Ramadan Mubarak (رمضان مبارک)

رمضان مبارک

فرض روزہ اسلام کی بنیاد ہے، ایک امتحان ہے، ثواب اور ایمان کی نیت سے رکھا جاتا ہے، دنیا میں روزہ رکھنے سے رحمتیں ملتی ہیں، قبر و حشر کا سہارا روزہ اور نیک اعمال ہیں۔

مشورہ: رمضان کا روزہ ہر گز نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اگر کام کی وجہ سے روزہ رکھنا دشوار ہو تو کام چھوڑ دے۔ کام چھوڑنے سے گھر کا گذارہ نہ ہوتا ہو تو’’فدیہ‘‘ یا ’’فطرانہ‘‘ لے کر روزہ رکھ لے۔ اگر’’فدیہ یا فطرانہ‘‘ بھی کوئی نہ دے تو چھٹی کے دن روزہ رکھے اور باقی دنوں میں کوشش کرتا رہے۔ جس کا گھر میں AC لگا کر گذارہ ہوسکتا ہو تو سارا دن لگا کر روزہ رکھ لے۔ روزے میں ہر مسلمان کی ’’جان‘‘ اور’’ایمان‘‘ ہے، اس لئے روزہ ’’قضا‘‘ ہونے سے بہتر ہے کہ’’جان‘‘ نکل جائے۔

چاند دیکھنا: چاند و سورج کا ہماری ’’عبادت‘‘ سے گہرا تعلق ہے۔ ’’چاند ‘‘ دیکھ کر روزہ رکھنا یا عید کرنا، حج یا قربانی کے دن مقرر کرنا وغیرہ اور’’سورج‘‘ زیادہ تر ہماری ’’ نمازوں‘‘ کے ’’اوقات‘‘ بتانے کا ذریعہ ہے۔

کمیٹی: چاند دیکھنا اور چاند دیکھ کر دعا کرنا بھی عبادت ہے البتہ گورنمنٹ نے جوچاند دیکھنے کے لئے علماء اور مفتیان عظام کی ایک جماعت (رویت ہلال کمیٹی) تشکیل دی ہوئی ہے اس پر اعتماد کرلینا چاہئے۔

پاکستان میں ایک ایسی جماعت بھی ہے جو یہ کہتی ہے کہ ہم نے چاند دیکھ کر نہیں بلکہ مکہ و مدینہ (سعودی عرب) کے اعلان سے روزہ رکھنا ہے۔ ان کی اپنی منطق ہے جو کہ غلط ہے کیونکہ صرف روزہ یا عید ہی کیوں بلکہ پھر نمازوں کے اوقات بھی ان کے ساتھ ہونے چاہئیں حالانکہ جب وہاں فجر کا وقت ہوتا ہے یہاں سورج نکل آیا ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ ہماری نمازوں کے اوقات ’’دو گھنٹے ‘‘ کا دن میں فرق ہو جانے سے نہیں ملتے۔ اس لئے روزے بھی اپنے ملک کا’’ چاند‘‘ دیکھ کر ’’ رکھنے‘‘ اور نمازیں سورج کے اوقات دیکھ کر پڑھنی چاہئیں۔

روزہ: ہر عقلمند ’’بالغ‘‘ مسلمان ( عورت اور مرد) پر اللہ کریم کا ’’قُرب‘‘ حاصل کرنے کی ’’نیت ‘‘سے دوکام (۱) کھانا پینا (۲) جماع، صحبت، عمل تزویج کو ’’صبح صادق ‘‘ سے لے کر ’’غروبِ آفتاب‘‘ تک اپنے آپ کو روکے رکھنا۔

مثال: اگر کسی نے ناپاکی(احتلام) کی حالت میں روزے کی’’ نیت ‘‘ کر کے سارا دن دو کام نہیں کئے یعنی (۱) کھانا پینا (۲) اور جماع یا صحبت کئے بغیر’’دن‘‘ گذار ا مگر ’’فرض ‘‘ نمازیں یاتراویح” نہیں پڑھی تو روزہ پھر بھی ہو جاتاہے۔

اصول: فرض نمازیں روزوں کے علاوہ بھی ’’فرض‘‘ ہیں، ان کو روزوں کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور مہینے میں بھی’’ قضا‘‘ کرنا گناہ کا کام ہے مگر ’’روزہ‘‘ دو کاموں سے رُکنے کانام ہے۔

بالغ: بالغ یعنی سمجھدار Mature ہونے پر نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کرنا وغیرہ لازم ہو جاتے ہیں۔ لڑکابالغ تب ہوتا ہے جب اس کو پہلی بار احتلام ہوتا ہے اور لڑکی بالغ تب ہوتی ہے جب اس کے مخصوص ایام، ماہواری یا Menses شروع ہو جاتے ہیں۔ بچہ اگر روزہ رکھ لے تو روزہ ہو جاتا ہے مگر اس پر لازمی نہیں ہے، اس لئے روزہ توڑ بھی دے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔

عورت: اگر مخصوص ایام، ماہواری یاMenses ہیں تو روزہ نہیں رکھے گی بلکہ بعد کے مہینوں میں قضا کرے گی۔ اسی طرح اگر روزہ کُھلنے میں پانچ منٹ باقی تھے مگر ماہواری شروع ہو گئی تو پھر بھی اس روزے کی قضا کرے گی کیونکہ روزہ ’’صبح صادق‘‘ سے لے کر’’غروب آفتاب‘‘ تک کا نام ہے۔ اگر عورت سحری سے پہلے Menses سے پاک صاف ہو گئی تو روزہ رکھے گی۔

تشریح: صبح صادق ’’فجر ‘‘ کا وقت شروع اور’’ تہجد‘‘کا وقت ختم ہونے کانام ہے۔ فرض کریں کہ ’’صبح صادق‘‘ کا وقت 4 بجکر 12 منٹ ہے تو اس وقت ’’سحری‘‘ یعنی کھانے پینے کا وقت ختم ہو گیا کیونکہ فجر کا وقت شروع ہو چکا اور ’’اذان‘‘ کا ہونا لازمی نہیں ہے، اگر کوئی کھائے پئیے گا تو روزہ نہیں ہو گا۔ اسی طرح غروب آفتاب ہوا، ساتھ ہی سائرن ہوگیا اور لوگ روزہ کھول لیتے ہیں کیونکہ اذان کاانتظار کرنا ضروری نہیں۔

(رمضان میں’’ سحری‘‘ اور’’افطاری‘‘ کے لئے کیلنڈر (Calendar) مل جاتے ہیں لیکن یہ کیلنڈر پورا سال فجر، زوال،ظہر، عصر، مغرب یا عشاء کی نمازوں کا ’’وقت‘‘ جاننے کے لئے بھی ہر گھر میں ہونے چاہئیں)۔

(1) یہ خیال کرنا کہ کچھ کھائے پئے بغیر یا ’’اٹھ پہرا‘‘ روزہ نہیں ہوتا، ابھی اذانیں ہو رہی ہیں اس لئے پانی پی لیتا ہوں مگرپانی پینے سے روزہ ہر گز نہیں ہوگا اور آٹھ پہرا ہو جاتا ہے۔
(2) روزہ افطار کرنے کے’’وقت‘‘ کا علم ہر ایک کو ہونا چاہئے کیونکہ اگر اچانک سپیکر ٹھیک کرتے ہوئے سائرن بولنے پر یا مولوی صاحب کی غلطی سے روزہ ’’افطار‘‘ کر لیا گیا تو ایک روزہ اگلے ماہ دوبارہ رکھنا (قضا) پڑے گا اور یہ “احتیاط‘‘ کرنا ہر فرد کی ’’ذمہ داری‘‘ میں شامل ہے۔
(3) ہر ایسی صورت جس میں بے احتیاطی کی گئی اور روزہ رکھتے ہوئے دیر ہو گئی یا وقت سے پہلے کھول لیا گیا، ان تمام صورتوں میں روزہ نہیں ہوتا بلکہ دوبارہ رکھنا پڑتا ہے۔ علم ہونے کے باوجود بے احتیاطی کی گئی تو’’ کفارہ‘‘ دینا پڑے گا۔

بیمار: جس کو قابل ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ اب تم ساری زندگی روزہ رکھنے کے قابل نہیں ہو وہ روزہ رکھنے کی بجائے کسی مسلمان کو روزے کا ’’فدیہ‘‘ دے سکتا ہے۔ (2) وہ بیمار جسے ڈاکٹر کہہ دے کہ اس رمضان کے روزے نہ رکھو بعد میں رکھ سکتے ہو وہ ’’فدیہ‘‘ نہیں دے گا بلکہ بعدمیں روزے رکھے گا۔ (3) وہ بیمار جس کو علم نہیں تھا مگر’’فدیہ‘‘ دے دیا توروزے پھر بھی رکھنے پڑیں گے۔ (4) بیمار اگر گرمیوں کے روزے نہیں رکھ سکتا تو سردیوں میں روزے رکھے لیکن’’فدیہ‘‘ دینا جائز نہیں ہو گا۔

افطار کی دُعا: نبی کریمﷺ روزہ افطار کرنے کی دعا کچھ کھا پی کر پھر مانگا کرتے تھے،اس لئے ’’سنت‘‘ بعد میں دعا کرنا ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد نمبر10) اسی طرح کھانے کے دوران مغرب کی اذان کا جواب بھی نہ دیا جائے تو ’’جائز‘‘ ہے کیونکہ روزہ افطار کیا جا رہا ہے۔

روزہ ٹوٹنے کے اصول

ہر مسلمان کو یہ علم ہو گا کہ روزہ’’ کھانے پینے ‘‘اور ’’جماع‘‘ کرنے سے ٹوٹ جاتا ہے مگر علماء کرام نے اس کیلئے کچھ بہترین ’’اصول‘‘ بنائے ہیں اور یہ اصول بھی ہر مسلمان کے علم میں ہونے چاہئیں۔

جناب مفتی منیب الرحمان صاحب نے ’’تفہیم المسائل‘‘ جلد اول صفحہ 196- 192 میں’’جدید طبی تحقیق (Science)‘‘ سے مدد لے کر’’ایک اصول‘‘ اور کچھ مسائل میں’’اختلاف‘‘ بھی کیا ہے وہ بھی ساتھ بیان کر دئے گئے ہیں تاکہ عوام تقوی سے کام لے کر روزے میں مزید احتیاط کر سکتی ہے۔

اصول: یہ ہے کہ روزہ دار کے جسم سے تین طرح کوئی چیز باہر نکلے اور دو طرح کوئی چیز اندر جائے تب روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ کل پانچ طریقے ہوئے۔

۱۔ بحالتِ روزہ جان بوجھ کر منہ بھر کرقے ( اُلٹی) کرے اور قے میں غذا یا پانی ہو مگر بلغم نہ ہو۔
۲۔ ایسا جماع کرے جس سے غسل واجب ہوتا ہو، انزال ہو یا نہ ہو روزہ فاسد ہو جائے گا۔
۳۔ خود انزالِ منی (ہتھ رسی، مشت زنی یا ایک ہاتھ سے نکاح) کرے۔
۴۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ کوئی چیز بذاتِ خود اصل شے پیٹ یا معدے میں پہنچائی جائے۔
۵۔ پانچویں صورت کہ کوئی شے دماغ میں پہنچ جائے کیونکہ دماغ کی بڑی شاہراہ پیٹ کی طرف جاتی ہے اور جو چیز دماغ میں چلی جائے اس نے پیٹ میں چلے جانا ہے اس لئے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

اختلاف: مفتی منیب الرحمان صاحب پانچویں ’’اصول‘‘ سے اختلاف رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تازہ ترین طبی تحقیق یہ ہے کہ دماغ اور معدے کے درمیان کوئی روٹ یا نالی نہیں ہے علماء کو یہ فتوی دینا چاہئے کہ دماغ میں کوئی دوا یا غذا پہنچنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ان اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے علماء کرام نے مسائل سمجھائے کہ:

کان کا سوراخ: کان میں پانی یا تیل ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
اختلاف: تازہ ترین طبی تحقیق یہ ہے کہ کان اور معدے کے درمیان کوئی منفد (Route) نہیں ہے لہذا ہمارے اہل فتوی کو اس مسئلے پر نظر ثانی کرکے یہ فتوی دینا چاہئے کہ کان میں دوا یا تیل ٹپکانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، ہاں اگر کسی کے کان کا پردہ پھٹا ہوا ہے تو پھر تیل ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

آنکھ کا سوراخ : آنکھ میں سرمہ ڈالنے کی حدیث موجود ہے اس لئے آنکھ میں دوائی ڈالی جا سکتی ہے جیسے سرمہ کی سیاہی بھی حلق (گلے) میں نظر آتی ہے، اسی طرح اگر دوائی کا ذائقہ بھی گلے میں محسوس ہو تو روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ یہ بھی مسامات میں جذب ہو کر اندر گیا ہے جیسے نہانے یا تیل بالوں میں لگانے سے مساموں کی وجہ سے پانی یا تیل جسم کے اندر جذب ہو جاتا ہے مگر روزہ نہیں ٹوٹتا۔
اختلاف: تازہ ترین طبی تحقیق کے مطابق آنکھ اور حلق کے درمیان راستہ ہے۔ ہمارے علماء کو یہ فتوی دینا چاہئے کہ آنکھ میں دوا ٹپکانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے سرمہ کی اجازت دی ہے اور وہ شارع مجاز ہیں، لہذا خلاف قیاس استحساناً سرمے کے جواز کا فتوی دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ تفہیم المسائل از مفتی منیب صاحب جلددوم صفحہ 200-207 پر ایک’’ فتوی‘‘ بھی شامل ہے کہ سرمہ ڈالنے کے سلسلے میں مروی تمام احادیث ضعیف ہیں۔

انجکشن: پٹھے (Muscle)یا رگ (Inter-vein) میں لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ علماء کہتے ہیں کہ اس انجکشن کا تعلق نہ تو معدہ سے ہے اور نہ ہی دماغ سے ہے (اس کے لئے العطایا الاحمدیہ فے ’’فتاوی نعیمیہ‘‘ از صاحبزادہ اقتدار احمد خاں نعیمی جلد اول صفحہ 274 اور ’’فتاوی نوریہ‘‘ کا مطالعہ کریں)

اختلاف: علماء کرام سے عرض ہے کہ وہ انجکشن کو معنی مفسد صوم قرار دیں کیونکہ عام طریقے سے غذا معدے میں پہنچنے کے بعد تحلیل ہوتی ہے اور اس کے صالح اجزاء، گلو کوز، حیاتین، پروٹینز اور کیلشیم، فاسفورس وغیرہ کی شکل میں خون میں شامل ہو کر انسان کی رگوں، پٹھوں اور دیگر اعضاء میں پہنچ کر انہیں قوت و طاقت اور قوام عطا کرتے ہیں۔۔۔۔۔ یہی کام انجکشن کرتا ہے۔

احتیاط: کان اور آنکھ میں دوا ڈالنے اوردونوں طرح کے انجکشن لگوانے سے بچنا چاہئے تاکہ تقوی پر عمل ہو سکے ۔
ناک کا سوراخ: اگر بتی کا دھواں جان بوجھ کر سونگھنے، Vicks Inhaler کا استعمال یا اسی طرح کوئی بھی چیز جان بوجھ کر ناک کے ذریعے اندر کو کھینچنے سے یا وضو کرتے یانہاتے ہوئے اگر ’’پانی‘‘ ناک کے ذریعے ’’معدہ‘‘ میں چلا جائے تو’’روزہ‘‘ ٹوٹ جاتا ہے۔

منہ کا سوراخ: منہ کے راستے کوئی چیز کھانے پینے سے ’’معدہ‘‘ میں چلی جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ وضو میں کلی یا مسواک کرتے ہوئے سرخی مائل خون نکل کر منہ کے راستے اگر معدہ میں چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، اس لئے روزہ میں مسواک یا کلی کرنے میں بھی احتیاط کرنی چاہئے۔

مرد کی پیشاب کی نالی کے سوراخ کا تعلق مثانے سے ہے اس لئے اس سوراخ میں اگر کوئی دوائی ڈالی جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا مگر عورت کے پیشاب کے مقام کے اندر کے سوراخ کا تعلق’’صحبت یا جماع ‘‘ کے خاص عمل سے ہوتا ہے اس لئے کوئی تَرچیز یا انگل یاپانی اندر کے سوراخ میں ٹپکائے گی یااس سلسلے میں کوئی ٹیسٹ کروائے گی تو روزہ نہیں رہے گا۔

مرد و عورت کے پاخانے (بڑی آنت) کا تعلق معدہ سے ہوتا ہے اس لئے استنجا کرتے ہوئے، کوئی Testکرواتے ہوئے یا کوئی گیلی چیز اندر داخل کی جائے گی تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

قضا اور کفارہ

رمضان المبارک کا’ روزہ‘‘ توڑنے پر کفارہ ہے اور روزہ بڑی چیز سے نہیں بلکہ تِل کے برابر کوئی چیز منہ میں رکھ کرچبائی جس کا ذائقہ حلق میں محسوس ہوا تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

قضا: کا مطلب ہے کہ ایک روزے کے بدلے میں دوسرے کسی ماہ میں ایک روزہ رکھنا۔

کفارہ: روزے میں جان بوجھ کر، خود بخود، سوچتے سمجھتے ہوئے، کھا پی لیا یا عورت سے صحبت کر لی تو ایک روزہ کی قضا کے ساتھ ساتھ، دو مہینے مسلسل روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔

روزہ کی قضا اور کفارہ کے اصول

منہ کی راہ سے پیٹ اور دماغ میں ایسی دواء یا غذاء کا پہنچنا جس سے بدن میں طاقت پیدا ہو اس سے کفارہ لازم آئے گااور اگر ایسی چیز کھائی جس سے بدن میں طاقت پیدا نہ ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا مگر قضا لازم آئے گی مثلاً منہ کے راستے غذا یا کوئی دواء کھائی تو “کفارہ‘‘ اور اگر کنکر پتھر نگلا تو ’’قضا‘‘۔

۲۔ جان بوجھ کر ایسی غذا کھانے سے جس کی طرف رغبت ہو تو کفارہ لازم آئے گا اور جس کی طرف رغبت نہ ہو اس کے کھانے سے قضا لازم آئے گی جیسے (i) گوشت کھانے سے ’’کفارہ‘‘ اور جلا ہوا بدبودارگوشت کھانے سے’’قضا‘‘ (ii) پیر کا چبایاہوا لقمہ کھانے سے’’ کفارہ‘‘ اوراپنے منہ کا نکال کر کھانے سے ’’قضا‘‘ (iii) قے آئی علم تھا کہ روزہ نہیں ٹوٹا مگر کھانا کھایا تو’’ کفارہ‘‘علم نہیں تھا اور کھا لیا تو’’ قضا‘‘ (iv) خربوزہ یا تربوز کھانے پر’’ کفارہ‘‘ اور اس کا چھلکاسڑا ہوا کھانے پر’’ قضا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
۳۔ عورت سے جماع میں رغبت ہوتی ہے اس لئے ’’کفارہ‘‘ اور اپنے ہاتھ سے منی نکالی تو’’قضا‘‘۔

اہم بات: اگر غلط کام کی عادت سے محبت ہو جیسے مٹی یاکنکرکھانا، سڑے ہوئے پھل یا اس کے چھلکے کھانا، ہتھ رسی یا مشت زنی کو شوق سے کرنا تو پھر مسئلہ ’’قضا ‘‘سے’’ کفارہ‘‘ میں بدل جائے گا۔

جن کاموں سے روزہ نہیں ٹوٹتا
۱۔ گندی فلم دیکھنا یا کسی کو ننگا دیکھنا حرام و نا جائز ہے اور ایسے ہے جیسے اپنی ماں بہن کو ننگا دیکھنا مگر اس کو دیکھنے سے اگر مرد اور عورت کوخود بخود انزال ہو جائے تو روزہ نہیں جاتا۔
۲۔ روزہ یاد نہیں تھا اور غرغرہ کر لیا، ناک میں پانی چلا گیا، روٹی کھا لی، پانی پی لیا تو اس صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا مگر اگر روزہ یاد تھا اور احتیاط نہ کی تو روزہ نہیں ہوتا۔
۳۔ اسی طرح (۱) پھول یا مشک عنبر یا عطر سونگھنے سے (۲) حجامت بنوانے سے (۳) زکام میں رطوبت اندر لے جانے سے (۴) کلی کے بعد منہ میں تری رہنے سے (۵) ہونٹ پر زبان پھیرنے سے (۶) گرد و غبار کا منہ میں خود بخود جانے سے (۷) بدن یا بالوں میں تیل لگانے سے (۸) نہانے سے (۹) خون دینے، نکلوانے یا ٹیسٹ کروانے سے (۱۰) روزے کے دوران قے (اُلٹی)بار بار آئے چاہے منہ بھر کر آنے سے (۱۱) احتلام ہو جانے سے(۱۲) غیبت ، جھوٹ یا بہتان لگانا حرام ہے مگر ان تمام اعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

چند اہم مسائل

۱۔ روزے میں صبح اٹھ کر اگر ناپاکی کی حالت ہو اور وقت کم ہو تو ایسی صورت میں پہلے کھانا کھائے اور غسل بعد میں کرے لیکن نماز قضا نہ ہونے پائے۔
روزے کے دوران غسل کرتے ہوئے بھی احتیاط کی جائے کہ غرغرہ کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض ہے مگر غرغرہ کی بجائے صرف کلی کی جائے اور ناک میں پانی احتیاط سے اتنا چڑھایا جائے کہ ناک کے سوراخوں سے اندر نہ جانے پائے۔

۲۔ روزے میں مسواک کے علاوہ ٹوتھ پیسٹ کے بغیر خالی برش بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اگرمسواک یا برش کرنے سے خون نکل آتا ہو اورسرخی مائل خون نکل کرپیٹ میں چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ ٹوتھ پیسٹ کے اجزاء حلق میں جانے کا اندیشہ ہوتا ہے اسلئے ٹوتھ پیسٹ سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے کر لینی چاہئے۔

۳۔ قمری مہینہ 29 یا 30 کا ہوتا ہے۔اس لئے بیرون ملک سے آنے والا پاکستان آئے اور اس کے 30 روزے ہو چکے ہوں تو یہاں پر ابھی رمضان کا ایک دن باقی ہو تو وہ 31واں روزہ رکھے گا اور مقامی ملک کے مطابق عید کرے گا۔ اسی طرح اگر کوئی پاکستان سے سعودی عرب جاتا ہے اور اس کے 28 روزے ہو چکے ہیں لیکن وہاں عید ہے تو ان کے ساتھ عید منا کر بعد میں روزہ پورا کر لے۔

۴۔ تراویح کی نمازعورت و مرد پر 20 رکعت پڑھنا’’سنت موکدہ‘‘ ہے۔ جس کو چھوڑنے والا گناہگار ہے۔ اگر روزہ ’’مجبوری‘‘ سے نہیں رکھا گیا تو تراویح پھر بھی’’ ضروری‘‘ ہے۔ اگر’’تراویح‘‘ کسی وجہ سے نہیں پڑھی گئی تو ’’روزہ‘‘ رکھنا پھر بھی ضروری ہے۔
عام آدمی تراویح کی نماز اپنے حالات، کام، Job یا پیشہ دیکھتے ہوئے گھر میں بھی ’’چھوٹی چھوٹی سورتیں ‘‘ملا کرپڑھ سکتا ہے کیونکہ جماعت سے ’’تراویح‘‘ کی نماز ’’سنت علی الکفایہ‘‘ ہے یعنی محلے میں سے ایک بھی ’’جماعت‘‘ سے پڑھ لے گا تو سب کی طرف سے ادا ہو جائے گی۔

۵۔ روزوں کے آخری دس دنوں میں ’’لیلۃ القدر‘‘ کی تلاش کرنا بھی’’عبادت‘‘ہے لیکن ’’مزدور‘‘آدمی اگرفجر اور عشاء کی نماز’’گھر‘‘ میں نہیں بلکہ ’’جماعت‘‘ سے پڑھ لے، دوسرا ’’تراویح‘‘ اور ’’تہجد‘‘ نہ چھوڑے تو ایسے مسلمان کو بھی ’’لیلۃ القدر‘‘ سے وافر حصہ ضرور مل جاتا ہے۔(بحوالہ موطا امام مالک)

۶۔ اعتکاف بھی سنت علی الکفایہ ہے یعنی محلے میں سے ایک بھی ’’اعتکاف‘‘ مسجد میں بیٹھ جائے گا تو سب کی طرف سے ادا ہو جائے گا۔ اعتکاف ’’نیت‘‘ کے ساتھ رمضان کے آخری دس دن دنیاوی تعلقات، مصروفیت چھوڑ کر اور’’ روزہ‘‘ رکھ کر ’’مسجد‘‘ میں قیام (مجاہدہ) کرنے کو کہتے ہیں، جس پر معتکف کو دو حج اور دو عمرے کا ثواب ملتا ہے۔ اس لئے’’ مُعتکف‘‘ کے لئے عورت کو چھونا اور مباشرت کرنا منع ہے اس کے علاوہ مسجد سے باہر ’’بیمار پُرسی‘‘ اور’’ جنازہ پڑھنے‘‘بھی نہیں جائے گا۔

اس لئے اصول یہ بنا کہ کسی وجہ سے اگر معتکف نے “روزہ‘‘ قضا کیا، مسجد کی مقرر کردہ حدود سے باہر نکل گیا، نیت ہی اعتکاف کی نہیں تھی اس لئے دنیا داری میں مشغول رہا تو ’’اعتکاف‘‘ نہ ہوا۔البتہ اپنے منہ کو ڈھانپ کر رکھنا یا پردے لگا کر رکھنا’’اعتکاف‘‘ میں قطعاً ضروری نہیں ہے۔عورت بھی اپنے گھر کے ایک کمرے میں اعتکاف کر سکتی ہے لیکن اگر حیض یاMenses آگئے تو ’’اعتکاف‘‘ ختم ہو جائے گا۔

۷۔ شو ال میں چھ نفلی روزوں کا’’ ثوا ب‘‘ پو رے سا ل کے روزے رکھنے کے برابر ہے مگر یہ روزے عید کے دوسرے دن رکھنا لا زمی نہیں بلکہ شوال کے شروع،درمیان اور آخر جب مرضی رکھے جا سکتے ہیں۔ ان میں تراویح کی نمازنہیں ہوتی ہے بلکہ احادیث پر عمل کرنے سے روحانی خوشی(عید) ہوتی ہے ۔جس کے’’ فر ض‘‘ روزے قضا ہوں وہ پہلے ’’فرض‘‘ روزوں کی’’ قضا‘‘ کرے پھر’’ نفلی روزے‘‘ رکھے تو ’’قبول‘‘ ہوتے ہیں۔

۸۔ رمضان کے روزوں میں’’ صدقۂِ فطر‘‘ نمازِ عید پڑھنے سے پہلے پہلے یا اس کے بعد بھی ہر’’بالغ‘‘، ’’مالدار‘‘ پر “واجب‘‘ ہوتا ہے۔مالدار وہ ہے جس کے گھر میں ساڑھے باون تولے کی چاندی کے برابر اشیاء پڑی ہیں اور وہ آسانی کے ساتھ مہینے کا خرچہ نکال کر’’فطرانہ‘‘ دے سکتا ہو۔

فطرانہ سوا دو سیرتقریباً دو کلو 100 گرام (2.099.52 Kg ) کے برابر چاول، گندم وغیرہ یا ان کی قیمت کے برابر گھر کا ہربالغ فرد اپنا اپنا دے گا لیکن اکٹھا کر کے کسی ایک غریب رشتے دار، دوست اور ہمسایہ کو دے سکتے ہیں ۔ نابالغ کافطرانہ اس کے باپ کی طرف سے ہو گا۔مہمان اپنا فطرانہ خود دے گا۔

اتحاد امت: خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت والے اصل “اہلسنت“ تھے جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ دیوبندی اور اہلحدیث اگر سعودیہ کے ساتھ ہیں تو ان کے ساتھ ایک ہو کر وہابی اور حنبلی مقلد بن جائیں اور سعودی عرب کو چاہئے کہ جسطرح خلافت عثمانیہ کے دور میں چار مصلے یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کو اکٹھا کیا گیا، اسی طرح سعودیہ غیر مقلد، اہلحدیث، سلفی، توحیدی، محمدی، دیوبندی حنفی کو ایک عقائد پر اکٹھا کرے ورنہ فساد نہ پھیلایا جائے۔

خلافت عثمانیہ والوں کو رضا خانی، بدعتی و مشرک، بریلوی نہ کہا جائے کیونکہ یہ کام دیوبندی اور اہلحدیث سعودیہ کی وجہ سے کرتے ہیں، سعودیہ نے پہلے دیوبندی مولوی، پیر، مفتی کو خلافت عثمانیہ کے اہلسنت عقائد کے خلاف لگایا جسطرح اب ایرانی و سبائی و اہلتشیع نے تفسیقی و تفضیلی علماء، پیر، مفتی، ڈاکٹر، انجینئر کو رافضیت کی طرف لگایا۔ سعودی عرب اور ایران اہلسنت کے خلاف ہیں۔

سوال: خانہ کعبہ میں اگر وہابی علماء کو اللہ کریم نے پسند کیا ہے تو دیوبندی پیری مریدی حنفیت اور اہلحدیث غیرمقلدیت چھوڑ کر ”وہابی“ اور”حنبلی“ ہو کر اتحاد امت کا ثبوت دیں۔

خوفِ خدا: دعوت عام اور سرعام ہے کہ دیوبندی اور اہلحدیث ”مفاد پرستی“ چھوڑ کر اپنے مسلمان بھائیوں کو بدعتی و مشرک نہ کہیں بلکہ خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت کے قانون پر سب اکٹھے ہوں ورنہ قیامت والے دن کا عذاب مذہبی عوام اور علماء کے ساتھ عام و خاص سب کو بگھتنا پڑے گا۔

تجدید ایمان: بریلوی علماء کی سب سے بڑی غلطی کہ عوام کو اہلسنت کی پہچان نہیں کروائی، فتاوی رضویہ میں لکھے اہلسنت کے عقائد و اعمال نہیں سکھائے۔ اسلئے مستحب اعمال (اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم، تیجہ، دسواں، عرس، میلاد، قبر پراذان) جو نہیں کرتا اس کو دیوبندی کہنے والے اہلسنت نہیں رہتے بلکہ ان کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنا ہو گا۔

اہلتشیع سے سوال: حضورﷺ، صحابہ کرام و تابعین کے قول و فعل و تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔ مرفوع حدیث کا تعلق حضور ﷺ، موقوف کا صحابی اور مقطوع کا تابعی سے ہوتا ہے۔اہلتشیع حضرات کی ساری احادیث کی کتابیں منگھڑت ہیں ورنہ مرفوع، موقوف اور مقطوع احادیث کے صحابہ کرام اور اہلبیت، تابعین کے نام بتائیں جن کا قرآن و سنت کے مطابق تقیہ، تبرا، معصوم، بدا کا عقیدہ تھا۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general