نور و تجلی
1۔ ہر مسلمان آنکھیں بند کرے اور دیکھے کہ کوئی گلی، رستہ، سڑک یا پگڈنڈی رب کی طرف جاتے ہوئے نظر آتی ہے، اگر نہیں تو جان لے کہ قرآن و سنت پر ایمان لانے کے بعد فرض، واجب، سنت اور مستحب اعمال ہی وہ رستہ اور سڑک ہے جو رب کی طرف جاتی ہے۔
2۔ اللہ کریم نور السموات والارض ہے، جب اُس کے نور سے دل جگمگاتا ہے تو حضور ﷺ کے قدموں کے نشان نظر آتے ہیں یعنی شریعت پر چلنا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ شریعت ایک راستہ اور منزل اللہ کریم کی ذات ہے۔
3۔ اللہ کریم کا حُکم ماننے سے نور ملتا ہے جو اس اندھیری دُنیا میں روشنی کا کام کرتا ہے۔
4۔ علم الیقین کی منزل بھی وہ نور ہے جو مسلمان کو عین الیقین اور حق الیقین کے درجے پر کھڑا کرتی ہے۔
5۔ دین پر چلنے والے ہر نیک بندے کے الفاظ میں تاثیر قرآن و سنت پر عمل کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور اُن الفاظ کے نور سے گمراہ انسانوں کو روشنی ملتی ہے۔
6۔ ہر بندہ نور کی پہچان نہیں کر سکتا کیونکہ دُنیا دار ہمیشہ دُنیا کے حصول کو روشنی سمجھتا ہے اسلئے اپنی عبادت کو اللہ کریم کی بجائے دُنیاوی عزت کے لئے کرتا ہے جیسے ہی کوئی مشکل آتی ہے تو اُس کی پہچان ختم ہو جاتی ہے کیونکہ وہ تعویذ دھاگوں پر آ جاتا ہے اور کہنا شروع کر دیتا ہے کہ حضور ﷺ پر بھی تو جادو ہوا تھا مگر یہ تو بتا کہ حضور ﷺ نے پھر کیا کیا تھا؟
7۔ البتہ توکل وہ نور ہے جس سے اللہ کریم کی محبت حاصل ہوتی ہے اور تعویذ دھاگے، دم درود “جائز” کام ہیں مگراس میں اصل اور نقل کی پہچان مٹ چُکی ہے، اسلئے عامل، جادو گر، عیسائی اور دیگرپنڈت یہی کام کر رہے ہیں لیکن اللہ کے ولی تعویذ دھاگوں کی بجائے مرید کی تربیت کر کے ”توکل“ سکھاتے ہیں۔
8۔ قرآن میں نور کا لفظ اللہ کریم کے لئے بھی آیا ہے، تورات کو بھی نوراور ہدایت کو بھی نور کہا گیا ہے، دین اسلام، فرشتوں کو بھی نور اور اسی طرح حضور ﷺ کو بھی لقد جائکم من اللہ نور کہا گیا ہے۔
9۔ اللہ کریم ہمیشہ سے نور اور ہمیشہ رہے گا، البتہ حضور ﷺ کے لئے نور من نور اللہ کا مطلب ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر ایمان لانا جو مصنف عبدالرزاق میں لکھی ہے ورنہ حضور ﷺ بشر ہیں اور اللہ کریم ”لم یلد و لم یولد“ ہے اور اللہ کریم کی جنس سے کوئی نہیں ہے۔
10۔ اسلئے جس کو اللہ کریم کی پہچان ہو جاتی ہے وہ تمام جماعتوں سے نکل کر عوام کو سمجھاتا ہے کہ صحابہ کرام جس پر متفق ہو جائیں اُسے ”اجماع صحابہ“ کہتے ہیں اور علماء کرام جس پر متفق ہو جائیں اُسے ”اجماع امت“ کہتے ہیں اسلئے ”اجماع امت“ کا دور خلافت عثمانیہ، چار مصلے، کا دور ہے جب مسلمان تین براعظم پر پھیلے ہوئے تھے، البتہ سعودی عرب کے وہابی علماء نے اُس دور کو بدعتی ومُشرک کہہ کر غلطی کی اسلئے ”نور فراست“ سے سمجھا رہے ہیں:
اتحاد امت: دیوبندی حنفیت اور اہلحدیث غیر مقلدیت چھوڑ کر سعودی عرب کے وہابی علماء کی طرح حنبلی نماز اور عقائد اختیار کر لیں تاکہ پاکستان اور سعودی عرب میں ”ایک مصلہ“ ہو جائے یا سعودی عرب مان لے کہ خلافت عثمانیہ، چار مصلے،600سالہ اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی)بدعتی و مشرک نہیں تھے، اسلئے فتاوی رضویہ میں بھی کوئی بدعت و شرک نہیں ہے اور پاکستان میں دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث جماعتوں کو خلافت عثمانیہ کے دور کے قرآن و سنت کے مطابق“عقائد اہلسنت“ پر اکٹھا کر لے۔