صدقہ فطر (فطرانہ)
ماہ رمضان کے خاتمے اور عید الفطر کا چاند نظر آجانے کے بعد مسلمانوں پر صدقہ فطر واجب ہے، فطر کا معنی ہے کسی چیز کو کھولنا اور روزہ افطار کرنا چونکہ یہ صدقہ رمضان کا روزہ افطار کرنے کے بعد ادا کیا جاتا ہے اس لئے اسے صدقہ فطر کہتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ جو مسلمان اپنا روزانہ، ماہانہ اور سالانہ خرچہ نکال کر آسانی سے اپنا اور اپنے بچوں کا فطرانہ دے سکتا ہے اُس پر فطرانہ ہے۔ اگر اُس کا گذارہ ہو رہا ہے اور آسانی سے فطرانہ نہیں دے سکتا تو نہ دے اور اگر غریب ہے تو فطرانہ لے سکتا ہے۔
1۔ صدقہ فطر کا مقصد روزوں کے دوران ہونے والی بے ہودہ باتیں یا بُرے اعمال کا کفارہ بن کر روزوں کو پاک صاف کرنا ہے اور جن کو زکوٰۃ لگتی ہے اُن مسلمانوں کو نماز عید سے پہلے یا عید سے پہلے بھی دے کر اُن کی مالی مدد کی جاتی ہے۔ (ابن ماجہ حدیث 1827 ابوداؤد حدیث 1609 صحیح بخاری 1511) البتہ جانوروں اور کافروں کو زکوٰۃ اور فطرانہ نہیں لگتا۔
2۔ اگر کوئی مسلمان روزہ نہیں رکھتا تب بھی فطرانہ دے گا بلکہ ہر کمائی کرنے والا بالغ عورت اور مرد اپنا فطرانہ خود دیں گے اور نابالغ، نومولود یا معذور کا فطرانہ گھر کا سربراہ دے گا۔ (بخاری 1503 اور مسلم 983)
3۔ ابوداود 1620: حضور ﷺ نے حکم دیا کہ ہر ایک چھوٹے بڑے اور آزاد وغلام کی طرف سے ایک "صاع” جو یا کھجور بطور صدقہ فطر ادا کیا جائے۔
4۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جَو یا کھجور یا کشمش سے ایک صاع صدقۂ فطر دیا کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگوں نے گیہوں سے صدقۂ فطر نکالنے کے سلسلہ میں ان سے گفتگو کی تو آپ نے فرمایا کہ گیہوں سے صدقۂ فطر میں آدھا صاع دیا جائے، چنانچہ لوگوں نے اسی کو معمول بنا لیا۔ (بخاری 1508) امام نووی مسلم کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ اسی حدیث کی بنیا د پر حضرت امام ابوحنیفہ اور دیگر فقہاء نے گیہوں سے آدھے صاع کا فیصلہ کیا ہے۔
5۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو ضروری قرار دی۔ صحابۂ کرام نے گیہوں کے آدھے صاع کو اس کے برابر قرار دیا۔ (بخاری 1507)
6۔ اکثر علماء کے قول کے مطابق جو یا کھجور یا کشمش کا ایک صاع (تقریباً ساڑھے تین کیلو) یا گیہوں کا نصف صاع (تقریباً پونے دو کیلو اور احتیاطاً دو کلو) یا اسکی قیمت صدقۂ فطر میں ادا کرنی چاہئے۔ صدقہ فطر صرف ان اجناس (گندم کا آٹا، چاول، جو کا آٹا، کھجور، منقیٰ اور پنیر) سے ادا کرنا چاہیے جو بطور خوراک زیر استعمال ہوں۔ البتہ روپے پیسے یا چاندی وغیرہ کی صورت میں بھی فطرانہ ادا کیا جا سکتا ہے اس میں غریبوں کا فائدہ ہے۔
7۔ گندم کے حساب سے فطرانے کی رقم ایک فرد کی طرف سے کم از کم 140 مقرر اور زیادہ سے زیادہ بھی دے سکتے ہیں۔جو کے حساب سے 320 روپے فی کس مقرر کی گئی ہے۔ کھجور کے حساب سے صدقہ فطر کی رقم 960 روپے فی کس اور کشمش کے حساب سے 1920 روپے فی کس مقرر کی گئی ہے۔ پنیر سے 3450 روپے ہے۔ جو لوگ روزہ نہیں رکھ سکتے ، وہ تیس روزوں کا فدیہ چکی کا آٹا 8400 روپے، جو 19200 روپے، کھجور 57600روپے، کشمش 115200روپے ادا کریں۔
بھائی بھائی: دیوبندی اور بریلوی بھائی بھائی ہیں کیونکہ دونوں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت کے مطابق پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس کرنے والے ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی (اہلحدیث) علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں سے پہلے دیوبندی اور بریلوی بتائیں کہ کیا دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت نہیں ہیں؟
اہلحدیث حضرات تقلید، عرس، میلاد کو بدعت و شرک کہتے ہیں تو یہ بتائیں کہ حضور ﷺ کے کہنے پر کہتے ہیں یا کس مجتہد نے اہلحدیث جماعت کو کہا کہ یہ سب بدعت و شرک ہیں، اُس کا نام بتائیں۔
اہلتشیع حضرات سے عرض ہے کہ یہ دین رسول اللہ ﷺ کا ہے جن کہ 124000 صحابہ کرام ہوئے، اگر یہ دین 123999صحابہ کرام کو چھوڑ کر صرف (ڈپلیکیٹ) علی نے پھیلایا ہے تو اُن کے کتنے صحابہ ہیں جنہوں نے کونسا دین پھیلایا۔ حضور ﷺ والا یا کوئی اور؟ احادیث تو حضور ﷺ کی اہلسنت کی ہیں اور اہلتشیع کی احادیث کی کتابیں تو پھر منگھڑت ہیں۔