نماز آسان انداز میں (دوسری قسط)
دوسری شرط: کپڑے پہن کر نماز ادا کرنا دوسری شرط ہے۔ اس دور میں ہر مُلک، ہر شعبے، ہر کام میں ”نمازی“ ہر طرح کا کپڑا پہن کر نماز پڑھ رہا ہے البتہ ایسے لباس میں نماز پڑھیں جس سے رکوع وسجود کرنے میں آسانی ہو۔ پینٹ ہاف شرٹ یا فُل شرٹ کے ساتھ پہنی ہو تو شرٹ کو پینٹ کے اندر رکھیں تاکہ سجدے کے دوران جسم پیچھے سے ننگا نہ ہو کیونکہ نماز میں مرد کے کاندھے اور ناف (تُنّی) سے لے کر گھٹنوں (گوڈے) تک کپڑا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح دھوتی باندھنے والا دھیان رکھے کہ نماز کے دوران گُھٹنوں سے لے کر ران تک کا حصہ نظر نہ آئے۔ کوئی ٹوپی پہن لے یا عمامہ (دستار) باندھ لے تو زیادہ ثواب ہے۔
عورت نماز میں سر ڈھانپنے کے لئے ایساکپڑا لے، جس سے اس کے بال نہیں بلکہ بالوں کی چمک بھی نظر نہ آئے، فُل بازو پہنے گی اور شلوار بھی پیروں تک ہو تاکہ سجدے میں جاتے ہوئے ٹخنوں سے اوپرکپڑا نہ ہو کیونکہ عورت کا چہرہ، دونوں ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ سارا جسم پردے میں ہونا ضروری ہے۔
تیسری شرط: بہت سے نمازی ٹرین یا جہاز میں سفر کرتے ہوئے ”قبلہ رُخ“ نہیں ہوتے حالانکہ نمازکے لئے قبلہ رُخ ہوناشرط ہے۔ اس دور میں نمازی کو چاہئے کہ قبلہ کا رُخ بتانے والا آلہ (compass) اپنے پاس ضرور رکھے البتہ ستارے کے ذریعے، مسلمان کی قبر کا رُخ دیکھ کر، مسجد کی محراب دیکھ کر یا کسی سے پوچھ کر”قبلہ“ کا اندازہ کرے اور پوچھے بغیر نماز نہ پڑھی جائے۔ ایسا وقت جہاں کوئی بتانے والا نہ ہو، ستاروں سے مدد لینی بھی نہ آتی ہو تو وہاں پر جدھر دل مطمئن ہو، اُدھر رُخ کر کے نماز پڑھ لے۔
قبلہ رُخ ہونا ضروری ہے لیکن اگر45 درجے تک بھی قبلہ رُخ رہا تو نماز ہو جائے گی۔ 45 درجہ ایسے ہے جیسے مشرق مغرب شمال جنوب ہوتے ہیں تو آپ”مغرب“ کی طرف نماز پڑھتے ہوئے شمال کی طرف یا جنوب کی طرف ”آدھا“ مُڑ (turn) گئے۔ نماز کے دوران قبلہ سے”سینہ“ پھر جانے سے نماز نہیں ہوتی۔
چوتھی شرط: نماز وقت پر پڑھنا ہے، ہر مسلمان کوشش کرے کہ نمازوں کے اوقات کا کیلنڈر اپنے اپنے علاقے کے حساب سے بازار سے خرید لے لیکن پھر بھی مختصر بیان کر دیتے ہیں۔ پانچ نمازوں کا تعلق سورج کی حرکت کے ساتھ ہے لیکن کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ رات کے 12 بجے بھی زوال کا وقت ہوتا ہے حالانکہ زوال کا تعلق سورج سے ہے چاند سے نہیں۔
* فجر کی نماز کا وقت صبح کے اُجالے سے شروع ہو تا ہے اور سورج کے نکلنے پر ختم ہو جاتا ہے۔
* ظہر کی نماز کا وقت سورج کے زوال سے شروع ہوتا ہے۔ لاہور میں پورا سال گرمیوں اور سردیوں میں 11:05سے لے کر 12:16 کے درمیان زوال کا وقت رہتا ہے۔ اس لئے ظہر کی نماز کا وقت پورا سال 12:16 پر شروع ہو جاتا ہے۔ ظہر کی نماز اہلسنت عوام کی آسانی کے لئے سمجھا دیتے ہیں کہ ’’اہلحدیث حضرات‘‘ کی عصر کی اذان سے پہلے پہلے پڑھ لے تو بہت بہتر ہے اوراہلسنت کی عصر کی اذان سے 15منٹ پہلے تک بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
* عصر کا وقت ’’غروب آفتاب‘‘ تک رہتا ہے مگر سورج کے غروب ہونے سے 20 منٹ پہلے پہلے پڑھ لیں اور جان بوجھ کر دیر کرنے والا گناہ گار ہے مگر نماز ہو جائے گی۔ کسی بھی وجہ سے ( سفر ،بیمار کی خدمت) غروب آفتاب سے پہلے بھی اگر ایک رکعت عصر نماز پڑھ لی تو باقی رکعتیں پوری کر لے نماز ہو جائے گی۔
* مغرب کا وقت غروب آفتاب کے بعدسے تقریباً ایک گھنٹہ بیس منٹ تک رہتا ہے اور کچھ لوگ صرف جماعت سے نماز چھوٹ جائے یا تھوڑی تاخیر ہو جائے تو نماز نہیں پڑھتے۔ البتہ مغرب کی اذان کے بعد نماز جلدی پڑھنے کا حُکم ہے، اس لئے مکہ پاک اور مدینہ پاک والے جو نفل مغرب کی نماز سے پہلے پڑھتے ہیں وہ نفل ہم نہیں پڑھتے بلکہ نمازِ مغرب میں جلدی کرتے ہیں۔
* عشاء کا وقت غروب آفتاب سے تقریباً ایک گھنٹہ بیس منٹ کے بعد سے لے کر صبح فجر کی اذان تک ہوتا ہے لیکن آدھی رات سے پہلے پہلے اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو پڑھ لینی چاہئے ورنہ مکروہ ہے۔
فجر کی سنتیں: اگر جماعت میں ’’سلام‘‘ سے پہلے شامل ہو سکتا ہے تو پڑھ لے اور اگر نہ پڑھی جائیں توبعد میں فجر کی سنتوں کی قضا کر لے۔ البتہ نمازِ فجر قضا ہو گئی تو زوال سے پہلے پہلے سنتیں اور فرض دونوں پڑھتے ہیں اور اتنی دیر کر دی کہ ظہر کا وقت آ گیا تو فرض اداکریں گے مگر سنتیں نہیں۔
ظہر کی چار سنتیں: ’’ امام ہو یا عوام‘‘ (دونوں) اگر پہلے نہ پڑھ سکیں تونبی کریم ﷺ کی اس حدیث کے مطابق پڑھ لیں۔ رسول اللہ ﷺ سے ظہر کے فرض سے پہلے والی 4 سنتیں رہ جاتیں تو آپ انہیں ظہر کی دو سنتیں پڑھنے کے بعد پڑھتے۔ (ابن ماجہ)
* فجر کی سنتیں واجب کے قریب ہیں، ظہر کی سنتوں کی بھی تاکید ہے لیکن عصر و عشاء کی چار سنتیں نفلوں کی طرح ہیں۔ ظہر کی چار اور عصر و عشاء کی چار ’’سنتوں‘‘ میں فرق ہے۔ ظہر کی چار سنتوں کی دوسری رکعت میں التحیات پڑھ کر کھڑے ہو کر الحمد سے تیسری رکعت شروع کرتے ہیں لیکن عصر و عشاء کی چار سنتوں میں دوسری رکعت میں التحیات، درود پاک اور دعا کے بعد تیسری رکعت کھڑے ہو کر سبحانک اللہ سے شروع کرتے ہیں لیکن اگرکسی کو علم نہ تھا اور وہ عصر یا عشاء کی سنتیں’’ظہر‘‘ کی سنتوں کی طرح پڑھ گیا توسنتیں ہو جاتی ہیں۔
زوال کاوقت: فرض، سنت ، نفل یا قضا ’’نماز‘‘ ان تین مکروہ (زوال) وقتوں میں نہیں پڑھتے۔ (1) سورج نکلنے کے بعد (20) منٹ تک (2) دن کے 12 بجے اوریہ پورا سال لاہور میں (11:05سے 12:16) (3) سورج کے غروب ہونے سے پہلے (20) منٹ البتہ نمازِ عصر کا پہلے بیان کر دیا گیا ہے۔
قضا نمازیں: نماز فجر کے بعد (سورج نکلنے سے پہلے تک)، نمازِعصر کے بعد (سورج کے غروب ہونے کے (20) منٹ سے پہلے تک) پڑھ سکتے ہیں حالانکہ نفل نہیں پڑھے جا سکتے۔
جنازہ: مکروہ اوقات میں ادا کر سکتے ہیں البتہ جان بوجھ کر اس وقت پڑھنا جائز نہیں۔
سجدہ تلاوت: مکروہ اوقات میں قرآن پڑھتے ہوئے ’’سجدہ تلاوت‘‘ آ جائے تو کر سکتے ہیں۔ قرآن پاک میں کل 14 سجدے ہیں، ہر مسلمان بالغ جب بھی سجدہ تلاوت کی آیت سُنے یا پڑھے تو سجدہ کرے۔ اگر کسی کو سجدہ تلاوت کی آیت کا علم نہیں اور نہ ہی کسی نے بتایا تو پھر معافی ہے۔
طریقہ: با وضو ، کپڑے پہن کر، قبلہ رُخ، نیت سجدہ تلاوت کی کر کے، کھڑی یا بیٹھی حالت میں ہاتھ اُٹھائے بغیر ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں جائے اور پھر ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے ہی جب سجدے سے اُٹھا تو سجدہ تلاوت ادا ہو گیا۔
* نماز میں سجدہ تلاوت آ گیا تو اُسی وقت کیا جاتا ہے۔ البتہ کچھ لوگ قرآن پاک پڑھنے کے بعد 14 سجدے اکٹھے ادا کر دیتے ہیں یہ بھی جائز ہے لیکن بہتریہی ہے کہ ساتھ ساتھ ادا کریں۔ اگرکوئی سجدہ تلاوت کی آیت ایک وقت میں بار بار پڑھے تو ایک دفعہ سجدہ اور اگر مختلف اوقات میں پڑھے تو ہر دفعہ سجدہ کرے۔
** رمضان میں فجر کی نماز پڑھنے لوگ جاتے ہیں، کافی وقت ہوتا ہے تو نفل پڑھنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ فجر کی اذان سے لے کر سورج طلوع ہونے تک ’’نفل‘‘ نہیں پڑھتے۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کی نمازیں قضا ہیں ان کو نفل نہیں پڑھنے چاہئیں بلکہ قضا نماز پڑھیں۔ کوئی بھی’’ نفل‘‘ شروع کرنے پر ساری زندگی پڑھنے نہیں پڑھتے بلکہ ہفتہ میں ایک بار بھی تہجد، اشراق، تسبیح نماز وغیرہ پڑھ سکتے ہیں توضرورپڑھیں۔
تعداد: نفل تہجد، اشراق، چاشت وغیرہ کوئی بھی ہوں، کم از کم 2 اور زیادہ کی کوئی حد فرض نہیں۔
سورت: نفلوں میں کوئی بھی خاص سورت تلاوت کرنے کا حکم نہیں بلکہ کوئی بھی سورت پڑھ سکتے ہیں۔
منع: تہجد کے نفل پڑھنے سے فجر کی ’’جماعت‘‘ چھوٹ جائے یا کام پر سستی پڑی رہے تو نہ پڑھیں۔
اشراق: کا وقت سورج طلوع ہونے کے 20 منٹ بعد سے لے کر ایک ڈیرھ گھنٹہ تک رہتا ہے۔
چاشت: کا وقت اشراق کا وقت ختم ہونے سے شروع ہو کر سورج کے زوال تک رہتا ہے۔
تہجد: عشاء کی نماز کے بعد سو گیا اور اگر نہ بھی سوئیں تو تہجد کے ’’نفل‘‘ پڑھ سکتے ہیں۔
اوابین: مغرب کے بعد اور نمازِ عشاء سے پہلے پڑھتے ہیں۔
پانچویں شرط: نبی کریم ﷺ نے کبھی زبان سے "نیت” نہیں کی، اس لئے زیادہ بہتر ہے کہ زبان سے نیت نہ کریں۔ عوام کا زبان سے نیت کرنا جائز ہے مگر ’’نیت‘‘ دل کے ارادے کو کہتے ہیں اور ارادہ کرنا آسان ہے۔
ارادہ: ہر مسلمان قبلہ رُخ ہو کر (اکیلے یا امام کے پیچھے) ’’دل ‘‘ میں ایک لمحے کیلئے سوچے کہ کیا پڑھنے لگا ہوں جیسے 2 رکعت فجر فرض یا 4 سنت ظہر یا 3 فرض مغرب وغیرہ اور ساتھ ہی ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ دے۔
سوچ : امام اور عوام کا منہ’’ قبلہ‘‘ کی طرف ہی ہوتا ہے، امام کی نیت امامت کروانے اور عوام کی نیت امام کے پیچھے’’نماز‘‘ پڑھنے کی ہوتی ہے۔ اسلئے منہ قبلہ کی طرف اور پیچھے اس امام کے کہنے کی ضرورت نہیں۔
فرائض نماز
نماز سے پہلے 6 شرائط یعنی طہارت، ستر عورت، قبلہ رو، نیت، وقت اورتکبیرہیں۔ نماز میں 7 فرض (1) تکبیر تحریمہ یعنی اللہ اکبرکہنا (2) قیام (3) قرآت (4) رکوع (5) سجود (6) آخری قعدہ اور (7) ارادے سے نکلنا ہیں۔ ساتویں فرض ارادے سے نکلنے پر اختلاف بھی ہے۔ البتہ یہ 7 فرض ہر نماز (فرض، واجب، سنت، نفل) میں فرض ہیں اور ’’فرض‘‘ چُھوٹنے پر نہ نفل نماز ادا ہوتی ہے اور نہ فرض نماز ادا ہوتی ہے۔
1۔ نمازشروع کرتے ہوئے پہلی بار (اللہ اکبر) کہنا نماز میں شرط اور فرض بھی ہے، اس کو تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔ نماز شروع کرنے سے پہلے امام بھی اللہ اکبر کہے گا اور عوام بھی کہے گی۔
2۔ نماز ہمیشہ کھڑے ہو کر پڑھتے ہیں جسے ’’قیام‘‘ کہتے ہیں، بغیر مجبوری کے بیٹھ کر نماز پڑھیں گے تو نماز نہیں ہوتی البتہ ’’نفل‘‘ نماز بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں مگر ثواب کم ہو گا۔ نبی کریم ﷺ نے تہجد، اشراق، چاشت وغیرہ کے ’’نفل‘‘ کبھی بھی بیٹھ کر نہیں پڑھے البتہ عشاء کے آخری دو نفل بیٹھ کر پڑھے ہیں۔
مثال: ایک بندہ گھر میں کھڑا ہو کر نماز پڑھ سکتا ہے لیکن مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے جائے گا تو تھک کر بیٹھ کر نماز پڑھے گا تو اُسے گھرمیں کھڑے ہو کرنماز پڑھنا ضروری ہے۔ البتہ بہت سی عورتوں کو دیکھا گیا ہے کہ ایک رکعت کھڑے ہو کر پڑھ لیتی ہیں اور باقی بیٹھ کر پڑھ لیتی ہیں، اس سے مسئلے کے مطابق ان کی نماز نہیں ہوتی۔
* امام رکوع میں تھا تو نمازی اللہ اکبر کہہ کر فوراً رکوع میں چلا جائے تو حدیث کے مطابق رکوع مل جانے پر رکعت مل جائے گی اور اگر گُھٹنوں تک ہاتھ جانے سے پہلے امام اٹھ گیا تو ایک رکعت چُھوٹ گئی، اُس کو امام کے سلام کے بعد ادا کرے گا۔
حضور ﷺ نے فرمایا: جب تم نماز کے لیے آؤ اور ہم سجدہ میں ہو ں تم بھی سجدہ کرو اور اسے شمار نہ کرو اور جس نے رکوع پا لیا تو اس نے نماز (رکعت) پالی۔ (أبي داود)
3۔ قیام میں قرآن کی ’’تلاوت‘‘ کرنا ضروری ہے جیسے عوام چھوٹی چھوٹی سورتیں ملاتی ہے۔ کچھ لوگ نماز میں بھی قرآن پاک پڑھتے ہوئے ہونٹ نہیں ہلاتے بلکہ دل کے اندر پڑھتے ہیں ان کی نماز نہیں ہوتی کیونکہ تلاوت کے وقت میں قرآن پاک اتنی آواز میں پڑھیں کہ خود کو محسوس ہو مگر آپ کے ساتھ والے مسلمان کو کوئی پریشانی نہ ہو۔
4۔ ہاتھوں کے گُھٹنوں تک پہنچ جانے کو رکوع کہتے ہیں اور رکوع کرنا فرض ہے۔
5۔ نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے فرض ہیں۔ سجدے میں عوام کی دو بڑی غلطیاں ہیں۔ جس سے سجدہ مکمل نہیں ہوتا (1) سجدے میں پیشانی تو لگا لیتے ہیں لیکن ناک کی ہڈی کو زمین کے ساتھ سختی سے نہیں لگاتے (2) سجدے میں دونوں پاؤں کی ساری انگلیاں زمین پر لگانے کی کوشش نہیں کرتے۔
6۔ قعدہ 2 رکعت اور 4 رکعت کی نماز میں التحیات (تشہد) کے لئے بیٹھنا۔
7۔ آخری فرض نماز سے نکلنا ہے، اسلئے سلام کرتے ہوئے نکلتے ہیں۔
مریض کی نماز: اگر بیمار تھوڑا سا کھڑا ہو سکتا ہے تو کھڑا ہو کر نمازشروع کرے، پھر بیٹھ جائے کیونکہ قیام فرض ہے۔ اگر بیمار قیام کر سکتا ہے لیکن رکوع اور سجود پورے نہیں کر سکتا تو قیام کرے اور اشارے سے نماز پڑھے یعنی رکوع کے لئے اپنے جسم کو تھوڑا جھکائے اور سجدے کے لئے رکوع سے تھوڑا زیادہ جُھکے۔ اگر کوئی دیوار وغیرہ کے سہارے سے نماز پڑھ سکتا ہے تو لیٹ کرنہیں بلکہ سہارے سے پڑھے۔ بیمار یا حاملہ عورت سجدے میں زیادہ جُھک نہیں سکتی تو آگے کوئی اونچی چیز رکھ کر اس پر سجدہ کرے۔ لیٹ کر نماز پڑھنا صرف اس کے لئے جائز ہے جو بیٹھ کر نماز ادا نہیں کر سکتا۔ ہسپتال میں بیمار کو قبلہ کی طرف بیڈ کرنے سے پریشانی ہو تو جدھر منہ ہو ادھر ہی نماز ادا کرلے۔
مسجد کی کرسی: ہراس بندے کی نماز مسجد کی کرسی پر نہیں ہوتی جو قیام ، رکوع، سجود (فرائض) پورے کر سکتا ہو مگر نماز کے یہ فرض چھوڑ دے، البتہ جو فرض ادا نہیں کر سکتا وہ چھوڑ سکتا ہے۔ ہر نمازی بیماری میں یہ ’’قانون‘‘ کو سامنے رکھ کرنماز پڑھے۔
اتحاد اُمت: خلافت عثمانیہ، اجماع امت، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی،شافعی، مالکی، حنبلی) کے متفقہ عقائد پر ہو گی جس پر دیوبندی اور بریلوی عوام بھائی بھائی ہیں۔ دیوبندی اور بریلوی علماء کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں جس کا علم عوام کو بالکل نہیں ہے بلکہ عوام سمجھ رہی ہے کہ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، عرس، میلاد، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، انگھوٹے چومنا وغیرہ کا اصل اختلاف ہے حالانکہ یہ سب اعمال اگر کوئی اہلسنت نہیں کرتا تو کوئی گناہ گار نہیں ہے اور ان اعمال نہ کرنے والے کو دیوبندی یا وہابی کہنے والے کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنا ہو گا۔
عثمانیہ خلافت، اجماع امت، اہلسنت کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ موجودہ دیوبندی حنفی، اہلحدیث غیر مقلد، سعودی عرب کے حنبلی یا وہابی علماء اگر ایک ہیں تو ایک ہو جائیں ورنہ پاکستان میں فساد برپا نہ کریں جس سے اہلتشیع رافضیت کو فائدہ ہو۔
اہلحدیث کی حماقت: اہلحدیث حضرات کے کس مجتہد نے کہا کہ تقلید بدعت و شرک ہے اور اب صحیح احادیث میں میری پیروی کرنا اور ضعیف احادیث کا انکار کرنا، اس کا جواب نہیں دیں گے۔
حضور ﷺ کا فیض 124000 صحابہ کرام و اہلبیت کے ذریعے دور دور تک پھیلا۔ اہلتشیع کہتے ہیں کہ مولا علی نہیں بلکہ ڈپلیکیٹ علی حضور ﷺ کے وارث ہیں مگر ڈپلیکیٹ علی کو حضور ﷺ کے مقابلے میں نہیں مان سکتے ورنہ ختم نبوت کے منکر بن جائیں گے۔ دوسری بات اگر صرف ڈپلیکیٹ علی کو وارث مان لیا جائے تو 124000 صحابہ کرام کو چھوڑ کر کونسا دین اور کونسی احادیث ہیں جو ڈپلیکیٹ علی نے اکیلے اہلتشیع کو کس دور میں کن کن صحابی یا تابعی راویوں کے ذریعے سکھائیں؟
نُکتہ: اہلتشیع علماء نے اپنی عوام کو جھوٹ سکھایا ہے اسلئے خود بھی جھوٹے، احادیث کی کتابیں بھی جھوٹیں اور فقہ جعفر بھی جھوٹی ہے، اگر اہلتشیع کی کتابوں کے حوالے دو تو اپنی کتابوں کے انکاری بن جاتے ہیں، اسلئے اہلتشیع کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ خود آل محمد ﷺ کے دشمن ہیں کیونکہ قرآن و سنت کے اُلٹ ہیں۔