Sayyida Fatima ( 3ھ وصال مبارک سیدہ فاطمہ)

3ھ وصال مبارک سیدہ فاطمہ

اہلسنت کے نزدیک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا یوم وصال 3 رمضان المبارک 11ھ ہے اور اہلتشیع منگھڑت مذہب 3 جمادی الثانی کو یوم وصال مانتے ہیں۔ قرآن و سنت سے زیادہ تاریخ پڑھنے پر زور دیتے ہیں لیکن یہ بھی نہیں بتاتے کہ تاریخ کی کونسی کتاب اور کونسا راوی ان کے نزدیک معتبر ہے جس سے عقیدہ یا مسائل اخذ کر سکتے ہیں۔ صحابہ کرام اور اہلبیت 124000 ہیں جنہوں نے حضور ﷺ کی بات کو سُن کر آگے پھیلایا۔ یہ کونسا ڈپلیکیٹ علی ہے جس کی نہج البلاغہ اُس کے کتنے صحابی نے سُنی اور آگے کس تابعی کو سُنایا اور کس دور میں لکھی ہے؟ البتہ اہلتشیع دین اسلام کے مخالف ہیں اور اہلبیت کے نام کا کارڈ استعمال کرتے ہیں جیسے اہلتشیع سے سوال کریں تو کہیں گے بغض علی، بغض اہلبیت یا بغض آل رسول ہے حالانکہ یہ خود نبی کے دین پر نہیں ہیں۔

اہلسنت دن منانے والے نہیں ہیں بلکہ جب مرضی حضور ﷺ کا ذکر(میلاد)، صحابہ و اہلبیت و تابعین و اولیاء کرام کا تذکرہ کر سکتے ہیں مگر یہ دوڑ بھی اہلتشیع نے شروع کی جس پر عوام کہتی ہے کہ آج فلاں کا دن ہے ورنہ چوبیس گھنٹے ہم میلاد، ایصال ثواب، تذکرہ اہلبیت و صحابہ و اولیاء کرام ہی کر رہے ہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ قرآن و سنت میں شامل ہر کو ہمارے ایمان کا حصہ ہیں اور ان کا جنازہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ادا کی۔

اہلتشیع منطقی طور پر کہیں گے کہ صحیح بخاری و مسلم میں لکھا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ رات کے اندھیرے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ادا کیا۔ اہلتشیع سے سوال ہے کہ کیا بخاری و مسلم کی ساری احادیث کو مانیں گے یا نقص نکالنے ہیں؟ امام بخاری و مسلم نےصحیح احادیث اکٹھی کی ہیں لیکن علماء اہلسنت سب احادیث کی کتابوں سے فیصلہ کریں گے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔

1۔ بخاری حدیث نمبر 4240 کے اندرامام زہری کا قول ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہ دی گئ بلکہ راتوں رات دفن کیا گیا حضرت علی نے جنازہ پڑھایا۔ یہ امام زہری کی ذاتی رائے ہے ورنہ امام زہری کے علاوہ گیارہ راویوں نے بھی یہی حدیث بیان کی مگر زہری والا اضافہ نہ کیا۔ لہذا زہری کا اضافہ بغیر دلیل و سند کے ہے اور صحیح یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا۔ علماء کا اجماع ہے کہ بخاری و مسلم کی احادیث صحیح ہیں مگر علماء کا یہ بھی اتفاق ہے کہ بخاری مسلم میں موجود اقوال ، تفردات و تعلیقات صحیح ہوں یہ لازم نہیں۔( نعمۃ الباری شرح بخاری7/615وغیرہ)

2۔ سیدنا امام مالک، سیدنا امام جعفر سیدنا امام زین العابدین جیسے عظیم الشان آئمہ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی وفات مغرب و عشاء کے درمیان ہوئی تو فورا ابوبکر عمر عثمان زبیر عبدالرحمن(وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین) پہنچ گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے ابو بکر آگے بڑھیے جنازہ کی امامت کیجیے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ کے ہوتے آگے بڑھوں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا جی بالکل اللہ کی قسم آپ کے علاوہ کوئی جنازہ کی امامت نہیں کرا سکتا تو سیدنا ابوبکر نے سیدہ فاطمہ کے جنازے کی امامت کرائی اور رات کو ہی دفنایا گیا۔(تاریخ الخمیس1/278 الریاض النضرۃ 1/176، سمط النجوم1/536)

3۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھارات کےوقت وفات پاگئیں تو فورا ابوبکر عمر عثمان طلحۃ زیر سعیدرضی اللہ عنھم اور دیگر کئ صحابہ جن کےنام امام مالک نے گنوائے سب آئے،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا آگے بڑھیے جنازہ پڑھیے،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم آپ خلیفہ رسول کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا پس ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا چار تکبیریں کہیں اور اسی رات دفنایا گیا (الكامل في ضعفاء الرجال5/422,423، ذخیرۃ الحفاظ روایت نمبر 2492)
.
4۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث1/381)

5۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں۔(حلیۃ الاولیاء 4/96,)

6۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا رات کےوقت وفات پاگئیں تو فورا ابوبکر عمر اور دیگر کئ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آئے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا آگے بڑھیے جنازہ پڑھیے،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم آپ خلیفہ رسول کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں بڑھ سکتا پس ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور جنازہ پڑھایا چار تکبیریں کہیں (ميزان الاعتدال2/488)

7۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھاکا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں(الطبقات الكبرى 8/24)

8۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بنت رسول سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں (الطبقات الكبرى8/24)

9۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں (البدایہ و النہایۃ 1/98، اتحاف الخیرۃ 2/460، حلیۃ الاولیاء 4/96، کنزالعمال 15/718)

10۔ بےشک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی جب وفات ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کندھوں سے پکڑ کر جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کیا اور رات ہی میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کو دفنایا۔ (سنن کبری بیھقی روایت نمبر 6896)

فیصلہ: مذکورہ حوالہ جات میں سے کچھ یا اکثر ضعیف ہیں مگر تمام سنی شیعہ علماء کے مطابق “ وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن ترجمہ: تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے۔ (شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی ناراضگی

1۔ اول بات تو یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ ناراض نہ ہوئیں تھیں بعض کتب میں جو مہاجرت و ترک کلام لکھا ہے اسکا معنی علماء نے یہ لکھا ہے کہ فدک وغیرہ کے متعلق کلام ترک کردیا مطالبہ ترک کر دیا…(دیکھیے ارشاد الساری شرح بخاری5/192 ،عمدۃ القاری22/233 وغیرہ کتب)

2۔ بالفرض اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا ناراض بھی ہوئی تھیں تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں منا لیا تھا، راضی کر لیا تھا اور سیدہ فاطمہ راضی ہوگئ تھیں (ترضاھا حتی رضیت) سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنھا بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا کو (غلط فھمیاں دور فرما کر)مناتےرہےحتی کہ سیدہ راضی ہوگئیں(سنن کبری12735 عمدۃالقاری15/20، السیرۃ النبویہ ابن کثیر 4/575)

3۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زوجہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی بیماری میں ان کی دیکھ بھال کرتی رہیں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا نے انہیں وصیت کی تھی کہ وہ انہیں غسل دیں، یہ بات شیعہ کتب سے بھی ثابت ہے۔

سیدہ فاطمہ کی وصیت: میری میت کوغسل ابوبکرکی زوجہ اورعلی دیں(شیعہ کتاب مناقب شہرآشوب3/138)

4۔ یہ جھوٹ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا، حضرت علی و عباس رضی اللہ عنھما، ازواج مطہرات، اہلبیت وغیرہ کو رسول کریم ﷺ کی املاک سے مطلقا محروم کیا گیا….سچ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نےخود بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا و اہلبیت میں سے کسی کو مالک نہ بنایا بلکہ نبی پاک ﷺ نے اپنی ساری ملکیت اسلام کے نام وقف کی اور فاطمہ ازواج مظہرات اہلبیت وغیرہ پر وقف میں سے جو نفع پیداوار ملتی، اسکو ان پر خرچ کرتے تھے۔

اسی طرح رسول کریم ﷺ کی سنت پے چلتے ہوئے حضرت سیدنا صدیق اکبر عمر و علی رضی اللہ عنھم نے بھی اہلبیت آل رسول ازواج مطہرات وغیرہ کسی کو مالک نہ بنایا بلکہ فدک وغیرہ رسول کریم ﷺ کےچھوڑےہوئےصدقات میں سےسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آل محمد اہلبیت ازواج مطہرات فاطمہ علی عباس پراور کچھ صحابہ اور کچھ عوام مسلمین پر خرچ کرتےتھے ۔ حضرت عمر و علی رضی اللہ عنھما نے بھی یہی طریقہ جاری رکھا یہی طریقہ رسول کریم کا رہا تھا۔ (دیکھیے تاریخ الخلفاء ص 305، ابوداود روایت نمبر 2970 ,2972، سنن کبری للبیھی روایت نمبر 12724بخاری روایت نمبر 2776، 3712)

5۔ انبیاء کرام علیھم السلام کی میراث درھم و دینار(کوئی مالی میراث)نہیں،انکی میراث تو فقط علم ہے۔ (شیعہ کتاب الکافی1/34)

نُکتہ: حضور کا علم 124000 صحابہ کرام اور اہلبیت کے ذریعے پھیلا، اہلتشیع کا عقیدہ ہے کہ صرف مولا علی نبی کے دین کے وارث ہوئے جس کا مطلب ہے دین اب صرف مولا علی کا ہوا، باقی 124000 صحابہ کرام اور اہلبیت تو نعوذ باللہ فارغ ہو گئے۔ اب اس بات کو سمجھیں یہ بات ختم نبوت کے خلاف ہے، دوسرا مولا علی کے خود کون کون سے صحابی و تابعی نے حضور ﷺ کی نہیں بلکہ مولا علی کی بات کو حدیث سمجھ کر پھیلایا؟ آخری بات نہج البلاغہ یا کوئی بھی اہلتشیع کی حدیث کی کتاب حضور ﷺ کی نہیں بلکہ منگھڑت ہوئی تو قرآن و سنت پر فقہ بنتی ہے تو فقہ جعفر بھی منگھڑت ہوئی۔

سوال: اہلتشیع کی مستند ترین احادیث کی کتابیں کونسی ہیں جس کو وہ ”صحیح“ مانتے ہیں اور اُن ”صحیح احادیث“ کی شرح کس کی مانتے ہیں؟

حقیقت: اہلتشیع علماء نے اپنی عوام کو جھوٹ سکھایا ہے اسلئے خود بھی جھوٹے، احادیث کی کتابیں بھی جھوٹیں، فقہ جعفر بھی جھوٹی، حوالے دو تو اپنی کتابوں کے انکاری، اسلئے اہلتشیع کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ خود آل محمد ﷺ کے دشمن ہیں کیونکہ قرآن و سنت کے اُلٹ ہیں۔

حقیقت: سچ یہ بھی ہے کہ دیوبندی اور بریلوی خلافت عثمانیہ، چار مصلے،والے ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے 1924 میں مزارات ڈھا کر بدعتی و مشرک کہا۔ اگر خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ دور بدعت و شرک کا ہے تو پھر حضور ﷺ تک سب نعوذ باللہ بدعتی و مشرک ہوئے کیونکہ یہی چار ائمہ کرام کی فقہ کی تقلید میں 1200سالہ مسلمان تھے۔

نکتہ: سعودی عرب والے اگر حنبلی ہیں تو اہلحدیث کو چاہئے غیر مقلدیت چھوڑ کر ان کی تقلید کریں ورنہ بتا دیں کہ میلاد، عرس، تقلید، پیری مریدی، دم درود کو بدعت و شرک کس مجتہد نے کہا کیونکہ حضور ﷺ نے تو کہا نہیں۔ دیوبندی حنفی کے نزدیک اگر سعودی عرب والے پیری مریدی دم درود تعویذ دھاگے میلاد عرس کو بدعت و شرک کہنے والے نہیں تو پھر کون ہیں اور دیوبندی پیری مریدی کو کیا امام ابو حنیفہ سے ثابت کرتے ہیں یا خلافت عثمانیہ کے دور میں بنے شریعت و طریقت کے قانون سے ثابت کرتے ہیں؟

 

 

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general