حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ
اہلبیت اور صحابہ کرام قرآن و سنت میں شامل ہونے کی وجہ سے ہمارے ایمان کا حصہ ہیں جیسے سورہ آل عمران 61 مباہلے والی آیت ”اور ہم اپنے بیٹے بلائیں تم اپنے بیٹے بلاؤ“ نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے حضرت علی، فاطمہ، حسن و حسین (رضی اللہ عنھم) کو بلایا اور فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہل (بیت) ہیں (صحیح مسلم 6220)۔ سورہ الاحزاب 33: اے اہل بیت!اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے پلید دور کر دے اور تمہیں خوب پاک صاف کر دے نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے اپنی اونی چادر میں حضرت حسن و حسین و فاطمہ و علی رضی اللہ عنھم کو داخل کر کے یہ آیت پڑھی۔(مسلم 6261)
ترمذی 3781: بے شک حسن و حسین رضی اللہ عنھما اہل جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ ترمذی 3769: یہ دونوں (حسن و حسین) میرے بیٹے اور نواسے ہیں۔ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تُو بھی ان دونوں سے محبت کر اور جو ان سے محبت کرے تُو اس سے محبت کر۔بخاری 3751: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: محمد ﷺ کے اہل بیت (سے محبت) میں آپ ﷺ کی محبت تلاش کرو۔ترمذی 3774: حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنھما جمعہ کے وقت میں آئے تو حضور ﷺ نے منبر سے اُتر کر انہیں پکڑا، اپنے سامنے لا کر پھر خطبہ شروع کر دیا۔
بخاری 2704: حضور ﷺ نے حسن (رضی اللہ عنہ) کو دیکھ کر فرمایا کہ میرا یہ بیٹا (نواسا) سید (سردار) ہے اور ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کروائے۔ بخاری3735، 3749، 2122: نبی کریم ﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو اپنے کاندھے پر اُٹھایا ہوا تھا اور آپ ﷺ فرما رہے تھے اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ بخاری 3752: حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی بھی حضور ﷺ سے مشابہ نہیں تھا۔ ابوداود 4131: حضور ﷺ نے حسن (رضی اللہ عنہ) کو گود میں بٹھا کر فرمایا یہ مجھ سے ہے۔
پیدائش: حضرت حسن رضی اللہ عنہ 3ہجری 15رمضان المبار میں پیدا ہوئے (الطبقات الکبری لابن سعد جلد 4 صفحہ 352)۔ حضور ﷺ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت فضل رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم، خولہ بنت منظور، ام بشیر بنت ابن مسعود، ام اسحاق بنت طلحہ بن عبیداللہ، ام ولد یا رملہ، ام فروہ، عائشہ بنت خلیفہ خشعمیہ، جعدہ بنت اشعث، ہند بنت سہیل بن عمرو، ام عبداللہ بنت سلیل بن عبداللہ سے نکاح ہوئے۔ ان تمام عورتوں سے زید، ام الحسن، ام الحسین، طلحہ، حسین، فاطمہ، ابوبکر بن حسن، قاسم، عبداللہ، عبدالرحمن، ام عبداللہ، ام سلمہ پیدا ہوئے۔ ابن جوزی اور ابن ہشام کے مطابق حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے 15بیٹے اور 8 بیٹیاں تھیں۔
صُلح: حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کے زمانے میں کہاں نماز ادا کرتے، کونسا جہاد کیا، نکاح کیسے ہوئے، کون شامل ہوا، اس کا زیادہ علم نہیں ہے۔ البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر پہرا دے رہے تھے۔ اسی دوران جنگ جمل اور جنگ صفین دیکھی اور والد محترم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے 6ماہ بعد حضور ﷺ کی غیبی خبر کے مطابق حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر کے اہلتشیع (سبائی) ایجنٹوں کو ذلیل و خوار کر دیا اور مسلمانوں کے 20سال آرام سے گذر گئے۔
وفات: آپ کی وفات 47سال کی عمر میں زہر کھانے سے ہوئی اور زہر کس نے دیا یہ معلوم نہیں ہے۔ اہلسنت کے نزدیک 5ربیع الاول 50ھ اور اہلتشیع کے نزدیک 28صفر کو شہادت ہوئی۔امیر مدینہ سعید بن العاص الاموی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے فرمان پر جنازہ پڑھایا۔ (الاستیعاب جلد 1 صفحہ 442 ملخصاً) قرآن و احادیث اور اس پیج کے آرٹیکلز (1) بارہ امام (2) حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو زہر (3) حضور ﷺ کا نسب نامہ کا لنک کمنٹ سیکشن میں موجود ہے۔
پراپیگنڈا: اہلتشیع حضرات تاریخ کی کتابوں اور کمزور روایات سے بنو ثقیفہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے گھر کا دروازہ توڑنا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا قتل اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زہر بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر ڈالنا وغیرہ وغیرہ
سوال: تاریخ کی کتابوں اور کمزور روایات سے عقیدہ بنتا ہے تو بتائیں تاریخ کی کونسی کتاب اور کونسا راوی معتبر ہے اور اہلسنت کی کمزور روایات پر اگر عقیدہ بنتا ہے تواہلتشیع کی کتابوں میں ایک بھی روایت مستند نہیں ہے جناب۔
حقیقت: حضور ﷺ کا دین 124000صحابہ کرام (بشمول اہلبیت) کے ذریعے پھیلا لیکن اگر بقول اہلتشیع 123999صحابہ کرام کو چھوڑ کر اکیلے (ڈپلیکیٹ) علی کو حضور ﷺ کے مقابلے میں معصوم مان لیا جائے تو اہلتشیع کی احادیث کی کتابیں حضور ﷺ کی احادیث ہیں یا (ڈپلیکیٹ) علی کی احادیث ہیں؟ اس کا مطلب واضح طور پر ہے کہ حضور ﷺ نہیں بلکہ اتباع (ڈپلیکیٹ) علی کی ہو رہی ہے۔
دجل و فریب: دیوبندی اور بریلوی بننا لازم نہیں بلکہ اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے عقائد اہلسنت جو فتاوی رضویہ اور دیوبندی علماء کی کتاب المہند میں لکھے ہیں اُس کے مطابق ہونا چاہئے۔ دیوبندی اور بریلوی دونوں حنفی مقلد،پیری مریدی، دم درود، عرس، میلاد منانے والے ہیں جو کہ اہلحدیث اور سعودی عرب کے وہابی علماء کے نزدیک بدعت و شرک ہے مگر افسوس کہ دیوبندی ”بریلوی“ کو نہیں بلکہ سعودی وہابی علماء کی وجہ سے اپنے اکابر کو اب بدعتی و مشرک کہہ رہے ہیں۔
اسی طرح اہلحدیث حضرات تقلید، عرس، میلاد، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے کو بدعت و شرک کہتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس ”نبی“ یا کس ”مجتہد“ نے ان سب اعمال کو بدعتی و مشرک کہا اور کس ”نبی“ یا ”مجتہد“ کی صحیح احادیث پر اتباع کر رہے ہیں اور ضعیف احادیث کا انکار کرتے ہیں کیونکہ حضور ﷺ نے تو صحیح اور ضعیف کا فرق نہیں سمجھایا اور نہ ہی ان اعمال کو بدعت و شرک کہا۔