حیض و نفاس
والدین اپنی بیٹی اور شوہر کو چاہئے کہ اپنی عورت کو حیض و نفاس و استحاضہ کے مسائل سکھائے کیونکہ یہ مسائل عورت کی عبادت (طہارت، نماز، روزہ، تلاوت و قرآن کو چھونا، اعتکاف، حج، بلوغ، ہمبستری، طلاق، خلع، عدت، استبراء، رحم وغیرہ) سے تعلق رکھتے ہیں۔اگر کوئی بھی نہ سکھائے تو جذبہ جسے شریعت پر چلائے وہی کامیاب ہے۔ عورت کو شرمگاہ سے تین قسم کے خون سے واسطہ پڑتا ہے:
1۔ حیض زخم کا نہیں بلکہ رحم کا وہ خون ہے جس کے آنے سے عورت بالغ ہو جاتی ہے اور بعد میں مخصوص دنوں میں یہ خون آتا رہتا ہے مگر یہ تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ تین دن پورے ہونے سے پہلے ختم ہو جائے تو یہ خون حیض کا نہیں کہلائے گا۔ البتہ یہ خون مسلسل نہیں بلکہ کبھی رُکتا اور کبھی آتا ہے، اسلئے 72 گھنٹے سے پہلے رُک جائے تو اس کو حیض کا خون نہیں کہتے۔ جس عورت کو حیض نہ آئے تو وہ ماں نہیں بن سکتی اسلئے حیض کا خون عورت کے لئے رحمت خداوندی ہے اور انسانی نسل کی بقا کا دارومدار حیض آنے پر ہے۔
حیض کا خون کبھی سیاہی مائل، زرد، گدلا، سُرخ، مٹیالہ، سبزی مائل ہوتا ہے، اگر یہ رنگ نہ ہوں تو وہ خون حیض کا نہیں ہے۔ حیض کی مخصوص بدبو ہوتی ہے جس کو عورتیں پہچان جاتی ہیں۔ حیض کا خون گرم، گاڑھا اور جلا ہوا نکلتا ہے۔ اسلئے عورت کا پاک ہونے کیلئے اپنے خون کو باربار چیک کرنا عبادت ہے۔
حیض کا خون ایک ماہ میں دو بار بھی آ سکتا ہے، اس سے زیادہ آئے تو کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں۔ مختلف عورتوں کے مختلف مسائل ہوں گے،البتہ عموماً پچاس سے لے کر پچپن سال کی عمر میں حیض کا خون آنا بند ہو جاتا ہے۔ حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا کیونکہ اللہ کریم وہ خون بچے کی خوراک بنا دیتا ہے۔ بعض اوقات دودھ پلانے والی ماں کو بھی حیض نہیں آتا۔
حیض میں پُرسکون رہیں، قرآن پڑھ پڑھا نہیں سکتیں لیکن تلاوت قرآن سُنیں، دینی کتابوں کا مطالعہ کریں، درود شریف، ذکر و اذکار نمازوں کے اوقات میں کریں، کھانا پکائیں البتہ مشقت اور بھاری چیزیں اُٹھانے والے کام نہ کریں، صاف ستھرے کپڑے پہنیں، صاف پیڈز یا سوتی کپڑے پہنیں تاکہ خون جذب ہو سکے، ضرورت کے مطابق بدل کر ہاتھ دھو لیا کریں، شرمگاہ کے اندر کپڑا نہ رکھیں، گیلے کپڑے نہ پہنیں ورنہ جوڑوں کا درد ہو سکتا ہے اور جسم کو ٹھنڈ بھی نہ لگنے دیں، موسم کے لحاذ سے ٹھنڈے گرم پانی سے نہابھی سکتی ہیں۔
ماہواری کے دوران خون گرم ہوتا ہے اسلئے لڑنے کو بھی دل کرتا ہے اسلئے مرد و عورت اس کا خیال رکھیں، ماہواری میں درد عام سی بات ہے جس پر ثواب ہے اسلئے دوائی لینے کی خواہ مخواہ ضرورت نہیں۔حیض کی حالت میں عورت کے ساتھ ہمبستری کرنا حرام ہے، ناف سے لے کر گھٹنے تک کپڑا رکھیں باقی میاں بیوی پیار محبت کی جتنی مرضی باتیں کریں، ملکر کھانا کھائیں اور باہر گھومنے جائیں۔
نفاس: بچہ پیدا ہونے پر جو خون عورت کی شرمگاہ سے آتا ہے اُسے نفاس کا خون کہتے ہیں، اسکی مدت بچہ پیدا ہونے کے بعد تین، پانچ، دس، پندرہ، بیس پچیس، تیس اور حد چالیس دن ہوتی ہے۔ جس وقت یہ خون آنا بند ہو جائے عورت پاک ہو جاتی ہے، نماز، روزہ اور شوہر کے پاس جا سکتی ہے۔ اس دوران کمزوری نہ ہو تو شادی بیاہ پر جا سکتی ہے یہ کوئی عدت نہیں جو گھر گذارنی ہو گی۔
استحاضہ: حیض کا خون تین دن سے لے کر دس دن تک ہوتا ہے، نفاس کا خون کی حد 40دن تک ہے، حیض کے 10دن اور نفاس کے 40 دن سے اوپر خون آئے تو اسے استحاضہ (بیماری) کا خون کہتے ہیں۔ یہ حیض کے خون کی طرح نہیں ہوتا اسلئے اسکی پہچان علیحدہ ہے، اس خون کے آنے کے باوجود نماز، روزہ، شوہر کے پاس جایا جا سکتا ہے، البتہ عورت اپنے مخصوص ایام کو گنتی رہے اور نہ سمجھ میں آنے والا مسئلہ کسی مستند عالم سے پوچھے اور خون کی وجہ سے پریشان ہونے کی بجائے کسی پروفیسر لیڈی ڈاکٹر سے رجوع کرے۔قرآن و سنت کے حوالے کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں۔
خون اُترنا: ایک وہ خون ہے جو بریلوی کو اشرف علی تھانوی کا نام سُن کر آنکھوں میں اُترتا ہے اور دیوبندی کو احمد رضا خاں صاحب کا نام سُن کر آنکھوں میں اُترتا ہے لیکن یہ خون نہیں ہمارے دین کو خونم خون کر دیا ہوا ہے اور عوام مذہب میں نفسا نفسی کا شکار ہو چکے ہیں۔
بھائی بھائی: اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں سے پہلے بتائیں کہ دیوبندی اور بریلوی خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس اور مقلد حنفی ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث) نے بدعتی و مشرک کہا۔ اگر یہ سب اعمال دیوبندی و بریلوی نہیں بھی کرتے تو کوئی گناہ نہیں سوائے تقلید کے کیونکہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی سب اہلسنت ہیں مگر اہلحدیث اپنے مجتہد کا نہیں بتاتے جس نے ان سب اعمال کو بدعت وشرک کہا اور نہ ہی سعودی عرب کے حنبلی مصلے پر اکٹھا ہوتے ہیں۔
اہلتشیع: اہلتشیع سے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ان کی بنیاد قرآن پر ہو سکتی ہے مگر حضور ﷺ کے 124000 صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے جو سُنا اس کے مطابق دین پھیلایا۔ اہلتشیع کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے سب کچھ علی کو دے دیالیکن یہ نہیں بتاتے کہ حضور ﷺ کے تو 124000صحابہ تو اہلتشیع کے (ڈپلیکیٹ) علی کے کون کونسے صحابی ہیں جن سے دین تابعین تک پہنچا۔