانوں کے بدلنے کے باوجود بھی مسلمانوں کی حکومت اندلس، اسپین وغیرہ میں 800 سال تک رہی۔

4۔ یوسف بن تاشفین
یوسف بن تاشفین، مراکش کے صحرا کا باشندہ، ساتھیوں کے ساتھ صحرائے اعظم اور اس کے جنوب میں ”خاندان مرابطین“ کی حکومت قائم کی اور اُس کو اسپین تک پھیلا دیا۔ صحرائے اعظم میں رہنے والے وحشی، نیم وحشی، بربر قبیلے والوں کو اسلامی تعلیم سے روشناس کروایا۔ تعلیم دینے کا کام یوسف بن تاشفین کے چچا عبداللہ بن یسین کا تھا جنہوں نے سینی گال کے جزیرے میں ایک خانقاہ بھی بنائی تھی۔

یوسف بن تاشقین نے چچا کا ساتھ دیا، پھر اُس نے فاس اور دوسرے شہر فتح کر کے کوہ اطلس کے دامن میں مراکش شہر کی بنیاد ڈالی، اسی دوران اندلسی مسلمان عیسائی بادشہ الفانسو کے خلاف یوسف سے مدد لینے مراکش آئے اور یوسف بن تاشفین نے بادشاہ الفانسو کو ”زلاقہ(پھسلتا ہوا میدان)“ کے میدان جنگ میں شکست دی۔اس تاریخی فتح کے بعد اسپین میں مزید 300 سال مسلمانوں کی حکومت رہی۔ اگریہ فتح نہ ہوتی تو مسلمانوں کی حکومت 1092ء میں ہی ختم ہو جاتی۔ اس جنگ کو صلیبی جنگوں کے آغاز کی اہم ترین وجہ سمجھا جاتا ہے جس کا جواب صلاح الدین ایوبی نے دیا۔

یوسف بن تاشفین نے (453ھ سے 500ھ یعنی 1061ء سے 1107ء)عدل و احسان کے ساتھ حکمرانی کی اور اُس کے بعد علی بن یوسف تاشفین اور تاشفین بن علی نے 500ھ سے 541ھ یعنی 1107ء سے 1147ء تک ”موحدین حکومت“ قائم کی۔ 800سالہ مسلمان حکمرانوں کی نااتفاقیوں نے1234ء میں اندلس کا ہیرا شہر قرطبہ چھن گیا اور مسجد قرطبہ کو گرجا گھر بنا لیا گیا۔ سقوط قرطبہ و اشبیلہ کے بعد اسپین میں آخری ریاست غرناطہ (1232ء سے 1292ء) کو شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کی فوجوں نے آخری غدار حکمران ابو عبداللہ سے چھین لیا اور یہ واقعہ یکم ربیع الاول 892ھ (2 جنوری 1492ء) کو پیش آیا۔

نتیجہ: انفرادی طور پر ہر مسلمان کا کام دین سیکھنا اور سکھانا ہے۔ اسلئے وہ حکمران ہو یا عام آدمی، یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ اسلام کا کام کسطرح کرتا ہے۔ اسلئے نور فراست سے کام لیں اورایک دوسرے کے خلاف الزامی سوال بند کر کے، تفرقہ بازی خرم کریں اور اپنی اپنی جماعت میں داخلے کی شرائط بتانی ہیں جیسے

۱) اہلسنت بریلوی کا کہنا ہے کہ دیوبندی اپنے علماء کی چار کفریہ عبارتوں سے توبہ کرلیں اور اعلان کریں کہ دیوبندی وہی ہیں جو خلافت عثمانیہ والے تھے اور جن کو وہابی علماء نے (ذکر ولادت، عرس، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے) بدعتی و مُشرک کہا۔

۲) دیوبندی بریلوی حضرات کے فتاوی رضویہ سے بدعتی و شرک نہیں دکھاتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ بریلوی فتاوی رضویہ پر عمل نہیں کرتے اور مستحب اعمال (اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، عرس، ایصالِ ثواب، میلاد، قبر پر اذان والے کلمات وغیرہ) کو فرض سمجھ کر کرتے ہیں۔

افسوس: دیوبندی اور بریلوی کی اس لڑائی میں عوام جاہل اور گنوار بن گئی ہے بلکہ رافضی اور قایانی بہتر طور پر پروموٹ ہوئے اس کے مبارک باد دونوں جماعتوں کو جاتی ہے۔

اہلحدیث حضرات تقلید کو بدعت و شرک کہتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد کے کہنے پر کہتے ہیں اور کس مجتہد نے ان کو کن اصولوں پر بخاری و مسلم کی صحیح احادیث پر اکٹھا کیا؟

اہلتشیع کا پرابلم یہ ہے کہ ان کے ذاکروں اور علماء نے ایک نیا دین حضورﷺ کی احادیث سے نہیں بلکہ مولا علی سے منگھڑت بات کو حضور ﷺ کی حدیث کے برابر کا درجہ دے دیا ہے، حضرت علی کو معصوم، تقیہ، بدا وغیرہ کا عقیدہ دیا جس سے حضور ﷺ سے ان کا تعلق ختم اور چچا ابوطالب جن کا ایمان ثابت نہیں وہاں سے ہوتا ہوا ابو جہل تک چلا گیا ہے۔ اُن کے عقلمندوں کا اللہ کریم سمجھ دے۔

حل: سعودی عرب اگر خلافت عثمانیہ، چار مصلے اجماع امت، کے محدثین و مفسرین کو بدعتی و مشرک کہنے کا پراپیگنڈہ نہ کرے بلکہ متفقہ عقائد اہلسنت پر عمل کرے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں یا پاکستان کے علماء اپنی اپنی عوام کو ایک ہونے کا مشورہ دیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general