رشتے ناطے اپنے واسطے

رشتے ناطے اپنے واسطے

1۔ علمائے امّت کا اتفاق ہے کہ رشتے ناطے نبھانا واجب اور قطع رحمی حرام ہے، احادیث میں بغیر کسی قید کے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان سے تعلق جوڑے رکھنے کا حکم آیا ہے۔ بخاری 5986: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔

2۔ صلہ رحمی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ رشتے داروں سے ان کے رویے کے مطابق سلوک کیا جائے، اگر ایسا کیا جائے تو یہ درحقیقت مکافات یعنی ادلا بدلا ہے کہ کسی رشتے دار نے تحفہ بھیجا تو اس کے بدلے تحفہ بھیج دیا، وہ آیا تو بدلے میں اس کے پاس چلے گئے۔ حقیقتًا صلہ رحمی یہ ہے کہ رشتے دار تعلق توڑنا چاہے تو اس تعلق کو بچانے کی کوشش کی جائے، وہ جدائی چاہے، بے اعتنائی برتے تب بھی اس کے حقوق و مراعات کا خیال رکھا جائے کیونکہ وفا ہوتی ہی بے وفا کو وفادار بنانے کے لئے ہے۔

بخاری 5991: کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے یعنی صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چُکائے، بلکہ وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے جوڑ دے۔

ترمذی 2007: تم لوگ ہر ایک کے پیچھے دوڑنے والے نہ بنو یعنی اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر ہمارے اوپر ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرو کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ احسان کریں تو تم بھی احسان کرو، اور اگر بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو“۔

3۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ صلہ رحمی ہر مسلمان پر واجب ہے۔ رشتے داروں کی بے اعتنائی، ناشکری اور زیادتی کے باوجود ان سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے، تاہم قرآن و سنت کے احکام کی روشنی میں قطع رحمی کرنے والے رشتے داروں کے متعلق تین طرح کے رویے ہوسکتے ہیں:

(1) کوئی رشتے دار اگر زیادتی کرے تو زیادتی کا بدلہ لے لیا جائے، تعلقات منقطع نہ کیے جائیں کریں مگر میل جول بھی نہ رکھا جائے۔ مطلب یہ کہ اگر کہیں ملاقات ہو جائے تو سلام دعا کرنے کی صورت باقی رہے۔

(2) ایسے رشتے دار کے ساتھ صرف غمی اور خوشی کا تعلق رکھا جائے اور عام حالات میں اس سے میل ملاقات نہ رکھی جائے۔ تاہم اگر کوئی شدید ضرورت سامنے آجائے تو اس کی مدد سے بھی گریز نہ کیا جائے۔

(3) ایسے رشتے داروں کی زیادتیوں کو نظر انداز کیا جائے اور ان سے حسن سلوک اور مہربانی کا برتاؤ جاری رکھا جائے۔

ان میں سے پہلا رویہ اختیار کرنے پر انسان گناہ گار نہیں ہوگا، دوسرے رویے کا فائدہ یہ ہے کہ نیکی کے مواقع ضائع نہیں ہوں گے اور تیسرا رویہ احسان کا ہے جو فضیلت کا باعث ہے۔ اللہ کی رضا زیادہ زیادہ حاصل کرنا پیش نظر ہو تو اسی تیسرے کو اختیار کرنا چاہیے۔

4۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے عزیز کے ساتھ تعلق رکھنا چاہتے ہیں مگر وہ سلام کا جواب بھی نہیں دیتا۔ ہم بھلائی کرتے ہیں اور وہ ہم سے برائی کرتے ہیں۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وفا ہوتی ہے بے وفا لوگوں کے لئے ہے۔اسلئے قانون یہ رکھیں کہ آپ نے ہی سب رشتوں سے بہتر تعلقات نبھانے ہیں۔

5۔ تعلقات میں رشتے کی نوعیت دیکھنی پڑتی ہے کیونکہ بعض تعلقات بہت حساس قسم کے ہوتے ہیں جیسے والدین کی نافرمانی گناہ کبیرا ہے۔ البتہ شریعت کا علم والدین کو دینا بھی ضروری ہے اور والدین اگر دین پر چلنے نہ دیں تو حکم یہ ہے کہ گناہ کا حکم والدین بھی دیں تو نہیں ماننا۔ اسلئے والدین کی ضد کے سامنے حکمت عملی سے اپنی دین و دنیا بچانی ہو گی۔

6۔ تمام امت میں محبت اہلحدیث اور دیوبندی علماء کے ایک سوال کے جواب سے پیدا ہو سکتی ہے۔ کروڑوں روپیہ رسالوں پر جو ایک دوسرے کو کافر بدعتی و مشرک کہنے پر لگتا ہے جس کا ثواب بھی نہیں ملے گا، اس کا حل بھی ایک سوال کے جواب سے نکلے گا، ایک دوسرے کے خلاف تقاریر بھی بند ہوں گی اور طاقت اتحاد امت پرلگنا شروع ہو گی، قیامت والے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو منہ دکھانے کے قابل بنیں گے:

سوال: ہر مسلمان قرآن و سنت پر چلنے والا ہوتا ہے، ہم بدعت و شرک ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن دیوبندی اہلحدیث علماء اور عوام سے سوال ہے کہ پیری مریدی دم درود تعویذ دھاگے عرس مزار میلاد تقلید کو بدعت و شرک محمد بن عبدالوہاب نے کہا، 1924 میں سعودی عربے کے وہابی علماء نے برصغیر کے مزارات نہیں توڑے بلکہ حرمین شریفین، جنت معلی و جنت بقیع میں صحابہ کرام اور اہلبیت عظام کے مزارات شہید کر کے خلافت عثمانیہ کے اہلسنت علماء کرام حنفی شافعی مالکی حنبلی کو بدعتی و مشرک کہا۔ دیوبندی اور اہلحدیث سے سوال ہے کہ تقلید عرس مزار، میلاد ایصال ثواب کو بدعت و شرک کس مجتہد یا نبی یا عالم نے کہا جس سے خلافت عثمانیہ والے اور بریلوی بدعتی و مشرک ہوئے مگر دیوبندی المہند میں ذکر ولادت، پیری مریدی دم درود سینوں اور قبروں کا فیض، تقلید کو واجب لکھنے والے بدعتی و مشرک نہیں ہوئے؟

رافضی: اہلتشیع بے بنیاد مذہب ہے جس نے دین اسلام کے نام پر حضور ﷺ کے مقابلے میں اہلبیت (مولا علی) کاکا رڈ استعمال کیا۔ کیا مولا علی حضور ﷺ کے دین پر اکیلے تھے یا سب صحابہ کرام بھی حضور ﷺ کے دین پر تھے۔ دین حضور ﷺ کا ہے یا ڈپلیکیٹ علی کا ہے؟

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general