مسجد تو بنا دی شب بھر میں۔۔
1۔ قرآن مجید اور احادیث میں مسجد کی فضیلت بیان کی گئی ہے، مسجد اور مسلمان کا آپس میں ایک گہرا رشتہ ہے، کسی مسلمان کو مسجد سے دور کوئی بے وقوف ظالم ہی کر سکتا ہے۔ مسجد اللہ کریم کا گھر ہے اور اللہ کے گھر میں اللہ کی بات اور دین کا کام نہ کیا جائے تو وہ مسجد نہیں ہو سکتی۔ اسلئے مسجد میں اللہ کے بندے شورشرابہ، لڑائی جھگڑا اور دنیاوی باتیں کرکے اپنی نیکیاں ضائع نہیں کرتے۔2۔ ثواب کیلئے مسجدیں بنانے کا شوق بہت سے لوگوں کو ہے۔ اکثرامیر لوگ خوبصورت مسجدیں بناتے ہیں لیکن خودساری زندگی نماز نہیں پڑھتے جس کا دُکھ ہے کیونکہ اس بات پر مطمئن ہیں کہ جتنے مسلمان میری بنائی ہوئی مسجدمیں نماز کیلئے آئیں گے، اُن کی نمازوں کا ”ثواب“ مجھ کودنیا اور مرنے کے بعد بھی ملتا رہے گا مگر یہ نہیں سمجھتے کہ نماز نہ پڑھنے کا عذاب بھگتنا پڑے گا۔3۔ اس ثواب کو سمجھنے میں مسلمان غلطی کر رہے ہیں کیونکہ ہر نیکی پر ثواب ہے مگر ہر ”نیکی“ کرنے کا مقصدصرف ثواب لینا نہیں بلکہ اللہ کریم کو خوش کرنے اور خود کو بدل کر دین کا ”سپاہی“ بننا ہے۔ اس ثواب کی دوڑ میں ”مقصد“ غائب ہے جیسے قرآن کی تلاوت کا ”ثواب“ روزانہ لیتے ہیں لیکن قرآن کیا چاہتا ہے ساری زندگی سمجھ نہیں پاتے، اذان ہونے پر گانے بند کر دیتے ہیں مگر نماز کیلئے نہیں دوڑتے، درود پاک کوصرف مصیبتیں ٹالنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں مگرفنا فی الرسول نہیں ہوتے۔4۔ دینِ اسلام خوبصورت ہے مگر دُنیا کو سمجھانے کے لئے ایسی مثالی مسجدیں بنائی جائیں، جس میں شامل انتظامیہ، امام، خطیب وغیرہ کا ”مقصد“ صرف اور صرف ”مسجد“ کا حق ادا کرنا ہو۔ مسجد کا حق یہ ہے کہ اللہ کریم کی ”عبادت“ کیلئے لوگوں کو نمازی کیسے بنایا جائے، نمازیوں کی ”تربیت“ کیلئے کون سے طریقے اختیار کئے جائیں، ہر قابل نمازی کو ”امام“ کیسے بنایا جائے۔ اہمیت صرف نمازی کی ہے اور اگر نمازی نہیں ہیں تو ہر جگہ مسجدیں بنا کر پیسہ ضائع نہ کریں۔
5۔ مثالی مسجد میں ہر آنے والا نمازی اذان اور امامت کروا سکتا ہو یعنی اُس کو مسائل سکھا کر اذان اور امامت کی عادت ڈالی جائے۔ اگر مساجد میں ایک بندہ بھی امامت کے قابل نہیں تو پھر عوام کے ساتھ ساتھ امام بھی مُجرم ہے کہ اپنی زندگی میں اپنی اپنی مسجد میں ایک بھی بچہ نماز سکھا کر ”امام“ بھی نہ بنا سکے۔ یہ سچ ہے کہ عوام سیکھنا نہیں چاہتی مگر ہمارا کام سکھانا ہے۔
یہ اور بات کہ وہ باکمال ہے یا نہیں
ہمارا کام اسے باوقار بنانا ہے
6۔ مثالی مسجد میں قابل (brilliant) نوجوان ”نمازی“ کو دینی مسائل کے ساتھ ساتھ دُنیاوی علم حاصل کرنے کا بھی شوق پیدا کیا جائے تاکہ وہ اپنے گھر کا خرچہ بھی چلا سکے اور اللہ کی راہ پر بھی لگا سکے۔ اس سلسلے میں اگر قابل نوجوان مستحق ہوں تو ان کی زکوۃ سے مدد بھی کی جائے بلکہ مثالی مسجد کا قانون یہ ہو کہ زکوۃ کا حقدار صرف اور صرف مستحق نمازی ہوں۔
7۔ مثالی مسجد میں امام کا درجہ بلند ہونا چاہئے اور اس گھر گھر سیپارہ پڑھانے والا یا ختم پڑھانے والا نہ بنایا جائے بلکہ اُس کو ایک ذاتی گھر لے کر دیا جائے، اُس کو اپنے کاروبار میں شریک کیا جائے، اُس کی اولادوں کے مسائل حل کئے جائیں تاکہ وہ دین کا کام آسانی سے کر سکے۔
8۔ مثالی مسجد خلافت عثمانیہ، اجماع امت، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی،شافعی، مالکی، حنبلی) کے متفقہ عقائد پر ہو گی جس پر دیوبندی اور بریلوی عوام بھائی بھائی ہیں۔ دیوبندی اور بریلوی علماء کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں جس کا علم عوام کو بالکل نہیں ہے بلکہ عوام سمجھ رہی ہے کہ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، عرس، میلاد، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، انگھوٹے چومنا وغیرہ کا اصل اختلاف ہے حالانکہ یہ سب اعمال اگر کوئی اہلسنت نہیں کرتا تو کوئی گناہ گار نہیں ہے اور ان اعمال نہ کرنے والے کو دیوبندی یا وہابی کہنے والے کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنا ہو گا۔
9۔ عثمانیہ خلافت، اجماع امت، اہلسنت کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا، اگر مندرجہ بالا “اعمال” بند کر دئے جائیں تو بدعت و شرک کا رولا ختم ہو جائے گا۔ موجودہ دیوبندی حنفی، اہلحدیث غیر مقلد، سعودی عرب کے حنبلی یا وہابی علماء اگر ایک ہیں تو ایک ہو جائیں ورنہ پاکستان میں فساد برپا نہ کریں جس سے اہلتشیع رافضیت کو فائدہ ہو۔
10۔ حضور ﷺ کا فیض 124000 صحابہ کرام و اہلبیت کے ذریعے دور دور تک پھیلا۔ اہلتشیع کہتے ہیں کہ مولا علی نہیں بلکہ ڈپلیکیٹ علی حضور ﷺ کے وارث ہیں مگر ڈپلیکیٹ علی کو حضور ﷺ کے مقابلے میں نہیں مان سکتے ورنہ ختم نبوت کے منکر بن جائیں گے۔ دوسری بات اگر صرف ڈپلیکیٹ علی کو وارث مان لیا جائے تو 124000 صحابہ کرام کو چھوڑ کر کونسا دین اور کونسی احادیث ہیں جو ڈپلیکیٹ علی نے اکیلے اہلتشیع کو کس دور میں کن کن صحابی یا تابعی راویوں کے ذریعے سکھائیں؟
نُکتہ: اہلتشیع علماء نے اپنی عوام کو جھوٹ سکھایا ہے اسلئے خود بھی جھوٹے، احادیث کی کتابیں بھی جھوٹیں اور فقہ جعفر بھی جھوٹی ہے، اگر اہلتشیع کی کتابوں کے حوالے دو تو اپنی کتابوں کے انکاری بن جاتے ہیں، اسلئے اہلتشیع کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ خود آل محمد ﷺ کے دشمن ہیں کیونکہ قرآن و سنت کے اُلٹ ہیں۔