Shariat e Namaz (آسان مسائلِ نماز (قسط 5))

آسان مسائلِ نماز (قسط 5)

قضا نماز
بالغ ہونے پر لڑکا اور لڑکی ’’نماز‘‘ نہ پڑھیں تو سخت گناہ گار ہیں لیکن اگر سوتے ہوئے یا بھول کر’’نماز‘‘ اپنے وقت پر نہ پڑھی جا سکے تو اس نماز کو وقت نکلنے کے بعد ’’قضا‘‘ کرتے ہیں۔

صاحبِ ترتیب: جس مسلمان نے ساری زندگی بالغ ہونے کے بعد ’’پانچ‘‘ نمازیں اپنے وقت پر پڑھی ہیں، اُس کو صاحبِ ترتیب کہتے ہیں اور کسی مسلمان کی ساری زندگی میں چھ سے زیادہ نمازیں قضا ہوں تواُس کو صاحب ترتیب نہیں کہتے جب تک اُن نمازوں کی قضا ’’ادا‘‘ نہ کر لے۔

قضائے عُمری یہ ہے کہ ساری زندگی کی نمازیں قضا ادا کرنے کے لئے اور صاحبِ ترتیب بننے کیلئے’’حساب‘‘ لگائیں کہ ’’بالغ‘‘ ہونے کے بعد کتنی نمازیں ’’قضا‘‘ ہوئیں، پھر جتنے مرضی سال لگیں، پہلے ساری نمازیں قضا کریں، اس دوران اگر کوئی ’’نئی‘‘ نماز فوت ہو جائے توساتھ ساتھ وہ بھی ادا کرتے جائیں۔

ثواب: اللہ کے گھر میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب 1 لاکھ نمازوں کا ہے لیکن ساری عُمر کی قضا نمازیں ادا ’’نہیں‘‘ ہوتیں۔ یہ بھی کتنا بڑا دھوکہ ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ 2 نفل پڑھنے کو قضائے عمری کہتے ہیں۔

وقت: کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگرنمازِ فجر قضا ہوجائے تو اگلے دن کی فجر کی نماز کے ساتھ’’قضا‘‘ کرکے پڑھتے ہیں حالانکہ جب صبح اُٹھیں توسب کاموں سے پہلے بلکہ ناشتہ کرنے سے پہلے بھی نماز فجر قضا پڑھیں۔

ضروری: صاحب ترتیب نمازِ فجر ’’قضا ‘‘ہو نے پر جب تک فجر کی نماز قضا نہ پڑھ لے، اُس وقت تک ظہر کی نماز نہیں پڑھ سکتا کیونکہ نمازوں میں ترتیب ضروری (واجب) ہے۔

فرض: قضا نمازوں میں صرف ’’فرض‘‘ قضا کرتے ہیں لیکن سنتیں یا نفل نہیں البتہ عشاء کے 3 وتر ایک علیحدہ نماز ہے، اس کی ’’قضا‘‘ بھی عشاء کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔

نماز مسافر
78 کلو میٹرفاصلہ طے کر کے کسی دوسرے شہرمیں ریل، ہوائی جہاز وغیرہ سے جانے والے کو مسافر کہتے ہیں لیکن اگر اپنے شہر میں کسی بھی سواری پر اتنا کلو میٹر سفر طے کر بھی لے تو مسافر نہیں بنتا۔

حدود : مسافر جب اپنے شہر کی حدود سے باہر نکلے گا توپھرنماز میں قصر (کمی) شروع ہو گی۔

کمی: سفر میں صرف فرض نماز( ظہر، عصر اور عشاء ) کی 4 رکعت کم کر کے 2 رکعت پڑھتے ہیں۔

سنتیں: سنتیں اور نفل نہ بھی پڑھیں تو کوئی گناہ نہیں لیکن اگر پڑھیں توپوری پڑھیں گے، البتہ فجر کے دو (2) فرضوں کے ساتھ 2 سنتیں پڑھ لے اورعشاء کے چار (4) فرضوں کے ساتھ 3 وترضرور پڑھتے ہیں۔

* لاہور کا شہری راولپنڈی ’’کام‘‘ کرتا ہے اور ہفتے بعد گھر واپس لاہور آتا ہے، راولپنڈی میں امام کے پیچھے فرض نماز (ظہر، عصر اور عشاء) پوری پڑھے گا لیکن اکیلا صرف 2 فرض (ظہر، عصر، عشاء) پڑھے گا۔

* اگر بھول کر 2 فرض کی جگہ 4 فرض پڑھ گیا تو اخیر میں ’’سجدہ سہو‘‘ کر لے تاکہ دو نفل ہو جائیں گے لیکن اگر جان بوجھ کر 4 فرض پڑھے گا تو گناہ گار ہو گا۔ ٹرین یا بس کے ڈرائیور ،کنڈیکٹر وغیرہ بھی اگر 78 کلو میٹر سفر کے ارادے سے نکلے ہیں تو وہ بھی (ظہر، عصر، عشاء) نماز میں قصر (کمی) پڑھیں گے۔

* اگرراولپنڈی میں 15 دن رہنے کا ارادہ کر لیا تو اب راستے میں قصر لیکن راولپنڈی پہنچ کرپوری پڑھے گا۔ اگر 15دن رہنے کاارادہ نہیں لیکن کام ختم نہ ہوا اور 25 دن نکل گئے تو نمازیں قصر (کم) ہی پڑھے گا۔

امام: مسافرکو امام نہیں بننا چاہئے کیونکہ اس دور میں بہت سے لوگوں کو سفرکی نماز کا علم نہیں ہے۔ البتہ اگر مسافر امام بن جائے تو نماز سے پہلے اور بعد میں اعلان کر دے کہ ہم مسافر ہیں اسلئے اپنی نمازپوری کر لیں۔

طریقہ: مسافر امام جب نماز(ظہر، عصر، عشاء) 2 رکعت پڑھا لے تو مقیم عوام سلام نہ پھیرے بلکہ اپنی 2 رکعت پوری کرنے کیلئے کھڑی ہو جائے اور بقیہ دو رکعت اس طرح پڑھے گی جیسے امام کے پیچھے پڑھ رہی ہے، ان دونوں رکعتوں میں قرات نہیں کرے گی بلکہ خاموش رہے گی لیکن رکوع ، سجود، التحیات میں پڑھے گی۔

اکٹھی 2 نمازیں: سفر کے دوران کچھ لوگ اکٹھی دو نمازیں اس طرح پڑھتے ہیں کہ ظہر کے وقت میں عصر پڑھ لیتے ہیں اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھ لیتے ہیں لیکن:

اصل طریقہ: جس مسلمان کو ’’نماز کے وقت‘‘ کا علم ہے، وہ 2 نمازیں اس طرح اکٹھی کرے گا کہ فرض کریں اس وقت مغرب کاوقت 6.36 ہے اور عشاء کا وقت 7.56 ہے۔ مسافرنمازی 7.50 پر یعنی آخری وقت میں مغرب پڑھے گا اورجیسے ہی عشاء کا وقت آئے گا وہ 7.56 پر عشاء پڑھ لے گا۔ اسی طرح عصر کا وقت 4.34 ہے تو ظہر کے 2 فرض 4.31 پر پڑھ کر 4.34 پر عصر ادا کرے گا۔

نمازِ جمعہ
ہر مسلمان پرجمعہ کی نماز پڑھنا فرض ہے اورنماز جمعہ سے پہلے ظہر نہیں پڑھتے، اگر پڑھ لی توتب بھی نماز جمعہ پڑھیں اور ظہر ضائع ہو گئی۔ عورت، بیمار اور مسافر پرنمازِجمعہ نہیں لیکن اگر پڑھ لیں تو نمازظہر ادا نہ کریں۔

اذان: جمعہ کی پہلی اذان جب ہو جائے تو کاروبار کرنا منع ہے، اس لئے پہلی اذان کے بعد جمعہ کے لئے تیاری کریں اور مسجد میں دوسری اذان سے پہلے پہلے پہنچ جائیں۔ خطیب صاحب کی اردو تقریر سننا لازمی نہیں بلکہ عربی خطبہ سننے کے لئے دوسری اذان سے پہلے پہنچنا چاہئے مگر مسائل سیکھنے کے لئے تقریر ضرور سُنیں۔

وقت: اذان کے بعد کاروبار منع ہے لیکن پاکستان میں جمعہ کی نماز کا ایک وقت نہیں ہے اور بہت سے مقرر یا خطیب 2 جگہوں پر ”تقریر“ کرتے ہیں۔ جمعہ والے دن ”عوام“ جمعہ کی نیت سے نہا دھو کر نئے کپڑے پہن کر کام پر چلی جاتی ہے۔ جمعہ کی اذان کے بعد ”عوام“ کاروبار بند نہیں کرتی بلکہ ایک بھائی 1:30 پر جمعہ کی نماز پڑھ آتاہے اور دوسرا 2:15 پر پڑھ لیتا ہے۔ اس لئے امام اورعوام دونوں ٹھیک ہیں اور یہ اس وقت تک رہے گا جب تک فیصلہ نہیں ہو جاتا کہ جمعہ کی اذان سے کتنی دیر کے بعد نمازادا کرنی چاہئے۔ 12.15 پر جمعہ کی پہلی اذان ہوتی ہے اور بعض مسجدوں میں نماز 2.30 پراداکی جاتی ہے۔

جواب: علماء کرام کا اختلاف ہے کہ عربی خطبے سے پہلے والی ”اذان“ کا جواب دینا چاہئے کہ نہیں، اس لئے عوام چاہے تو اذان کا جواب دے اور چاہے تو خاموشی سے اذان سُنے۔

غور: کھانا پینا، سلام کرنا، خارش کرنا وغیرہ جو نماز میں منع ہے، عربی خطبہ سُنتے ہوئے بھی منع ہے۔

انداز: عربی خطبہ سنتے ہوئے جس طرح آسانی سے ہو با ادب انداز میں بیٹھیں اور حدیث میں التحیات کی طرح بیٹھنے کا نہیں آیا۔ نبی کریمﷺ کا نام آئے تو انگوٹھے نہیں چومنے بلکہ دل میں درود پاک پڑھیں۔

نیت: جمعہ کے دن ظہر نہیں ہوتی، 4 سنت جمعہ، 2 فرض جمعہ، 4سنت جمعہ، 2سنت جمعہ اور 2 نفل جمعہ نیت کریں۔

اختلاف: جمعہ کی نماز کے بعدکوئی 2، 4 یا 6 سنتیں جمعہ پڑھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے 2 سنتیں بھی پڑھی ہیں اور ایک حدیث کے مطابق 4 سنتیں بھی پڑھی ہیں، اسلئے اہلسنت و جماعت دونوں حدیثوں پر عمل کرتے ہوئے 6 سنتیں پڑھتے ہیں۔ ہر نماز کی سنتیں نوافل گھر جا کر پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے، اس لئے مسلمان ہر نماز کے بعد اپنے بیوی بچوں کے سامنے گھروں میں سنتیں پڑھ کر احادیث پر عمل کرے۔

اتحاد اُمت: خلافت عثمانیہ، اجماع امت، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی،شافعی، مالکی، حنبلی) کے متفقہ عقائد پر ہو گی جس پر دیوبندی اور بریلوی عوام بھائی بھائی ہیں۔ دیوبندی اور بریلوی علماء کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں جس کا علم عوام کو بالکل نہیں ہے بلکہ عوام سمجھ رہی ہے کہ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، عرس، میلاد، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، انگھوٹے چومنا وغیرہ کا اصل اختلاف ہے حالانکہ یہ سب اعمال اگر کوئی اہلسنت نہیں کرتا تو کوئی گناہ گار نہیں ہے اور ان اعمال نہ کرنے والے کو دیوبندی یا وہابی کہنے والے کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنا ہو گا۔

عثمانیہ خلافت، اجماع امت، اہلسنت کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ موجودہ دیوبندی حنفی، اہلحدیث غیر مقلد، سعودی عرب کے حنبلی یا وہابی علماء اگر ایک ہیں تو ایک ہو جائیں ورنہ پاکستان میں فساد برپا نہ کریں جس سے اہلتشیع رافضیت کو فائدہ ہو۔

اہلحدیث کی حماقت: اہلحدیث حضرات کے کس مجتہد نے کہا کہ تقلید بدعت و شرک ہے اور اب صحیح احادیث میں میری پیروی کرنا اور ضعیف احادیث کا انکار کرنا، اس کا جواب نہیں دیں گے۔

حضور ﷺ کا فیض 124000 صحابہ کرام و اہلبیت کے ذریعے دور دور تک پھیلا۔ اہلتشیع کہتے ہیں کہ مولا علی نہیں بلکہ ڈپلیکیٹ علی حضور ﷺ کے وارث ہیں مگر ڈپلیکیٹ علی کو حضور ﷺ کے مقابلے میں نہیں مان سکتے ورنہ ختم نبوت کے منکر بن جائیں گے۔ دوسری بات اگر صرف ڈپلیکیٹ علی کو وارث مان لیا جائے تو 124000 صحابہ کرام کو چھوڑ کر کونسا دین اور کونسی احادیث ہیں جو ڈپلیکیٹ علی نے اکیلے اہلتشیع کو کس دور میں کن کن صحابی یا تابعی راویوں کے ذریعے سکھائیں؟

نُکتہ: اہلتشیع علماء نے اپنی عوام کو جھوٹ سکھایا ہے اسلئے خود بھی جھوٹے، احادیث کی کتابیں بھی جھوٹیں اور فقہ جعفر بھی جھوٹی ہے، اگر اہلتشیع کی کتابوں کے حوالے دو تو اپنی کتابوں کے انکاری بن جاتے ہیں، اسلئے اہلتشیع کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ خود آل محمد ﷺ کے دشمن ہیں کیونکہ قرآن و سنت کے اُلٹ ہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general