زندگی پروانے کی صورت
پروانہ روشنی کے لئے کسی کی پرواہ نہیں کرتا، اسلئے آگ میں جل کر مر جاتا ہے حالانکہ اُس سے پہلے بھی اُس کے ساتھی پاس ہی جل کرمرے ہوتے ہیں مگر وہ کسی”اپنے“ کو مرے دیکھ کر ڈرتا نہیں کیونکہ اُس کی فطرت میں روشنی کے حصول کے لئے مرنا ہی لکھا ہوتا ہے اسلئے اُسے مر جانا ہوتا ہے۔
پروانہ کسی سے حسد نہیں کرتا کیونکہ اُس کو معلوم ہوتا ہے کہ میری نعمت (روشنی) میرے سامنے ہے اسلئے وہ اپنی جان روشنی پانے کے لئے دینا چاہتا ہے۔ البتہ حاسد وہ ہوتا ہے جو دوسروں پر اللہ کی دی ہوئی نعمتیں دیکھ کر جلے مگر اللہ کریم سے تعلق جوڑ کر محنت نہ کرے۔
پروانہ وہ ہے جس کی انسان بھی پرواہ نہیں کرتا مگر مثال دیتا ہے کہ بندے کو پروانے کی صورت ہونا چاہئے۔ اسلئے ہر ایک کو پروانے کی طرح ہونا چاہئے کہ کوئی اُس کی پرواہ نہ کرے بلکہ اُس کی مثال دے۔
جلے ہوئے پروانے کو پھونک سے اُڑایا جا سکتا ہے مگر اُس کے جذبے کو نہیں مارا جا سکتا، اسی طرح دیندار کو دنیادار ککھ سے بھی ہلکا سمجھتے ہیں مگر اُن کے جذبے کو نہیں پا سکتے۔
جو روشنی پانے کے لئے مرنے سے ڈرتا ہو اُسے پروانہ نہیں کہا جا سکتا، اسی طرح جو اللہ کریم کے نور سے فیض پانے کے لئے ڈر جائے وہ کبھی بھی صدیق، شہید، صالح، نیک ہونے کا درجہ نہیں پا سکتا۔
پروانے کی زندگی کا وہ لمحہ قیمتی ہوتا ہے جس وقت وہ نور کے لئے آگ میں جلتا ہے اور ہر مسلمان کا وہ لمحہ قیمتی ہوتا ہے جس وقت وہ اللہ کریم کا قُرب پانے کے لئے عبادت کرکے اپنی بندگی کا راز پاتا ہے اور اصل اُس وقت کامیاب ہوتا ہے جب عبادت شہادت کے درجے کو پہنچ جائے۔
”کتنے پروانے جلے راز یہ پانے کے لئے ۔۔ شمع جلنے کے لئے ہے یا جلانے کے لئے۔ اسی طرح پروانے کو سمجھنا ضروری نہیں ہے بلکہ اُس سے سبق سیکھ کر خود اللہ کریم کی محبت میں جلنا مقصود ہے۔
ہر مسلمان کو پروانہ وار حضور ﷺ پر نثار ہونا چاہئے مگر اس میں رکاوٹ خود مسلمان ہیں یا وہ لوگ جو یہ نہیں چاہتے کہ مسلمان اکٹھے ہوں، اگر مسلمان یہ بات سمجھ جائیں تو ایک ہو سکتے ہیں:
خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت والے اصل ”اہلسنت“ تھے جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ دیوبندی اور اہلحدیث اگر سعودیہ کے ساتھ ہیں تو ان کے ساتھ ایک ہو کر وہابی اور حنبلی مقلد بن جائیں اور سعودی عرب کو چاہئے کہ جسطرح خلافت عثمانیہ کے دور میں چار مصلے یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کو اکٹھا کیا گیا، اسی طرح سعودیہ غیر مقلد، اہلحدیث، سلفی، توحیدی، محمدی، دیوبندی حنفی کو ایک عقائد پر اکٹھا کرے ورنہ فساد نہ پھیلایا جائے۔
خلافت عثمانیہ والوں کو رضا خانی، بدعتی و مشرک، بریلوی نہ کہا جائے کیونکہ یہ کام دیوبندی اور اہلحدیث سعودیہ کی وجہ سے کرتے ہیں، سعودیہ نے پہلے دیوبندی مولوی، پیر، مفتی کو خلافت عثمانیہ کے اہلسنت عقائد کے خلاف لگایا جسطرح اب ایرانی و سبائی و اہلتشیع نے تفسیقی و تفضیلی علماء، پیر، مفتی، ڈاکٹر، انجینئر کو رافضیت کی طرف لگایا۔ سعودی عرب اور ایران اہلسنت کے خلاف ہیں۔
پوسٹ کا سوال: خانہ کعبہ میں اگر وہابی علماء کو اللہ کریم نے پسند کیا ہے تو دیوبندی پیری مریدی حنفیت اور اہلحدیث غیرمقلدیت چھوڑ کر ”وہابی“ اور”حنبلی“ ہو کر اتحاد امت کا ثبوت دیں۔
خوفِ خدا: دعوت عام اور سرعام ہے کہ دیوبندی اور اہلحدیث ”مفاد پرستی“ چھوڑ کر اپنے مسلمان بھائیوں کو بدعتی و مشرک نہ کہیں بلکہ خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت کے قانون پر سب اکٹھے ہوں ورنہ قیامت والے دن کا عذاب مذہبی عوام اور علماء کے ساتھ عام و خاص سب کو بگھتنا پڑے گا۔
تجدید ایمان: بریلوی علماء کی سب سے بڑی غلطی کہ عوام کو اہلسنت کی پہچان نہیں کروائی، فتاوی رضویہ میں لکھے اہلسنت کے عقائد و اعمال نہیں سکھائے۔ اسلئے مستحب اعمال (اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم، تیجہ، دسواں، عرس، میلاد، قبر پراذان) جو نہیں کرتا اس کو دیوبندی کہنے والے اہلسنت نہیں رہتے بلکہ ان کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنا ہو گا۔
اہلتشیع سے سوال: حضورﷺ، صحابہ کرام و تابعین کے قول و فعل و تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔ مرفوع حدیث کا تعلق حضور ﷺ، موقوف کا صحابی اور مقطوع کا تابعی سے ہوتا ہے۔اہلتشیع حضرات کی ساری احادیث کی کتابیں منگھڑت ہیں ورنہ مرفوع، موقوف اور مقطوع احادیث کے صحابہ کرام اور اہلبیت، تابعین کے نام بتائیں جن کا قرآن و سنت کے مطابق تقیہ، تبرا، معصوم، بدا کا عقیدہ تھا۔