آٹھ تراویح یا تہجد
1۔ حضورﷺ نے رمضان کی راتوں میں ”قیام“ فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی”من قام رمضانا“ فرما کر ایمان اور ثواب کی نیت سے ”قیام“ کرنے کی ترغیب دی۔ اسلئے ہر ہر صحابی رمضان المبارک میں اپنی
اپنی طاقت کے مطابق قیام (کھڑا ہو کر عبادت) فرماتا۔ تراویح کی کوئی جماعت نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی ”من قام رمضانا“ کو تراویح کا نام دیا گیا۔ البتہ احادیث میں آتا ہے:
بخاری 2012 أبي داود 1373: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نصف شب کے وقت باہر تشریف لائے اور مسجد میں نماز پڑھنے لگے اور بہت سے لوگوں نے آپﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح کے وقت لوگوں نے اس کا چرچا کیا تو دوسرے روز اور زیادہ لوگوں نے آپ ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے مزید چرچا کیا۔ چنانچہ مسجد میں حاضرین کی تعداد تیسری رات اور بڑھ گئی۔ رسول اللہﷺ باہر تشریف لائے اور آپﷺ نے نماز پڑھائی (کثیر تعداد میں) لوگوں نے آپﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب چوتھی رات آئی تو نمازی مسجد میں سما نہیں رہے تھے یہاں تک کہ آپﷺ صبح کی نماز کے لئے باہر تشریف لائے۔ جب نماز فجر پڑھ چکے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر شہادت توحید و رسالت کے بعد فرمایا: اما بعد! تمہاری موجودگی مجھ سے پوشیدہ نہیں تھی لیکن میں تم پر نمازِ تراویح (قیام) فرض ہو جائے اور تمہارے اس (فرض کی ادائیگی) سے عاجز آ جانے سے ڈر گیا۔ نبی اکرم ﷺ کے وصال تک معاملہ اسی طرح رہا۔
2۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ہر رمضان میں یہ عبادت کی مگر جماعت تین دن سے زیادہ ثابت نہیں۔اسلئے لوگ کبھی سو نے کے بعد اُٹھ کر قیام کرتے اور کبھی سونے سے پہلے قیام کرتے یا ساری ساری رات قیام کرتے، حتی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ آگیا اور اس قیام کا نام تراویح پڑ گیا اور جماعت سے نماز ادا ہونے لگی۔
بخاری 2010: حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان المبارک کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق تھے، کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور کہیں ایک گروہ کسی امام کی پیروی میں نماز پڑھ رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے خیال میں انہیں اگر ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو اچھا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے اس کا عزم کر لیا اور پھر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں سب کو جمع کر دیا۔ پھر میں ایک اور رات ان کے ساتھ (مسجد کی طرف) نکلا تو لوگ ایک امام کے پیچھے نمازپڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (انہیں دیکھ کر) فرمایا: یہ کتنی اچھی بدعت ہے! مگر جو لوگ اس وقت (نمازِ تراویح ادا کرنے کی بجائے) سو رہے ہیں (تاکہ وہ پچھلی رات اُٹھ کر نمازِ تراویح ادا کریں) وہ اس وقت نماز ادا کرنے والوں سے بہتر ہیں۔ اس سے ان کی مراد وہ لوگ تھے (جو رات کو جلدی سو کر) رات کے پچھلے پہر نماز ادا کرتے تھے اور (تراویح ادا کرنے ولے) لوگ رات کے پہلے پہر نماز ادا کرتے تھے۔
بخاری 2013: آٹھ رکعت: ایک صحابی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھ کہ رمضان المبارک میں حضور ﷺ کی نماز کی کیا کیفیت ہوتی تھی تو انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں (بشمول وتر) گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔۔۔۔الخ
صلاۃ تہجد: اہلحدیث حضرات جو صحیح بخاری کا حوالہ دے کر تراویح کی آٹھ رکعتیں ثابت کرتے ہیں، وہ غور کریں کہ یہ روایت امام بخاری نے صرف ”کتاب صلاۃالتراویح باب فصل من قام رمضان“ میں نہیں لکھی بلکہ اس سے پہلے اسی حدیث کو اصلاً ”کتاب التہجد“ میں لکھ چکے ہیں۔ اسلئے امام بخاری کا ان آٹھ رکعتوں سے مراد قیام الیل کی وجہ سے ”رمضان یا غیر رمضان“ میں ”صلاۃ تہجد“ ہے۔
احادیث میں باب باندھنا: امام بخاری نے ”کتاب صلاۃالتراویح“کے نام سے بغیر عنوان کے کتاب بنائی اور نیچے باب ”فصل من قام رمضان“ میں چھ احادیث درج کیں مگر تراویح کی تعداد پر کوئی علیحدہ باب قائم نہیں کیا کیونکہ ان کو حضورﷺ سے تراویح کی تعداد پر کوئی حدیث نہیں ملی۔ اسلئے یہ حدیث تراویح کی آٹھ رکعتوں پر نہیں ہے بلکہ رمضان المبارک میں نبی کریم ﷺ کے نماز تہجد کے بارے میں ہے۔ ان گیارہ رکعتوں میں 8 رکعتیں امام بخاری مذکورہ حدیث کو باب’فصل من قام رمضان“ میں اس وجہ سے لائے ہیں کہ نبی کریمﷺ پورا سال پابندی سے تہجد پڑھتے تھے۔ دوسری طرف امام مسلم نے اس حدیث کو ”کتاب صیام“ میں نہیں لکھا بلکہ اسے باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبیﷺدرج کرکے سمجھایا کہ اس حدیث سے مراد نماز تراویح نہیں بلکہ نماز تہجد ہی ہے۔
تراویح: تہجد کی نماز کسی نے بھی جماعت سے نہیں کروائی جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں نمازِ تراویح کی باقاعدہ جماعت کروائی۔ اسلئے نماز تراویح علیحدہ ہے اور تہجد علیحدہ ہے۔
جواب مکمل: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے سوال رمضان المبارک میں حضورﷺ کی کیفیت کا تھا اورآپ نے جواب دیا کہ تراویح کی نماز کے باوجود حضورﷺ یہ آٹھ رکعتیں ضرور ادا کر تے تھے۔ نمازِ تہجد کو رمضان میں نماز تراویح قرار دینے والوں کا خیال اسلئے بھی غلط ہے کہ نبی اکرمﷺ نے نماز تراویح کی جماعت صرف تین راتوں میں کرائی ہے جبکہ آپﷺ نے نماز تہجد کی باقاعدہ جماعت کبھی نہیں کرائی۔ آپﷺ تہجد کی نماز گھر پڑھنے کا فرماتے کیونکہ گھر میں پڑھنے کی زیادہ فضیلت ہے۔
حضورﷺ کا قیام: ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ روزے رکھے لیکن آپﷺ نے ہمیں نمازِ (تراویح) نہ پڑھائی، جب رمضان کے سات دن باقی رہ گئے (یعنی 23 ویں رات آئی) تو آپ ﷺ ہمیں (نماز پڑھانے کے لیے) کھڑے ہوئے یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی، پھر چوبیسویں رات قیام نہ فرمایا اور پچیسویں رات کو نماز پڑھائی یہاں تک کہ نصف رات گزر گئی۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کاش آپ رات کا بقیہ حصہ بھی ہمیں نماز پڑھاتے (ہمارے لئے باعثِ سعادت ہوتا)، آپﷺنے فرمایا: جو شخص امام کے ہمراہ (نماز کے لیے) سلام پھیرنے تک کھڑا ہو اس کے لیے پوری رات قیام (کا ثواب) لکھا جاتا ہے، پھر آپ ﷺ نے نمازِ تراویح نہ پڑھائی یہاں تک کہ تین دن باقی رہ گئے تو آپ ﷺ نے ستائیسویں شب کو نماز پڑھائی، آپ ﷺنے اپنے اہلِ بیت اور ازواجِ مطہرات کو بھی بلایا، آپ ﷺ نے اتنی لمبی نماز پڑھائی کہ ہمیں فلاح (کے چھوٹ جانے) کا خوف ہوا۔ (جبیر بن نفیر کہتے ہیں)میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: فلاح کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: سحری۔(أبو داود 1375، الترمذي 806، النسائي 1364)
خوبصورت قیام: تین دن کا قیام دیکھ کر ہمیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کتنے مخلصانہ انداز میں عبادت ہوتی تھی۔ کیا ہر جماعت اتنا قیام کرتی ہے، اگر نہیں تو رکعت پر نہ لڑے بلکہ قیام زیادہ کرنے پر لڑے۔
پوسٹ کا سوال: تمام خلافت عثمانیہ والے اہلسنت علماء کرام اور عوام اہلحدیث سے اس سوال کا جواب لے کر دے کہ تقلید کو بدعت و شرک اہلحدیث جماعت کے کس مجتہد نے کہا اور کس مجتہد کے قانون و اصول پر صحیح احادیث پر عمل کرتے اور ضعیف احادیث کا انکار کرتے ہیں۔
چیلنج ہے مرجائیں گے مگر جواب نہیں دیں گے اور رافضیوں کی طرح بخاری و مسلم کی صحیح احادیث کا رونا روتے رہیں گے۔ جن صحابہ کرام نے تراویح کو بدعت حسنہ کہا، ان کے نزدیک وہ بھی نعوذ باللہ بدعتی ہیں ورنہ بتا دین کہ تقلید کو بدعت و شرک کس مجتہد نے کہا؟
چار رکعتوں کے بعد تسبیح تراویح کوئی لازم نہیں بلکہ تھوڑا سا آرام کرنا ہوتا ہے تاکہ کوئی پیشاب پاخانہ کر لے۔ فرض نماز عشاء کی جماعت سے نہ پڑھی ہو تو وتر جماعت سے پڑھنے پر کوئی گناہ نہیں۔ صحابہ کرام و تابعین کی تراویح بیس رکعت تھی اس کا ثبوت کمنٹ سیکشن میں موجود ہے۔
اصل اہلسنت: خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت والے اصل ”اہلسنت“ تھے جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ دیوبندی اور اہلحدیث اگر سعودیہ کے ساتھ ہیں تو ان کے ساتھ ایک ہو کر وہابی اور حنبلی مقلد بن جائیں اور سعودی عرب کو چاہئے کہ جسطرح خلافت عثمانیہ کے دور میں چار مصلے یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کو اکٹھا کیا گیا، اسی طرح سعودیہ غیر مقلد، اہلحدیث، سلفی، توحیدی، محمدی، دیوبندی حنفی کو ایک عقائد و اعمال پر اکٹھا کرے ورنہ فساد نہ پھیلایا جائے۔
خلافت عثمانیہ والوں کو رضا خانی، بدعتی و مشرک، بریلوی نہ کہا جائے کیونکہ یہ کام دیوبندی اور اہلحدیث سعودیہ کی وجہ سے کرتے ہیں، سعودیہ نے پہلے دیوبندی مولوی، پیر، مفتی کو خلافت عثمانیہ کے اہلسنت عقائد کے خلاف لگایا جسطرح اب ایرانی و سبائی و اہلتشیع نے تفسیقی و تفضیلی علماء، پیر، مفتی، ڈاکٹر، انجینئر کو رافضیت کی طرف لگایا۔ سعودی عرب اور ایران اہلسنت کے خلاف ہیں۔
اہلتشیع سے سوال: حضورﷺ، صحابہ کرام و تابعین کے قول و فعل و تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔ مرفوع حدیث کا تعلق حضور ﷺ، موقوف کا صحابی اور مقطوع کا تابعی سے ہوتا ہے۔اہلتشیع حضرات کی ساری احادیث کی کتابیں منگھڑت ہیں ورنہ مرفوع، موقوف اور مقطوع احادیث کے صحابہ کرام اور اہلبیت، تابعین کے نام بتائیں جن کا قرآن و سنت کے مطابق تقیہ، تبرا، معصوم، بدا کا عقیدہ تھا۔