O Mere Chand (او میرے چاند)

او میرے چاند

1۔ شعبان کی 29 کو شام کے وقت چاند دکھائی دے تورات کو تراویح پڑھیں اور صبح روزہ رکھ لیں کیونکہ بخاری کتاب الصوم 1909 مسلم 2498: جب تک چاند نہ دیکھو روزہ شروع نہ کرو، اسی طرح جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ موقوف نہ کرو اور اگر بادل چھا جائے تو تیس دن پورے کر لو۔

2۔اس حدیث کے مطابق اگر 29شعبان یا 29 رمضان کو بادل کی وجہ سے چاند نظر نہیں آیا تو 30 شعبان کو رمضان کا روزہ نہیں رکھ سکتے کیونکہ ابوداود کتاب الصیام حدیث 2334: جس نے ایسے (شک والے) دن کا روزہ رکھا اس نے ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔البتہ بخاری کتاب الصوم حدیث 1914 مسلم 2518: اگر کسی کی عادت اس دن روزہ رکھنے کی ہے تو وہ نفلی روزہ رکھ سکتا ہے۔

3۔ چاند تو ہر وقت آسمان پر رہتا ہے مگر دکھائی شام کو دیتا ہے، اسلئے اُس کا افق پر ہونا تو لازم ہے مگر روزہ یا عید تب ہو گی جب دکھائی دے گا اور یہ حساب و کتاب ہر ایک اپنے اپنے مُلک کے حساب سے کرے گا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں سعودیہ کے ساتھ روزہ رکھنا چاہئے حالانکہ صحیح مسلم، کتاب الصیام، حدیث 2528: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے شام میں جمعہ کی شب کو چاند دیکھا اور جب مدینے آ کر بتایا تو حضرت ابن عباس نے فرمایا ہم نے تو ہفتے کی رات کو دیکھا اور ہم اپنے پورے روزے اپنے شہر کا چاند دیکھ کر رکھیں اور عید کریں گے کیونکہ یہی رسول اللہ ﷺ کا حُکم ہے۔

4۔اسلئے امام ترمذی رحمہ اللہ نے جامع ترمذی میں اس حدیث پر باب باندھا، مفہوم: اس بات کا بیان کہ ہر علاقہ کے لوگوں کے لئے ان کی اپنی رؤیت ہے اور اسی طرح کا باب امام نووی رحمہ اللہ نے بھی باندھا۔ اسلئے یہ بھی کہا گیا کہ چاند و سورج کے طلوع و غروب کے فرق سے مختلف ممالک میں دن و رات کا فرق ہے جو ہر مسلمان کی آزمائش ہے، البتہ جو بھی مسلمان نماز، روزہ، حج اور لیلتہ القدر کی تلاش اپنے علم یا علماء کے قانون کے مطابق کرے گا تو اس کی بخشش ہر وقت ہو رہی ہے۔

5۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور علم نجوم سے چاند دیکھنے کے لئے مدد لی جا سکتی ہے مگر روزہ یا عید کوئی بھی مسلمان چاند دیکھ کرہی تو بتائے گا۔ گواہ، گواہی کی شرائط، یوم شک (شعبان کی 29یا 30کا روزہ رکھنا) چاند کے مسائل اور اس پوسٹ کی احادیث عربی و اردو کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں۔زیادہ زور و شور یہی ہے کہ جماعتیں ان سوالوں کے جواب نہیں دے کر ایک نہیں ہوتیں تو مذہبی انتشار پھیلتا ہے:

دیوبندی دجل و فریب: دیوبندی خلافت عثمانیہ، اجماع امت کے متفقہ عقائد پر ہیں۔ 1908 میں المہند لکھ کر پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، قبور اور سینوں سے فیض لینے کالکھ کر یہ دعوی کیاکہ حسام الحرمین کے فتاوی حرمین شریفین کے علماء کرام نے واپس لے لئے اور 1924 میں نجد کے وہابی علماء نے 1921 میں وفات پانے والے برصغیر کے جناب احمد رضا خاں کو بدعتی و مشرک نہیں کہا بلکہ خلاف عثمانیہ، چار مصلے والوں کو کہا۔ دیوبندی رضاخانی نہیں اب اپنےالمہند لکھنے والے اکابر کو بدعتی و مشرک کہہ رہے ہیں کیوں؟

اہلحدیث کی حماقت: اہلحدیث حضرات کے کس مجتہد نے کہا کہ تقلید بدعت و شرک ہے اور اب صحیح احادیث میں میری پیروی کرنا اور ضعیف احادیث کا انکار کرنا، اس کا جواب نہیں دیں گے۔

بریلوی تبلیغ: بریلوی اگر رافضیت کے ساتھ نہیں ہیں تو اعلان کریں کہ اصل اہلسنت برصغیر کے جناب احمد رضا خاں صاحب نہیں بلکہ حرمین شریفین کے چار مصلے والے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بغیر حوالے کے بدعتی و مشرک کہا، اسلئے اصل اہلسنت کے لئے میلاد عرس، ایصالِ ثواب، انگوٹھے چومنا صرف جائز ہے اور اگر کوئی اہلسنت کو ان اعمال کی وجہ سے دیوبندی یا وہابی کہے تو اس کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنا ہو گا۔

سوال: اہلتشیع کے امام معصوم کی بات کیا حضور ﷺ کے برابر ہو سکتی ہے، دوسرا کیا حضور ﷺ کی پیروی کرنے کا حُکم ہے یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اتباع کا حُکم ہے، حضور ﷺ کی احادیث اہلتشیع نے کس دور میں اکٹھی کیں

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general