ضرورت غریب کی
ہر کوئی شکوہ کر رہا ہے کہ غریب انسان غریب سے غریب تر ہو رہا ہے اور امیر انسان امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ کہہ رہے ہیں کہ جب سب کچھ رب کر سکتا ہے تو اس ظالم دُنیا میں انصاف کر کیوں نہیں دیتا۔ کچھ کہتے ہیں کہ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہے تو پھر مشکل میں ڈالنے والا کون ہے؟
اصل حقیقت تو یہ نظر آتی ہے کہ اللہ کریم حُکم دیتا ہے کہ شرعی قانون پر ہر کوئی چلے، اگر کوئی نہیں چلتا تو دوسرے پر ظُلم کرتا ہے، اب اُس ظلم ہونے پر اُس کو صبر کرنا چاہئے مگر وہ بھی ظلم ہونے پر بدلہ لیتا ہے لیکن صبر نہیں کرتا کیونکہ ہمارے دماغ میں یہ داخل ہو گیا ہے کہ “رب نیڑے کہ کُسن”۔ کوئی کہتا ہے کہ آخرت کس نے دیکھی ہے۔ اسلئے کوئی گل لا کر جائے کہاں، فوری ری ایکشن دیتے ہیں۔ اسلئے:
1۔ اسباب پیدا کرنا رب کریم کا کام ہے اور اسباب دُنیا میں موجود ہیں مگر دُنیا میں حکومت، والدین، استاد و پیر حضرات اپنی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے۔ جب بچے کی ضرورتیں پوری نہ ہوں گی تو وہ بھی ابنارمل، نفسیاتی مریض اور دین سے دور ہوتا جا ئے گا۔
2۔ کیا ضرورت پوری نہ ہونے پر صبر کرنا چاہئے یا چھین لینا چاہئے جیسے نکاح ہر ایک کی ضرورت ہے مگر معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس کو صبر نہیں کہا جا سکتا اور اس معاشرے میں اپنا اپنا کردار ادا نہ کرنے پر ہم سب برابر کے مُجرم ہیں۔
مثال: ایک سیپارہ پڑھانے والے بچے کو نکاح کی ضرورت تھی تو ایک درویش آدمی نے اپنی بیٹی کا نکاح اسلئے اُس سے کر دیا کہ وہ قرآن پڑھاتا تھا تو اُس پر آوازیں بھی لگیں، دیکھو جناب کیا سیپارہ پڑھانے والے کو بھی کوئی اپنی بیٹی دیتا ہے مگر اُس درویش نے اس کی پرواہ نہیں کی کیونکہ اس نے شریعت کے مطابق فیصلہ کیا۔
3۔ پیٹ بھرنے کے لئے ایک انسان کو روزانہ کتنی خوراک، کتنی کلوریز کی ضرورت ہے؟ اس سے زیادہ کھاتا ہے یا کم کھاتا ہے؟ بھیک مانگ کر کھاتا ہے یا قرضہ مانگ کر کھاتا ہے، زکوۃ لے کر کھاتا ہے یا چھین کر کھاتا ہے؟ کیا ایک رات کوئی بھی انسان بھوکا سویا ہے تو بتائے؟
مثال: مسجد میں اعلان کیا گیا کہ اگر کوئی بندہ بے روزگار ہے تو اُس کو روزگار پر لگوا دیتے ہیں مگر تنخواہ تھوڑی کا شکوہ نہ کرے کیونکہ پہلے بھی تو گھر میں لیٹ کر چارپائی توڑ رہا ہے۔ کسی نے نہیں کہا کہ میں بے روزگار ہوں کیوں؟
4۔ کیا انسان کی دین ضرورت ہے یا دُنیا ضرورت ہے؟ دین اگر ضرورت ہے تو کتنے لوگ دیندار ہیں اور کتنے لوگ دینداری کی آڑ میں دنیا دار ہیں؟ کیا غریبی دین پر چلنے میں رکاوٹ ہے یا ہم غریبی کو دور کرنے کے لئے دین پر چلتے ہیں؟ اللہ کریم کی عبادت امیر یا غریب کس کی ضرورت یا ایمان میں شامل ہے؟
5۔ کیا پیر تعویذ دھاگے سے بیماروں کو شفا دے سکتا ہے تو ہسپتالوں کے مریض اُس کی راہ دیکھ رہے ہیں؟ کیا ایسا تعویذ مل سکتا ہے کہ موٹر سائیکل کے ساتھ باندھا جائے تو پٹرول ختم نہ ہو یا گلے میں ڈالا جائے تو عُمر نہ بڑھے اور جیب میں ڈالا جائے تو پیسے ختم نہ ہوں۔ باقی معاشرتی مسائل ایک جیسے ہیں اس کے لئے تعویذ نہیں توکل کی ضرورت ہے۔
مثال: ایک پیر صاحب نے کہا بیٹا تعویذ دھاگے، دم درود جائز ہیں مگر مرید کا ارادہ اللہ کریم کا قُرب پانے کا ہوتا ہے، اسلئے اگر کوئی مُرید ملے تو اُس کو توکل سکھانا کیونکہ تمہاری ذمہ داری ہر انسان کی اصلاح کرنا ہے۔ ایک کو بھی تم نے کامل بنا دیا تو تمہاری علمی نسل اُسی سے چلے گی۔
6۔ لڑکی کو نکاح کے بعد مکان، کپڑا، روٹی چاہئے لیکن نکاح سے پہلے لاکھوں روپیہ تیل مہندی، لہنگا، میک اپ، مہمانوں کی روٹی، ہال بکنگ وغیرہ پر لگ رہا ہے؟ کیا یہ ہماری ضرورت تھی؟ شب برات، معراج شریف، عید پر اپنی اپنی بیٹیوں کو ہر کوئی ایک سرکل کی طرح کچھ نہ کچھ بھیج رہا ہے، کیا یہ ہماری ضرورت ہے؟
مثال: مثال بنائیں کہ لڑکے والوں سے بات کریں کہ اگر ہو سکے تو پیسہ دونوں طرف سے ضائع نہ کریں بلکہ دو مرلے کا مکان لڑکے اور لڑکی کو لے کر دیں تاکہ ان کو ساری زندگی کے لئے ایک چھت نصیب ہو اور جائیداد میں حصہ بھی یہی ہو۔
7۔ بچوں کی تربیت اسلئے نہیں ہو سکتی کہ مقابلہ ہے کہ اپنے رشتے داروں سے بڑھکر پڑھے، اچھی جاب لے اور والدین کا نام روشن کرے۔ کیا والدین چاہتے ہیں کہ ان کا جنازہ ان کی اولاد پڑھائے؟ ایک بندہ کہنے لگا کہ چلو بندہ تو ہر تکلیف برداشت کر لیتا ہے مگر اولاد کا دُکھ برداشت نہیں ہوتا تو کیا ایسے انسان کو نکاح کرکے بچے لینے چاہئیں جو اُس کو بے ایمان بنا دیں؟
8۔ کیا کسی ادارے میں انسان کو انصاف مل رہا ہے اور کیا انصاف ہماری ضرورت نہیں؟ کیا ہرسرکاری ملازم کی روٹی حلال کی ہے؟ خوفِ خدا نہ ہو تو ہر انسان درندہ ہے اور دوسروں کے بچوں کا رزق چھین کر اپنے بچے پال رہا ہے۔
9۔ میلاد، عرس، ایصالِ ثواب، قل و چہلم، تیجہ دسواں، اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قبر پر اذان، جنازے کے بعد دُعا، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے وغیرہ کیا یہ ہماری ضرورت ہیں یا رسم و رواج بن چُکے ہیں؟
10۔ کیامندرجہ بالا اعمال پر بدعت و سنت، جائز اور ناجائز کی بحث پر اربوں روپے کے رسالے دیوبندی، اہلحدیث اور بریلوی چھاپ نہیں رہے ہیں؟ کیااپنے فرائض کو پورا کرنے والی عوام کو ان سب اعمال کی ضرورت ہے؟ کیا اس بات کی ضرورت نہیں کہ تینوں جماعتیں اپنی پہچان بتا کر امت کو متحد کریں؟
11۔ دیوبندی اور بریلوی علماء عوام کو بتائیں کہ دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ والے، چار مصلے والے ہیں، جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا، دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفریہ عبارتیں ہیں جس کا دفاع نہیں بلکہ توبہ کرنی ہے۔ عوام لڑ رہی اور علماء بتانہیں سکتے کیونکہ مجبور ہیں، دوسری بات پھر لڑنے کے لئے کیا رہے گا؟ اصل میں اتحاد ہماری ضرورت ہے اس کے لئے کوشش کرنے والا مجدد وقت ہو گا۔
12۔ اہلحدیث جماعت کی ضرورت خاموشی ہے ورنہ اس کی تباہی اس سوال کے جواب میں ہے کہ یہ بتا دے کہ کس مجتہد نے قرآن و سنت کے مطابق پوری اہلحدیث جماعت کو کہا کہ تقلید بدعت و شرک ہے اور یہ قانون بنایا کہ ضعیف احادیث پر عمل کرنا ناجائز ہے۔
13۔ اہلتشیع حضرات اگر قرآن کو اکٹھا کرنے والے صحابہ کرام کو گالیاں نکالتے ہیں اور اہلبیت کو 124000 صحابہ کرام سے علیحدہ کر کے ہر جھوٹی بات ان سے منسوب کر کے ”فقہ جعفر“ کو وجود میں لاتے ہیں تو ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کی مرفوع، موقوف اور مقطوع احادیث کے راوی کون کون سے صحابی یا تابعی ہیں؟
14۔ ضرورت لڑائی ہے تو لڑتے رہیں اور اپنی ساری سوچیں مسلمان ایک دوسرے کو کافر، بدعتی و مشرک بنانے پر لگا دیں جس سے عوام کہے گی کہ قیامت تو آنی ہی آنی ہے اسلئے 73 فرقے بننے ہی بننے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ 73 میں سے ایک فرقہ جنتی جو 72 کو دعوت دینے والا کون ہے، اپنا نام تو بتائے؟
نتیجہ: ایسی تربیت گاہیں مفقود ہیں جہاں تربیت ہوتی ہو اور اگر ہوتی ہو تو تربیت کوئی کرواتا نہیں، ہر ایک کو اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنا ہو گا۔ اسلئے فقیر کو دنیا کی نہیں بلکہ ہر قدم پر اللہ کریم کی ضرورت ہے۔ 100% نہ سہی بندہ 60:40 کی ratio سے اچھا چلے۔ اس دُنیا میں نہ سہی مگر کوشش کرنے پر آخرت میں انعام دیدار الہی کی صورت میں ضرور ملے گا۔