شرائطِ نماز (پہلی قسط)
آسان انداز میں عوام کو سمجھانے کو نماز کے متعلق لکھا ہے، اس تحریر میں جو غلطی ہے، مہربانی کر کے غلطی دور کریں، چاہے وہ آپ کی ہو یا پوسٹ کی۔ ہرنماز (فرض، واجب، سنت، نفل) میں اللہ اکبر کہنے سے پہلے ان "شرائط” کا پڑھنا سب مسلمانوں کو بہت ضروری ہے جہاں سمجھ نہ آئے سوال کریں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ایک نماز پڑھنے سے ہزاروں ”احادیث“ پر عمل ہوتا ہے اور نماز میں داخلہ ان چھ (6) شرطوں کے بغیرملتا نہیں۔
پہلی شرط: نماز کیلئے پہلی شرط پاک (طہارت) ہونا اور اس کی تین صورتیں(جسم، کپڑے اور جگہ پاک ہونا) ہیں۔ اس لئے عام مسلمان صرف نہانے کو پاک ہونا کہتے ہیں لیکن ”نماز“ کیلئے پاک ہونے کا مطلب ہے کہ ”پانی“ سے ”وضو اور غسل“ اور اگر کبھی کہیں پانی نہ ملے تو مٹی سے”تیمم“ کرنا ہے۔
مسائل وضو: نماز ادا کرنے کے لئے بندہ ہمیشہ وضو میں رہتا ہے اگر وضو ٹوٹنے والے یہ کام نہ ہوں:
1۔ ضروری حاجت (nature call) کرنے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ دونوں شرم گاہوں سے کچھ نکلنے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اسلئے دونوں شرم گاہوں کو ضروری حاجت کے بعد دھویا جاتا ہے، البتہ اگر ضروری حاجت کی بجائے ہوا خارج ہو تو شرم گاہ دھونے کی ضرورت نہیں لیکن وضو کرنا ضروری ہے۔
پریشانی: اگر شک ہو کہ شرم گاہ کو دھونے کے بعد بھی قطرہ آتا ہے، ایسی صورت میں پہلے (2 یا 3مرتبہ) ضروری حاجت کرنے کے بعد کپڑے وغیرہ سے شرم گاہ صاف کریں پھر کھانس کر یا تھوڑی دیر چل کردیکھیں اور جب محسوس ہوکہ قطرہ نکلا ہے لیکن کپڑا گیلا نہیں ہوا تویہ آپ کا وہم ہے۔
حل: اگر قطرہ آئے تو تھوڑی سی محنت کرنی ہو گی، حاجت سے فارغ ہونے کے بعد ”شرم گاہ“ کے سوراخ کے آگے ٹیشو پیپر وغیرہ رکھیں، جب قطرہ نکل جائے تو پھر وضو کریں کیونکہ قطرہ نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔
2۔ جسم کے کسی بھی حصّے سے خون نکل کر بہہ جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے ناک سے خون، پھنسی پھوڑے کی پیپ (کچا خون)، درد سے نکلا ہوا آنکھ کا پانی اندرونی زخم کی پیپ وریشہ وغیرہ سے لیکن آنکھ میں تنکاپڑنے سے نہیں، تھوک میں خون دانتوں کی وجہ سے ”سُرخ“ رنگ کاہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن اگر زرد رنگ کاہو تو پھر نہیں، زخم کی پٹی پر خون ظاہر ہوجائے، خون ٹیسٹ کروانے سے خون سوئی کے ذریعے سرنج میں آئے، ان سب سے ”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے۔
3۔ قے،اُلٹی (vomitting) سے جو معدہ (پیٹ) کا بدبو دار ”گند“ منہ کے راستے باہر نکلتا ہے اس سے”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے لیکن جو تھوڑا ہو اور منہ کے اندر آ کر واپس چلا جائے تو اس کو ”قے“ نہیں کہیں گے، اس لئے وضو بھی نہیں ٹوٹتا۔
4۔ محض سونے یا نیند سے نہیں بلکہ شرم گاہ سے ہوا نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے۔ نیند کا ہر وہ انداز (style) جس سے ہوا خارج نہ ہو سکتی ہو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا جیسے (1) نماز میں التحیات پڑھنے کیلئے بیٹھتے ہیں (2) چوکڑی مار کربیٹھتے ہیں (3) Toyota ویگن میں پھنس کربیٹھتے ہیں، ایسی صورتوں میں سو بھی جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا، البتہ لیٹے کھڑے بیٹھے سونے کا ہر وہ انداز جس میں ہوا خارج ہو سکتی ہے، اس پر وضو کرنا ہوگا۔
5۔ نماز میں اگر کوئی مسکرائے یہاں تک کہ اُس کے دانت بھی نظر آئیں تو وضو نہیں ٹوٹتا لیکن ہلکی سی ”ہی ہی ہا ہا“ کی آواز سنائی دینے پر”وضو“ ٹوٹ جاتا ہے، جس پر دوبارہ وضو کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ اس لئے نماز پڑھنے والے کے پاس ایسا کوئی عمل کرنے والا گناہ گار ہے جس سے وہ ہنس پڑے۔
غلط فہمیاں: جھوٹ، غیبت، بہتان، گالی نکالنا اور گندی باتوں سے”وضو“ نہیں ٹوٹتا البتہ وضو کر لے تو بہتر ہے۔ شرمگاہ کو کپڑے کے بغیر ہاتھ لگانے یا خارش کرنے، ناک یا منہ سے بلغم آنے، آنسو بہنے، پسینہ آنے، کھانا کھانے، خوب ہنسنے، عورت کا بچے کو دودھ پلانے سے”وضو“ نہیں ٹوٹتا۔ خنزیر کا نام لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور نہ ہی زبان پلید ہوتی ہے۔
غیر ضروری بال: مرد اور عورت کو بغلوں اور شرم گاہ کے بال صاف کرنے کا حُکم ہے اور یہ بال عورت عورت اور مرد کسی بھی شے سے صاف کر سکتے ہیں کوئی گناہ نہیں ہے۔
مسئلہ: یہ بال مرد اور عورت ناف کے نیچے سے لے کر شرم گاہ تک صاف کریں۔ کم از کم کا تعین نہیں، زیادہ سے زیادہ 40 دن کے اندر یہ بال صاف کرنے ہوتے ہیں ”لیکن“ 40 دن گذرنے کے بعد غیر ضروری بال صاف نہ کرنے والا مسلمان گناہ گارہو گا مگر ”نماز“ ہو جائے گی کیونکہ نماز نہ ہونے سے ان بالوں کا کوئی تعلق نہیں۔
فرائض وضو: مسائل علماء کرام کے پاس جا کر سیکھنے سے آتے ہیں، البتہ عوام وضو تقریباً سنت کے مطابق کرتی ہے لیکن وضو میں (3) اعضاء دھونے اور سر کا مسح کرنے میں احتیاط کرے:
(1) تمام چہرہ دھونا اور داڑھی کوٹونٹی یا نلکے کے نیچے رکھ کر جلد تک پانی پہنچائیں (2) دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھو ئیں (3) ہاتھ پرپانی لگا کر سر کے 1/4(چوتھائی) حصے پر لگائیں جسے مسح کہتے ہیں (4) دونوں پاؤں کا مسح شیعہ حضرات کرتے ہیں لیکن اہلسنت ٹخنے، ایڑیاں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کر کے اچھی طرح دھوتے ہیں۔
٭ نہر، دریا یا باتھ روم میں نہاتے وقت یہ چاروں فرض دُھل گئے تو نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
٭ اگر نیت نہ کی اور بسم اللہ نہ پڑھی تو ”وضو“ ہو جائے گا لیکن بہتر ہے دونوں کام کر لئے جائیں۔
٭ نہانے کے بعد حاجت ضروریہ پیش آئی تو ”وضو“ ٹوٹ جائے گا۔
٭ اگر دانت پیلے ہوں یامنہ سے سگریٹ، پیاز، مولی کی بدبو آتی ہو تو مسواک، ٹوتھ پیسٹ، منجن وغیرہ سے صاف کریں کیونکہ بدبو سے فرشتوں اور نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے اور تکلیف پہنچانا حرام ہے اور ایک دفعہ مسواک، منجن، ٹوتھ پیسٹ کرنے سے دانت جتنی دیر تک صاف رہیں گے 70 نمازوں کا ثواب ملتا رہے گا۔
بہتر صورتیں: جس کو قطرہ آتا ہے وہ نماز کے لئے وضو پہلے کرے۔ گھر سے وضو کر کے مسجد میں جانابہتر ہے، مسجد میں وضو کرنے میں ایک دوسرے پر پانی کے چھینٹے پڑنے کے علاوہ بھی کئی پریشانیاں ہیں۔ نلکے سے وضو کرتے ہوئے 10 یا 12 لٹر پانی ضائع ہونے سے بچانے کیلئے ٹونٹی کم کھولی جائے یا وضو کرنے کے لئے ”لوٹا“ استعمال کیا جائے۔ با وضو رہنے کے بہت سے فضائل ہیں اور نبی کریمﷺ وضو خاموشی سے کرتے۔ اسلئے مشورہ ہے کہ ہمیشہ باوضو رہیں اور وضو ”خاموشی“ سے کریں حالانکہ علماء نے دعائیں پڑھنے کو جائز فرمایا ہے۔
مسائل غسل: غسل اسلئے فرض ہوتا ہے:
1۔ رات کو نیند کی حالت میں پیشاب والے سوراخ سے گاڑھا پانی (منی) نکل آئے اور کپڑوں پر نجاست کے نشان نظر آئیں جسے ’’احتلام‘‘ کہتے ہیں۔
2۔ اپنے ہاتھ (مشت زنی، ہتھ رسی، ایک ہاتھ سے نکاح، کھلونا) یا اس طرح کے کسی بھی انداز سے جب اپنی ’’شرم گاہ‘‘ سے کھیلنے پر گاڑھا پانی لذت کے ساتھ کود کر (منی) نکل آئے۔
3۔ لڑکا لڑکے کے ساتھ یا لڑکی لڑکی کے ساتھ گناہ کرے، مرد عورت کے پچھلے سوراخ کو استعمال کرے، عورت اور مرد کا ایک دوسرے کی شرم گاہ کو چومنا چاٹنا، جس سے نجاست گندگی منہ کو لگ جائے تو منہ ’’پلید‘‘ ہو جاتا ہے، یہ جانوروں کی طرح جنسی تسکین کی بدترین (حرام) صورتیں ہیں اور روح کو ناپاک کر دیتی ہیں۔
4۔ میاں بیوی اپنی جسمانی و نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لئے صحبت کریں گے تو ایک دوسرے میں گُم ہوتے ہی غسل کرنا پڑے گا چاہے ابھی انزال یا اختتام کو نہ پہنچے ہوں اور یہ عمل غیر شادی شدہ بھی کریں گے توان کے لئے یہ عمل حرام (زنا) ہے لیکن ’’ غسل ‘‘ ان کو بھی کرنا پڑے گا۔
فارمولہ: غسل کے لئے شرط یہی ہے کہ جب پانی (منی) اُچھل کر جھٹکے سے باہر نکل کر بندے کا نفسانی شوق پورا کردے تو اس پر’’غسل ‘‘کرنا پڑتا ہے اور اگر گندہ خیال آنے پر شہوت بڑھ جائے یا عورت کو چھونے سے لیسدار پانی (مذی) شرم گاہ سے نکلا تو نماز کے لئے ’’وضو‘‘ کرنا پڑتا ہے۔
حالت : سونے کے دوران محسوس ہوا کہ احتلام ہو گیا ہے مگر جب بیدار ہوا تو کپڑے پر نشان نہیں تھے تو غسل نہیں کرتے اور اگر خواب بھی نہیں دیکھا لیکن صبح کپڑوں پر نشان تھے تو غسل کرنا پڑے گا۔
بیماری: عورت کو لیکوریا اور مرد کو جریان جیسی بیماری کی وجہ سے’’غسل‘‘ نہیں ’’وضو‘‘ کرنا ہوتا ہے۔ عورت کے لئے غسل کی دو صورتیں یہ بھی ہیں:
1۔ خون حیض: یہ خون عورت کی شرم گاہ سے آتا ہے جس کے پہلی بار آتے ہی عورت بالغ ہو جاتی ہے۔ حیض تین دن رات سے کم اور دس رات دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس مدت سے کم یا زیادہ ہو تو اس کو’’ استحاضہ‘‘ کہیں گے۔
بیماری: استحاضہ میں عورت کی شرم گاہ کے اندر کی کوئی رگ زخمی ہو جاتی ہے جس سے خون آتا ہے۔
علامت: استحاضہ کے خون میں بدبو نہیں ہوتی اور حیض کے خون میں بدبو ہوتی ہے۔ استحاضہ والی عورت سے مرد صحبت کر سکتا ہے اورعورت نماز بھی پڑھے گی مگر ہر نماز کے لئے ’’وضو‘‘ نیا کرے گی۔
دو حیض: عورت کو ایک ماہ میں دو حیض بھی آ سکتے ہیں۔ حیض کے دوران نمازیں پڑھنا گناہ ہے اور بعد میں بھی ان نمازوں کی معافی ہے البتہ حیض میں چُھوٹے رمضان کے روزے بعد میں رکھنے پڑتے ہیں۔
حساب: ایک عورت کو دو دن خون آیا پھر بند ہو گیا، پھر چھٹے دن خون آیا اور بیچ کے تین دن پاک رہی لیکن نمازیں پڑھتی رہی تو ایسی عورت کا یہ عرصہ حیض کا تھا اور نمازیں پڑھنے پر گناہ گار نہیں ہو گی۔
اسی طرح حیض نہیں تھا لیکن دو دن خون آنے سے نمازیں نہیں پڑھیں تو ان نمازوں کی قضا کرنی پڑے گی کیونکہ کچھ عورتوں کے مخصوص دن بدل بھی جاتے ہیں اور ان کو اپنے مزاج اور عادت کے مطابق ’’حیض ‘‘اور ’’استحاضہ‘‘ میں فرق کرنے کے علاوہ اپنی نمازوں اور روزوں کا حساب بھی رکھنا ہو گا۔
2۔ نفاس: اسی طرح عورت کو بچہ پیدا ہونے پر اس کی شرم گاہ سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے جس کو نفاس کا خون کہتے ہیں۔ یہ خون پانچ منٹ میں بھی بند ہو سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت 40 دن تک ہوتی ہے، 40 دن کے بعد اس خون کونفاس کا نہیں بلکہ ’’ استحاضہ‘‘ کہتے ہیں۔ 40 دن کے بعد یا جس وقت خون بند ہو جائے، اسی وقت سے عورت غسل کر کے نماز، روزہ کرے اور مرد سے صحبت ’’جائز‘‘ ہے۔
حل: جس مرد یا عورت کا مسلسل خون (بواسیر، نکسیر، استحاضہ)، مسلسل پھنسی پھوڑے سے پیپ، مسلسل پیشاب، مسلسل ہوا گیس وغیرہ ، 2 رکعت یا 4 رکعت’’ نماز‘‘ پڑھتے وقت بھی نہ رُکے تواس کو ’’معذور‘‘ کہتے ہیں اور جب تک یہ ’’معذوری‘‘ ہے اگر ظہر کے وقت وضو کیاتو عصر تک وضو رہے گا اور عصر کا وضو کیا تو مغرب تک رہے گا۔ اسی ایک وضو سے فرض نماز، قضا نماز، نفل، قرآن کی تلاوت، سجدہ تلاوت کرتا رہے البتہ ’’معذوری‘‘ کی وجہ سے نہیں بلکہ وضو توڑنے والی کوئی اور صورت (پیشاب، پاخانہ، قے، اُلٹی، مذی، نماز میں ہنسنا، خون کا نکل آنا، ہوا کا نکل جانا وغیرہ) ہو تو دوبارہ وضو کریں۔ یہ بھی یاد رہے کہ معذور مسلمان کو امام نہیں بنانا چاہئے اور امام کو اس طرح کی بیماری میں امام بننا نہیں چاہئے کیونکہ بیماری کا علم امام کو ہو گا عوام کو نہیں۔
آسانی: اسی معذوری میں نماز کے لئے ’’ پاک‘‘ کپڑا پہنا لیکن نماز سے فارغ ہونے سے پہلے وہ کپڑا بھی ’’ناپاک‘‘ ہوگیا تو اس کو بغیر دھوئے نماز پڑھ سکتے ہیں۔
ممانعت: جس پر غسل ضروری ہو، اس کیلئے قرآن پاک کو پکڑنا، پڑھنا اور چھونا منع ہے۔ اگر قرآن پاک پکڑنا پڑے تو پاک کپڑے سے پکڑ کر ادھر ادھر رکھ سکتے ہیں۔ مسجد میں جانا منع ہے لیکن کسی مدرسے یا مرکز میں جا سکتے ہیں۔ حائضہ اور نفاس والی عورت اگر ٹیچر بھی ہو توکسی کو قرآن پاک نہ پڑھائے اور بہت ضروری ہو تو ناظرہ پڑھاتے ہوئے قرآن کا ایک ایک لفظ الگ الگ کر کے طالبات کو سمجھا سکتی ہے۔
وقت: بہتر یہی ہے کہ جنابت کاغسل جلد کر لیا جائے لیکن اگرعشاء کے بعد غسل کی حاجت ہوئی تو نماز فجر سے پہلے تک ناپاک رہے تو کوئی بات نہیں لیکن اگرنماز فجر قضا ہوگئی تو سخت گناہ گار ہیں۔
مشورہ: حیض یا نفاس والی عورت نماز کے پانچ وقت ’’مصلے‘‘ پر بیٹھ کر درود، کلمہ، استغفار، دعائیں پڑھے کیونکہ مصلے پر بیٹھنا منع نہیں اور نہ ہی تسبیح پکڑنا اور پڑھنا منع ہے۔ قرآن پاک پڑھنا منع ہے البتہ رات کو سونے سے پہلے آیت الکرسی، الحمد شریف وغیرہ ’’قرآن‘‘ سمجھ کر نہیں بلکہ دُعا کی نیت سے پڑھی جا سکتی ہیں۔
اجازت: حیض اور نفاس والی عورت کھانا پکا سکتی ہے، بچے کو دودھ پلا سکتی ہے، صاف ستھرا رہنے کے لئے نہا بھی سکتی ہے، میاں بیوی آپس میں دل لگی کر سکتے ہیں لیکن صحبت نہیں کر سکتے اور اگرکوئی اپنی بیوی سے حیض میں صحبت کر لے تو غریب آدمی ’’ توبہ‘‘ کرے اور امیر آدمی کچھ ’’صدقہ‘‘ بھی کرے۔
غسل سنت: ہر فضیلت والے دن اور رات میں غسل کرنا بہتر ہے اورنبی اکرم ﷺ نے جمعہ یا عیدین کی نماز کیلئے غسل کرنے کا فرمایا ہے۔ غسل کرنے کے بعد نبی کریمﷺ وضو نہیں کرتے تھے۔
آسان طریقہ: جب بھی نہائیں 3 فرض پورے کر لیں (1) منہ بھر کرکلی (غرغرہ کرنا) (2) ناک کی ہڈی تک پانی ڈال کرجمی ہوئی مٹی صاف کرنا (3) سارے بدن کو مَل مَل کر ایسے دھونا کہ کوئی بال بھی خشک نہ رہے۔
بہتر: غسل کرنے سے پہلے دونوں ہاتھ دھو کر جسم پر لگی ’’گندگی‘‘ صاف کر کے فرش پر پانی بہا دیں، اس کے بعد اگر جسم اور فرش پرسے چھینٹے اُڑ کر بالٹی میں بھی پڑ جائیں تو پانی ناپاک نہیں ہو گا۔ وضو کریں، 2 فرض غرغرہ اور ناک میں پانی اچھے طرح ڈالیں اور سر سے لے کر پاؤں تک سارے جسم پر پانی بہا ئیں۔
اہم : سارے جسم کو دھونا ضروری ہے، اس لئے ناک میں جمی مٹی اور ہاتھوں میں لگا ہوا آٹا، ناک کان کی بالیاں اور نیل پالش وغیرہ اتار کر ’’غسل‘‘ کریں البتہ جو رنگ یاقلعی کا کام کرتا ہے اور رنگ ہاتھوں وغیرہ پر اسطرح جَم گیا ہو کہ اتارنے پر زخم بن جائے گا تو معافی ہے۔ ایسی اشیاء جیسے مہندی یا تیل بالوں اور جسم پرلگا ہو لیکن پانی اس کے باوجود جسم اور بالوں کی جڑوں تک پہنچ جاتاہے، اس سے غسل ہو جاتا ہے۔
* عورتوں کی چوٹی گُندھی ہوئی ہو تو کھولنے کی ضرورت نہیں بلکہ بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچائے۔ اگر بال کُھلے ہوئے ہوں یا گُیسو چوٹی سے علیحدہ گُندھے ہوئے ہوں تو ان کو کھول کر غسل کرے۔
آسان تیمم: نمازی کو وضو یا غسل کرنے کی حاجت ہو لیکن ”پانی“ کافی تلاش کے باوجود نہ ملے اور نماز قضا ہونے لگے تووہ نماز نہیں چھوڑتا بلکہ قانون کے مطابق”تیمم“ کر کے نماز پڑھتا ہے۔ اگر کپڑے اُس وقت ناپاک ہیں تو بدل لیتا ہے اور اگردوسرے کپڑے بھی پاس نہ ہوں تو نمازبھی ناپاک کپڑوں سے ادا کر لیتا ہے۔
وجوہات: کتابوں میں ”تیمم“ کرنے کی کئی وجوہات لکھی ہیں جیسے (1) ہسپتال کے بیڈ پر پڑا نمازی”پانی“ کا استعمال نہ کر سکتا ہو (2) سفر میں پانی پینے کے لئے ہو مگر وضو اور غسل کرنے سے پانی ختم ہو جائے اور مزید پانی ملنے کی امید نہ ہو (3) پانی کے استعمال سے بیماری، زخم یا تکلیف بڑھنے کا اندیشہ ہو وغیرہ۔
طریقہ: مسلمان بسم اللہ پڑھ کر پاک صاف ہونے کی "نیت” سے مٹی کے ڈھیلے کو ایک دفعہ دونوں ہاتھوں پر مَل کر اپنے چہرے پر مَلے اور وہ ہاتھ داڑھی کے بالوں (خلال) سے بھی گذارے۔ دوسری دفعہ مٹی کا ڈھیلا ہاتھوں پر مَل کر بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کی کہنیوں تک مَلے اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کہنیوں تک مَلے (مسح)، اس کو تیمم کہتے ہیں۔ یہ عمل دیکھ کر سیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، اسلئے کسی عالم سے ضرورسیکھا جائے۔
حصے: جسم کے صرف دو حصے چہرے اور ہاتھوں پر مٹی سے”مسح“ کرنے کو تیمم کہتے ہیں۔ تیمم میں یہ آسانی ہے کہ ”مٹی“ کے ایک ڈھیلے (روڑا) سے ساری زندگی اور سارے لوگ ”تیمم“ کر سکتے ہیں۔
٭ پانی جب تک نہ ملے تیمم کر کے نمازیں پڑھی جائیں اورجب پانی مل جائے تو وضو کریں۔ تیمم ان باتوں سے ٹوٹ جاتا ہے جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اسلئے تیمم ٹوٹنے پر ”نماز“ پڑھنے کیلئے پھر تیمم کیا جائے۔
٭ اگر کسی کے پاس پانی ہو تو نمازی تیمم کرنے سے پہلے اُس سے پوچھ لے کہ وضو کے لئے پانی مل سکتا ہے اور اگر پوچھے بغیر تیمم کر ے گا تو نماز نہیں ہو گی کیونکہ پانی ملنے کا امکان تھا۔
موزوں پر مسح کرنا: موزے پاؤں میں پہنے جاتے ہیں اور اس کے اصول یہ ہیں: (1) جن سے دونوں ”ٹخنے“ چُھپ جائیں (2) ان کو پہن کرچلنے میں کوئی دشواری نہ ہو (3) موزوں کے باہر پانی لگے تو اندر سرایت یا داخل نہ ہو، اس لئے ”موزے“ لکڑی اور لوہے کے نہیں ہوتے کیونکہ اُن کوپہن کر آسانی سے چلا نہیں جاتا اور جرابوں کو ”موزے“ نہیں کہا جاتا کیونکہ وہ پانی سے گیلی ہوجاتی ہیں، لہذا ”موزے“ زیادہ تر چمڑے کے ہوتے ہیں۔
فائدہ: خاص طور پر سردیوں میں وضو کر کے جب موزے پہن لئے جائیں تو وضو ٹوٹنے پر سارا وضو کریں لیکن موزں پر مسح (ہاتھوں پر پانی لگا کر موزوں پر ہاتھ پھیرنا) کرتے ہیں۔
مقیم (گھر میں رہنے والا) نے صبح 8 بجے وضو کیا اور موزے پہنے، 2 بجے وضو ٹوٹا تو دوپہر کے 2 بجے سے 24 گھنٹوں تک موزوں پر مسح کیا جا سکتا ہے اور مسافر وضو ٹوٹنے کے بعد 72 گھنٹے مُوزوں پرمسح کرسکتا ہے۔
قانون: وضو ٹوٹنے کے بعد (1) دونوں پاؤں یا ایک پاؤں سے بھی موزہ اُتار لیا (2) گھر میں رہتے ہوئے 24 گھنٹے اور سفر میں 72 گھنٹے گذر گئے تو پھر پورا وضو کریں اور پاؤں دھو کر موزے پہنیں۔
طریقہ: دونوں ہاتھوں کو پانی لگا کردائیں ہاتھ کی انگلیاں داہنے پیر کی انگلیوں اور بائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں پیر کی انگلیوں پر ”موزوں“ کے اوپرسے ایک ہی دفعہ پنڈلی کی طرف کو ٹخنے سے اوپر تک کھینچ دے۔
مسح: صرف موزوں پر کیا جاتا ہے لیکن دستانوں، عمامہ، ٹوپی وغیرہ پرنہیں کیا جاتا۔
2۔ پاک کپڑے: اکثر مسلمان کہتے ہیں میرے کپڑے ناپاک ہیں اس لئے نماز نہیں پڑھتا لیکن کپڑے ناپاک ہوتے ہیں:
نجاست غلیظہ: سخت گندی چیزیں (1) پوٹی، فضلہ، منی، مذی، پیشاب (بچہ بچی کا)، خون، پیپ، قے، شراب (2) سب حرام جانوروں کا پیشاب و پاخانہ (3) حلال جانوروں کا گوبر، مینگنی، پاخانہ ہیں۔
اس لئے کسی جانور کی بیٹ، گوبر وغیرہ ساڑھے چار ماشے ”وزن“ کی ہو یا پتلی نجاست (پیشاب، مذی وغیرہ) اس قدر جتنا ہتھیلی کے گڑھے کے اندر پانی کھڑا ہو سکتا ہے، اگر جسم یا کپڑے پر لگ جائے تو”نماز“ ہو جائے گی لیکن دھو کر پڑھنا بہتر ہے۔
نجاست خفیفہ: حلال جانور جیسے گائے، بکری اونٹ کے ساتھ گھوڑے کے ”پیشاب“ کو کہتے ہیں، اگر حلال جانوروں کا پیشاب چوتھائی (1/4) یعنی بہت زیادہ بھی کپڑے پر بھی لگ جائے تو ”نماز“ ہوجاتی ہے۔
پاک اور ناپاک گھوڑے، گدھے اور خچر کا جھوٹا پانی، پسینہ، تھوک ”پاک“ ہوتا ہے اور جس گھر میں حرام جانور پالے جاتے ہوں تو ان کا پسینہ، جھوٹا، تھوک ناپاک ہوتا ہے۔ اس لئے حرام جانور کا پسینہ، تھوک وغیرہ جسم یا کپڑے پر لگ جائے تو دھونا پڑے گا لیکن حلال جانور کانہیں۔
کافر انسان، جنبی یا حائضہ (مرد عورت) کی ”روح“ ناپاک ہوتی ہے لیکن کپڑے، جسم، جھوٹا پانی، پسینہ، آنسو ”پاک“ ہوتے ہیں۔ ان سے بات کرنے، ہاتھ ملانے اور چھونے کے بعدوضو یا غسل کی حاجت نہیں۔
طریقہ: پیشاب، پاخانہ، خون، قے،منی، مذی کپڑوں پر لگ جانے سے سارا کپڑا نہیں دھوتے بلکہ جہاں پرلگی ہے وہاں سے کلمہ پڑھے بغیر دھو لیں کیونکہ کلمہ پڑھنا ضروری نہیں۔ 3، 5یا 7مرتبہ بھی نہیں بلکہ اتنا پانی بہائیں کہ ”نشان“ ختم اور”بدبو“ نہ آئے۔
٭ کپڑے کی موٹی دری کوپاک کرنے کے لئے نچوڑا نہیں جاتا بلکہ گندگی صاف کر کے پانی اُتنی جگہ پر ڈالیں جو نیچے سے نکل جائے۔ فرش دھونے سے پاک ہو جاتا ہے۔
٭ غسل کرنے کے بعد نجاست (منی) والے کپڑے بھی پہن سکتے ہیں البتہ جسم گیلا ہو اور نجاست گیلی ہو کر جسم پر لگ جائے تو دھونی پڑے گی۔ اسی طرح پاک کپڑے جنبی بندے کے پہننے سے ناپاک نہیں ہوتے۔
٭ مشین میں دھوئے جانے والے کپڑے پاک ہیں۔اسلئے کہ سارے نجاست والے کپڑے مشین میں ڈالتے ہیں اور ایک ایک کر کے دھوئے جاتے ہیں یا آٹو میٹک مشین پرپانی علیحدہ سے ڈال کر دھو تے ہیں۔
٭ تیز بارش جب ہوتی ہے تو گٹر کا پانی بہہ کر بارش کا پانی گٹر اور سڑکوں پر رہ جاتا ہے، اس سے کپڑے اور جسم ناپاک نہیں ہوتے لیکن جہاں گٹر بند ہو نے سے فضلہ، گار یا گند باہر نکلا ہو تو کپڑے دھو کر نماز پڑھیں۔
3۔ پاک جگہ نماز پڑھنے کی جگہ پاک ہو، اگر فرش ناپاک ہو تو کپڑا بچھا کر نماز پڑھیں۔
ٹینکی: پانی کی ٹینکی پر ڈھکن ہونا چاہئے اور اگر ٹینکی (کنواں، حوض) میں چوہا، چھپکلی، کوے چیل کی بیٹ وغیرہ گر جائے توپانی ناپاک ہوجاتا ہے۔
نمازیں: اگر کوئی جانور پانی میں گر کر مر گیا اور اسی پانی سے وضو یا غسل کر کے نمازیں پڑھیں، اگر جانور کا جسم پَھٹا نہیں تو پانچ (5) نمازیں اور اگر پُھول کر پھٹ گیا ہو تو تین (3) دن کی نمازیں دوبارہ پڑھیں۔
بدبُو: بَور کیا ہوا پانی نکلنے پر ہلکی سی بدبو دیتا ہے لیکن مسلسل آنے پر بدبو نہیں آتی، ایسا پانی پاک ہے۔
اتحاد اُمت: خلافت عثمانیہ، اجماع امت، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی،شافعی، مالکی، حنبلی) کے متفقہ عقائد پر ہو گی جس پر دیوبندی اور بریلوی عوام بھائی بھائی ہیں۔ دیوبندی اور بریلوی علماء کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں جس کا علم عوام کو بالکل نہیں ہے بلکہ عوام سمجھ رہی ہے کہ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، عرس، میلاد، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، انگھوٹے چومنا وغیرہ کا اصل اختلاف ہے حالانکہ یہ سب اعمال اگر کوئی اہلسنت نہیں کرتا تو کوئی گناہ گار نہیں ہے اور ان اعمال نہ کرنے والے کو دیوبندی یا وہابی کہنے والے کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنا ہو گا۔
عثمانیہ خلافت، اجماع امت، اہلسنت کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ موجودہ دیوبندی حنفی، اہلحدیث غیر مقلد، سعودی عرب کے حنبلی یا وہابی علماء اگر ایک ہیں تو ایک ہو جائیں ورنہ پاکستان میں فساد برپا نہ کریں جس سے اہلتشیع رافضیت کو فائدہ ہو۔
اہلحدیث کی حماقت: اہلحدیث حضرات کے کس مجتہد نے کہا کہ تقلید بدعت و شرک ہے اور اب صحیح احادیث میں میری پیروی کرنا اور ضعیف احادیث کا انکار کرنا، اس کا جواب نہیں دیں گے۔
حضور ﷺ کا فیض 124000 صحابہ کرام و اہلبیت کے ذریعے دور دور تک پھیلا۔ اہلتشیع کہتے ہیں کہ مولا علی نہیں بلکہ ڈپلیکیٹ علی حضور ﷺ کے وارث ہیں مگر ڈپلیکیٹ علی کو حضور ﷺ کے مقابلے میں نہیں مان سکتے ورنہ ختم نبوت کے منکر بن جائیں گے۔ دوسری بات اگر صرف ڈپلیکیٹ علی کو وارث مان لیا جائے تو 124000 صحابہ کرام کو چھوڑ کر کونسا دین اور کونسی احادیث ہیں جو ڈپلیکیٹ علی نے اکیلے اہلتشیع کو کس دور میں کن کن صحابی یا تابعی راویوں کے ذریعے سکھائیں؟
نُکتہ: اہلتشیع علماء نے اپنی عوام کو جھوٹ سکھایا ہے اسلئے خود بھی جھوٹے، احادیث کی کتابیں بھی جھوٹیں اور فقہ جعفر بھی جھوٹی ہے، اگر اہلتشیع کی کتابوں کے حوالے دو تو اپنی کتابوں کے انکاری بن جاتے ہیں، اسلئے اہلتشیع کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ خود آل محمد ﷺ کے دشمن ہیں کیونکہ قرآن و سنت کے اُلٹ ہیں۔