اعتکاف
1۔ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیھم السلام کو حکم تھا کہ طواف، اعتکاف، رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے اللہ کریم کا گھر صاف رکھیں (البقرہ 125) اور البقرہ 187: اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت جائز نہیں“۔ اسی آیت کی وجہ سے مفسرین کہتے ہیں کہ عورتیں مساجد میں اعتکاف نہیں کریں گی۔ اسکی یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ بخاری 2033 – 34: حضور ﷺ نے اعتکاف کا ارادہ کیا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے بھی اعتکاف کی اجازت مانگی اور جب حضور ﷺ اعتکاف کے لئے اپنی جگہ آئے تو بہت سی ازواج (بیویوں) کے خیمے لگے تھے تو آپ ﷺ نے اعتکاف ہی نہیں کیا۔
اعتکاف: اعتکاف کے فضائل کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ حضور ﷺ نے وصال تک ہر رمضان میں اعتکاف کیا (بخاری 2026) اعتکاف کرنے والا گناہوں سے رکا رہتا ہے اور اس کو ان نیکیوں کا ثواب جن کو وہ نہیں کر سکتا ان تمام نیکیوں کے کرنے والے کی طرح ملے گا (ابن ماجہ 1781) اعتکاف کے متعلق احادیث کے لئے باب الاعتکاف، صحیح بخاری کی 2025 – 2046تک مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ضروری مسائل:اعتکاف ”سنت موکدہ علی الکفایہ“، نیت اعتکاف اللہ کی رضا کو پانے کی، 20واں روزہ مسجد میں کھولنا اور عید کا چاند نظر آنے پر مسجد چھوڑ دینا،محلے کی مسجد میں ایک بندے کا اعتکاف سب کو گناہ گار ہونے سے بچاتا ہے۔اعتکاف کی شرائط (۱) اعتکاف کی نیت سے (۲) عقلمند(۳) مسلمان کا(۴) روزہ رکھ کر(۵) مسجد میں اور عورت کا اپنے (۶)گھر میں بیٹھنا۔
اسلئے بغیر کسی وجہ کے مسجد سے باہر نکلنا یا ٹھرنا، حالتِ اعتکاف میں مباشرت کرنا، عورت اعتکاف میں ہو تو حیض و نفاس کا جاری ہوجانا وغیرہ سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ مرد کو مسجد میں غسل کی حالت ہو تو اپنے پاس اینٹ کا ٹکڑا رکھ لے تاکہ اُسی وقت تیمم کر لے اور پھر غسل خانے میں جا کر غسل کر لے۔وضو کا شک ہو کہ ہے یا نہیں تو شک دور کرے اور جب تک یقین نہ ہو وضو خانے میں نہ جائے۔ گرمیوں میں جسم سے پسینے کی بدبو یا کھجلی ہونے پر نہا سکتا ہے۔
اعتکاف جان بوجھ کر چھوڑ دیا تو جس دن توڑا اس سے آگے بقیہ دنوں کی قضا کرے گا اور اعتکاف کی قضا میں ”روزہ“ بھی رکھے گا۔ البتہ ایک دن کے اعتکاف کی قضا یہ ہے کہ طلوع فجر سے پہلے اعتکاف گاہ میں روزہ رکھ کر داخل ہو اور اسی روز شام کو غروب آفتاب کے وقت اپنے اعتکاف گاہ سے باہر آ جائے۔اگر اعتکاف رات کو ٹوٹا ہے تو شام کو غروب آفتا ب سے پہلے مسجدمیں داخل ہو، رات بھر وہاں رہے، روزہ رکھے اور اگلے دن غروب آفتاب کے بعد اعتکاف گاہ سے باہر نکلے۔
جائز: ہر وہ عمل جو (۱) شریعت (۲) مسجد کے آداب (۳) اخلاقیات (۴) انسانیت (۵) روحانیت (۶) اعتکاف کی شرائط کے خلاف ہو ایک معتکف کو نہیں کرنا اور باقی سب جائز ہے۔ البتہ ہر جماعت اعتکاف میں ایک سوال کا جواب لے کر دے:
اہلحدیث: اہلحدیث جماعت کے کس ”مجتہد“ نے کہا کہ تقلید بدعت و شرک ہے اور اب صحیح احادیث میں میری پیروی کرنا اور ضعیف احادیث پر عمل نہ کرنا۔
دیوبندی: خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت کے دور کے مزارات کو ڈھا کر نجد کے محمد بن عبدالوہاب کے ماننے والوں نے حرمین شریفین کے اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کو بدعتی و مشرک کہا تو برصغیر میں بریلوی بدعتی و مشرک کیوں بن گئے، کیا یہ خلافت عثمانیہ والے ہیں تو دیوبندی کون ہیں؟
بریلوی: مستحب اعمال (میلاد، عرس، ایصالِ ثواب، قل و چہلم، تیجہ، دسواں) اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جنازے کے بعد دعا وغیرہ) نہ کرنے والے کو کوئی بھی جاہل ”دیوبندی“ اور”وہابی“ کہے گا تو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرے گا کیونکہ دیوبندی چار کفریہ عبارتوں والے اور وہابی اہلسنت کو بدعتی و مشرک کہنے والے ہیں۔ کیا یہ ٹھیک ہے؟
اس پیج پر ہم صرف مسلمان ہیں، خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت کے عقائد و اعمال پر ہیں، جن کا علم فتاوی رضویہ اور دیوبندی اکابر کی کتابوں سے ہوا۔ البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفریہ عبارتیں ہیں مگر سعودی عرب کی وجہ سے دیوبندی اپنے اکابر کو بدعتی و مشرک اسطرح کہہ رہے ہیں کہ مذہب رضا خانی، قبر پرست، کالا خاں وغیرہ لیکن ان کو معلوم ہے کہ اصل اہلسنت خلافت عثمانیہ والے ہیں۔ اسی طرح ایران کے کہنے پر بریلوی تفسیقی و تفضیلی پیر و علماء، مفتی، نعت خواں، ڈاکٹر، انجینئر بھی سبائی ایجنٹ کا کام کر رہے ہیں اور ان کے مریدین و مدارس یرغمال ہیں۔
اہلتشیع سے سوال: حضورﷺ، صحابہ کرام و تابعین کے قول و فعل و تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔ مرفوع حدیث کا تعلق حضور ﷺ، موقوف کا صحابی اور مقطوع کا تابعی سے ہوتا ہے۔اہلتشیع حضرات کی ساری احادیث کی کتابیں منگھڑت ہیں ورنہ مرفوع، موقوف اور مقطوع احادیث کے صحابہ کرام اور اہلبیت، تابعین کے نام بتائیں جن کا قرآن و سنت کے مطابق تقیہ، تبرا، معصوم، بدا کا عقیدہ تھا۔