لوگوں میں اپنے غیر سب ہوتے ہیں جن کا کہنا چاہے وہ نکما ہی کیوں ہو، اگر کہہ دے تو ہمیں اُس کا کہنا غم بن کر لگ جاتا ہے حالانکہ مجھے اگر کوئی بات کرے تو دیکھتا ہوں کہ کہنے والا کون ہے، علم والا ہے یا جاہل، دوست ہے یا حاسد، کسی اختیار کا مالک ہے وغیرہ وغیرہ
اسلئے میں صرف اُس کی بات پر غور و فکر کرتا ہوں جو مجھ سے زیادہ متقی ہو ورنہ ہر کوئی اپنی آزادی رائے میں آزاد ہے مگر اُس کی آزاد رائے کو اپنے لئے مسائل بنانا بے وقوفی ہوتا ہے ورنہ
آپ سفید لباس پہن کر لوگوں کے سامنے آتے ہیں اور اب آپ کوئی دوسرا رنگ نہیں پہنیں گے کیونکہ لوگ کیا کہیں گے۔۔
اولاد شادی کے قابل ہے والدین پریشان ہو رہے ہیں کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ شادی کیوں نہیں کرتے مگر لوگ اُن کی پریشانیوں کا سُن کر ان کا حل نہیں نکال سکتے مگر ان کا کہنا ایک ٹینشن بن جاتا ہے۔
کوئی پسند کی شادی کرنا چاہتا ہے مگر اُس کے گھر میں بہن ہے تو لوگ کیا کہیں گے کہ اگر تمہاری بہن بھی اپنی پسند کر شادی کرے تو کیا کرو گے۔۔۔
اگر آپ کسی کو تقریر کے لئے کہو تو وہ خوفزدہ ہو جاتا ہے، اسلئے نہیں کہ اُس کو تقریر کرنی نہیں آتی بلکہ اسلئے کہ اُس نے تقریر کی نہیں اور وہ اس جملے سے خوف زدہ ہو جاتا ہے کہ اگر اُس کی زبان نے حق ادا نہ کیا تو لوگ ہنسیں گے۔۔
ہر انسان کے اپنے دُکھ ہوتے ہیں مگر ہم اپنے معیار پر اُس کو سمجھا رہے ہوتے ہیں جس پر وہ اپنے دُکھ شئیر کرنے بھی بند کر دیتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔۔
مرد کے بھی اپنے احساسات ہوتے ہیں مگر جب روئے تو لوگ کہتے ہیں کہ کیا عورتوں کی طرح روتا ہے لیکن بھائی اُس کے احساسات پر پابندی تو نہ لگاو کیونکہ وہ بے حس نہیں ہو سکتا۔
اگر میاں گھر کے کام کر دیں تو محلے دار کیا کہیں گے۔۔ آپ سمجھ سکتے ہیں حلانکہ
میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔
آج کل شادیوں میں جو خرچا ہو رہا ہے تو ایک غریب آدمی جو اپنے گھر کا خرچہ بڑی مشکل سے چلاتا ہے وہ شادی کرنے کے لئے قرضہ پکڑ لے گا کیونکہ ورنہ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔
اگر کسی کی شادی نہیں ہوتی، کسی کے ہاں اولاد نہیں ہوتی اور کوئی اولاد نرینہ چاہتا ہے، کسی کا گھر چھوٹا ہے، اس طرزکے اور بہت سے مسائل ”لوگ کیا کہیں گے“ کی وجہ سے کسی کی زندگی کا سُکھ کھا لیتے ہیں۔
ہر مسلمان کو اپنی زندگی اذادی سے گذارنے کا حق ہے لیکن ہم نے ارد گرد غیر ضروری رسومات کا طومار لگا رکھا ہے اور ان دائروں میں پھنس کر اللہ کے آگے رونا بھی رو رہے ہیں لیکن ایک لفظ نہیں سُن سکتے۔۔
بہت سے لوگوں جب ان الفاظ کی فکر کئے بغیر یہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے بلکہ مُجھے یہ ڈر ہے کہ میرے کہنے سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہو گا تو ایسے لوگوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا اور اگر کہنا بھی چاہتا ہے تو مناسب وقت کے انتظار میں رہتا ہے۔
کوئی بھی چیز بے مقصد نہیں ہوتی، اپنی زندگی کا کوئی مقصد طے کریں کہ آپ کیا چاہتے ہیں آپ وہ کریں جو آپ کو خوشی اور اطمینان دے۔ آپ کے پاس جو کچھ ہے اس پر مطمئن ہو جائیں، لوگوں کی طرف دیکھنا بند کر دیں ورنہ زندگی تنگ ہو جائے گی۔ زندگی مثبت سے منفی، نفس سے نفسیاتی مسائل کی طرف گامزن ہو جاتی ہے۔ زندگی آپ کی اپنی ہے۔
ہمارے تین پیچ فیس بک نے بند کر دئے، اب بھی دو تین پیج پر ہم پوسٹ نہیں لگاتے کیونکہ وارننگ دی گئی ہے مگر اپنا کام تسلی سے کرتے رہتے ہیں، جس عوام کو سمجھا رہے ہیں اُس کو سمجھنا ہے کہ ساری زندگی سمجھنا نہیں ہوتا بلکہ ہر سمجھی بات کو دوسروں تک پہنچانا بھی ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص یہ سوچنے لگے کہ گھوڑے پر سوار ہوکر کیسا دکھائی دے گا تو وہ کبھی گھڑ سوار دستے کا سربراہ نہیں بن سکتا۔
اگر کوئی شخص اس لیے چھوٹا کاروبار نہیں کرتا کہ لوگ کیا کہیں گے تو وہ شخص کل بڑا بزنس مین بھی نہیں بن سکتا۔
اگر کوئی شخص آج اس لیے لکھنا شروع نہیں کرتا کہ اس کی بے ربط تحریر کو دیکھ کر لوگ کیا کہیں گے تو کل یہ شخص بڑا مصنف بھی نہیں بن سکتا۔
اگر ہم لوگوں کی رائے کا اثر لینا چھوڑ دیں اور اپنے فائدے اور نقصان کو سامنے رکھ کر کوئی بھی کام کریں تو زندگی کامیاب، بے حد سادہ اور آسا ن ہو سکتی ہے۔
1۔ 99% عوام کے مسائل اس وجہ سے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے، اسلئے مرگ، پیدائش اور نکاح وغیرہ پر اپنی کمائی ریاکاری اور دنیاداری میں لگا کر مر جاتے ہیں۔1% سے کم بندے خاص ہوتے ہیں مگر ان کی عوام میں کوئی عزت نہیں ہوتی اور جو عوام سے عزت مانگے وہ بھی 99% میں سے ہوتا ہے۔
2۔شیطان سے بچنے کے لئے ایک مجرب نسخہ ”نماز آج پڑھوں گا اور برائی کل کروں گا“۔
3۔اللہ کریم غفور الرحیم بھی ہے اور رزاق بھی ہے مگر روٹی کے لئے محنت کرنا اور برائی چھوڑنے کے لئے محنت کرنے کی بجائے یہ کہنا کہ اللہ کریم معاف کر دے گا، ایسا مذاق اللہ کریم سے اچھا نہیں ہے۔
4۔ نیکی کرنے سے صرف اپنا بھلا نہیں ہوتا بلکہ نسلوں کا بھلا ہوتا ہے، اس پر یقین ہو چُکا ہے۔
5۔ لاکھوں راستے شیطان کی طرف اور ایک راستہ رب کی طرف جاتا ہے باقی پہچان اپنی اپنی۔
6۔ باپ سے یہ نہ پوچھ کہ آپ تھکے ہوئے ہیں تو پاؤں دبا دوں بلکہ پاؤں دبانے کے لئے پوچھنا تیری غلطی ہے۔
7۔ ایک بندہ کہہ رہا تھا یا اللہ میری عبادت قبول فرما لے اور ایک بندہ کہہ رہا تھا یا اللہ میرے ساتھ تعلق رکھنے والا اور میرا ساتھ دینے والا ہر بندہ قبول فرما لے۔
8۔ بندہ کمزور اس وقت ہوتا ہے جب اللہ کریم کو اپنے ساتھ نہیں سمجھتا۔
9۔ دل میں کوئی سوال ہر گز نہیں ہے کیونکہ جس (اللہ) سے سوال ہے وہی (اللہ) اس کا جواب ہے۔
10۔ پروانہ آگ میں جلنے کے لئے کسی کو نہیں پوچھتا کیونکہ اس کو روشنی کی تلاش ہے۔ اللہ کریم نور السموات والارض ہے اور بندہ اُس نور میں جلنے کے لئے کسی کو نہیں پوچھتا۔
11۔ ایک عالم تقریر کر رہا تھا اور لاکھوں بندے سُن رہے تھے، تقریر ختم ہو گئی تو ایک آدمی دور سے آتا ہوا دکھائی دیا اور عالم صاحب کے پاس آ کر افسردہ انداز میں کہنے لگا کہ میں بہت دور سے آپ کی تقریر سُننے آیا ہوں مگر دیر ہو گئی۔ اُس عالم نے ایک گھنٹہ اُس کے لئے تقریر کی تو اُس نے کہا کہ حضرت آپ نے مجھ اکیلے کے لئے ایک گھنٹہ تقریر کی تو عالم صاحب نے کہا پہلے بھی اُس اکیلے (اللہ) کے لئے کی تھی اور اب بھی اُس اکیلے (اللہ) کے لئے تقریرکی ہے۔
12۔ مسلمان اکٹھے تب ہو سکتے ہیں جب دیوبندی حنفیت اور اہلحدیث غیر مقلدیت چھوڑ کر سعودی عرب کے وہابی علماء کی طرح حنبلی نماز اور عقائد اختیار کر لیں تاکہ پاکستان اور سعودی عرب میں ”ایک مصلہ“ ہو جائے۔ دوسرا جب سعودی عرب مان لے کہ خلافت عثمانیہ، چار مصلے،600سالہ اہلسنت علماء کرام بدعتی و مشرک نہیں تھے اور پاکستان میں دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث جماعتوں کو خلافت عثمانیہ کے دور کے قرآن و سنت کے مطابق“عقائد اہلسنت“ پر اکٹھا کر لے۔
13۔ اہلتشیع کا اہلبیت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ قرآن و سنت میں صحابہ کرام اور اہلبیت شامل ہیں مگر اہلتشیع کی احادیث کی معتبر کتابیں کہتی ہیں کہ یہ قرآن مکمل نہیں بلکہ تحریف والا ہے، دوسری بات اہلتشیع کی ”احادیث“ کی کتابیں منگھڑت ہیں کیونکہ صحابہ، تابعین و تبع تابعین سے روایات ہی نہیں ہیں اور کوئی بھی صحابی اور اہلبیت اہلتشیع کے عقائد (تبرا، تقیہ، بارہ معصوم، بدا) کا نہیں تھا اور فقہ جعفر سے پہلے کونسی فقہ پر عمل تھا کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔اسلئے اہلتشیع سے عرض ہے کہ اہلبیت پر جھوٹ نہ باندھیں اور اہلسنت کی احادیث کی تشریح غلط نہ کریں۔