Hazrat Saleh A.S (حضرت صالح علیہ السلام)

حضرت صالح علیہ السلام

حضرت ھود علیہ السلام کی قوم عاد میں سے جو مومنین اللہ کے عذاب سے بچ گئے تھے، قوم ثمود اُن کی اولاد تھی۔ یہ قوم ثمود نامی شخص کی طرف منسوب ہے اور مقام الحجر میں رہتی تھی، حجر کا نام قرآن کریم میں سورہ الحجر میں آتا ہے،یہ حجاز اور شام کے درمیان وادی القری ہے۔ سعودی عرب میں اب ”مدائن صالح“ حضرت صالح علیہ السلام کی یاد دلاتا ہے۔

قوم ثمود حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ہوئی ہے، بُت پرست ہو گئی، ان کی اصلاح کے لئے حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا گیا۔ حضرت صالح علیہ السلام نے پوری کوشش کی، واعظ کئے، خدا کا خوف دلایا، توحید کی دعوت دی اور اپنے رسول ہونے کی بات کی لیکن قوم پر کوئی اثر نہ ہوا۔

قوم ثمود پر اسلئے اثر نہ ہوتا کیونکہ ان کے پاس سرسبز باغ، فصلیں، عالی شان پہاڑ، مضبوط قلعے تھے اور حضرت صالح علیہ السلام پر ایمان لانے والے غریب تھے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ہمارے مسلمانوں کاایمان سے نہیں مسائل سے تعلق ہے اور ان کے مسائل پنڈت، پادری، عامل، جادوگر، رافضی، شیطان کوئی بھی پورا کر دے تو وہ اُن کے حق میں اور شریعت کے خلاف بولتے رہیں گے۔ اسی طرح قوم ثمود کا یقین تھا کہ ہماری اس دولت، شان و شوکت اور بہتر حالات بتوں کی وجہ سے ہیں۔

حضرت صالح علیہ السلام نے لاکھ کہا کہ یہ دنیا فنا ہو جائے گی مگران پر کوئی اثر نہ ہوتا بلکہ دلیری سے کہتے کہ اگر تم سچے ہو اور کوئی اللہ سے رابطہ ہے تو ایسا کرو کہ اس پہاڑ سے اونٹنی پیدا کرو جودس ماہ کی حاملہ ہو اور فوراً بچہ دے۔ حضرت صالح علیہ اسلام نے فرمایا کہ میں یہ معجزہ دکھا دیتا ہوں، تم قسم کھاؤ کہ بت پرستی چھوڑ کررب کریم پر ایمان لاؤ گے، انہوں نے قسمیں کھا بھی لیں کیونکہ ان کو یقین تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔حضرت صالح علیہ السلام نے نماز پڑھکر دعا مانگی اور دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑ پھٹا اور اونٹنی نمودار ہوئی اور عوام کے سامنے بچہ دیا جس پر بہت سے لوگ اس پر ایمان لے آئے۔

اس اونٹنی کو ”ناقتہ اللہ“ یعنی ادب سے اللہ کی اونٹنی کہا جاتا ہے جیسے خانہ کعبہ کو بیت اللہ کہا جاتا ہے۔ چند دن قوم ڈری اور اُس کے بعد پریشان ہو گئی کیونکہ اونٹنی فصلیں کھا جاتی اور ایک گھونٹ میں سارا کنویں کا پانی پی جاتی۔پھر باریاں مقرر کی گئیں کہ ایک دن ثمود قبیلہ پانی پیتا اور دوسرے دن صرف اونٹنی، البتہ اونٹنی دودھ دیتی جو سارا قبیلہ پی لیتا۔یہ آزمائش ان کے لئے عذاب بن گئی مگر وہ عذاب آنے سے بھی ڈرتے تھے۔

صدوق نام کی ایک حسین اور مالدار عورت نے مصدع اور قیدار دو بدمعاش سرداروں کو حُسن و جوانی کا لالچ دے کر اونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار کیا۔آخر نو (9) بدمعاشوں کا پلان تیار ہوا، اونٹنی چراگاہ گئی، گھات لگا کر بیٹھ گئے، قیدار نے اونٹنی کی کونچیں کاٹیں، کوئی عذاب نہ آیا، اونٹنی چیخیں مار رہی تھی، اس کا بچہ بھاگ کر پہاڑ میں غائب ہو گیا، پھر سب نے ملکر نیزے کے وار کئے اور اونٹنی قتل ہو گئی۔

حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا تین دن کے بعد عذاب آئے گا جو تم کو تباہ کر دے گا۔ دہ بدمعاش اونٹنی کو قتل کرنے کے بعد دلیر ہو گئے اورحضرت صالح علیہ السلام کو شہید کرنے کی پلاننگ کی، رات کو نکلے تو اللہ تعالی نے راستہ ہی میں ان پر پتھر برسا کر ان کو ہلاک کر دیا۔ پھر چمک اور کڑک کے ساتھ خوفناک آواز کا عذاب آیاجس نے راتوں رات سب کو تباہ کر دیا۔

 یہ تذکرہ ایمان تازہ کرنے کے لئے ہے کہ عذاب آنے سے ڈرنا چاہئے اور جو عوام بھی حضور ﷺ کی امت کو بدعتی و مشرک یا بغیر کسی وجہ سے کافر کافر کہہ رہی ہے، ابھی بھی توبہ کر لے ورنہ اس دنیا میں نفسا نفسی کا عذاب آپس میں ایک دوسرے کو کافر کافر کہنے کی وجہ سے ہی ہے۔

کیسی عجیب بات ہے کہ دیوبندی اور بریلوی نے آپس میں لڑ کر عوام کو یہ سکھایا نہیں کہ اصل اہلسنت خلافت عثمانیہ، چار مصلے اجماع امت والے تھے جن سے جناب احمد رضا خاں صاحب نے دیوبندی علماء کی چار عبارتوں پر کفر کا فتوی لیا۔ سعودی عرب والوں نے تو اہلسنت کو بدعتی و مشرک کہا اور اب دیوبندی اور اہلحدیث حضرات سعودی عرب کے ساتھ ملکر بریلوی کو نہیں بلکہ اپنے بڑوں کو بدعتی و مشرک کہہ رہے ہیں۔ اللہ معاف کرے نہ ادھر کے ہیں اور نہ ادھر کے۔

یہ ایسے ہی ہیں جیسے اہلتشیع کافتنہ ہے کہ حضور ﷺ کے صحابہ کرام اور اہلبیت عظام کے مشاجرات سے فائدہ اُٹھا کر خود کو اہلبیت کا ہمنوا کہتے ہیں حالانکہ یہ بے دین سبائی مذہب ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ورنہ ایک سوال پوچھ لیں کہ کونسے صحابی اور تابعی اہلتشیع کی احادیث کی کتابوں کے راوی ہیں جن کا عقیدہ بدا، تبرا، تقیہ، چودہ معصوم اور بارہ امام(جو اس وقت تک آئے ہی نہیں تھے) کا تھا۔ کبھی نام نہیں بتائیں گے کیونکہ جعلی احادیث اہلتشیع کی ہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general