جنت البقیع و جنت معلی

جنت البقیع و جنت معلی

1۔8شوال 1344ھ (21 اپریل 1926) خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع اُمت کے خاتمے پر سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث غیر مقلد) نے جنت البقیع و جنت معلی کے مزارات (قبر پر عمارت و گنبد) بے دردی سے ڈھائے۔ حضور ﷺ کا گنبد حضرا بھی ڈھانے لگے تھے مگرمسلمانوں میں تشویش کی وجہ سے ایک کانفرنس منعقد کی جس میں دیوبندی عالم جناب شبیر احمد عثمانی صاحب کے دلائل سے مطمئن ہو کر گنبد حضرا ڈھانے پر خاموشی اختیارکر لی۔ 

8 شوال کو ایک دینی کمپنی اشتہار جنت البقیع و معلی کے مزارات کے خلاف اشتہار دے گی اُس کا دینا تو بنتا ہے کیونکہ ان کا دین عقیدہ نبوت کے خلاف ہے۔

البتہ اہلسنت کہلانے والی تینوں جماعتیں یہ نہیں بتا سکتیں کہ نبیوں اور ولیوں کی قبروں پر گنبد اور قبے بنانے کا حُکم کس اہلسنت علماء کرام نے دیا؟ کس دور میں بنائے گئے؟ کس کے کہنے پر بننے شروع ہوئے؟؟

ایک تعلیم: گنبد تو چھوڑیں یہ تینوں جماعتیں اپنی اپنی عوام کو یہ نہیں سمجھائیں گی کہ قبر ایک گٹھ ہونی چاہئے اسکے بعد محرم میں جو قبروں پر مٹی ڈال رہے ہیں یہ بدعتی، خلاف سنت، خلاف حدیث اور حرام کام کرتے ہیں۔

سیدنا جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے لحد بنائی گئی اس پر کچھ کچی اینٹیں نصب کی گئی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر زمین سے تقریبا ایک بالشت بلند کی گئی۔ (صحیح ابن حبان حدیث 2170)

وہابی گورنمنٹ: دُکھ ہے کہ 8 شوال 1344ھ (21 اپریل 1926) خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع اُمت کے خاتمے پر سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث غیر مقلد) نے جنت البقیع و جنت معلی کے مزارات (قبر پر عمارت و گنبد) بے دردی سے ڈھائے۔

متفقہ قانون: اگر یہی کام اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے ساتھ ملکر اور قانون بنا کر کرتے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اگر پاکستان میں بھی یہ کام کرنا ہے تو گورنمنٹ سے کروائیں کیونکہ محکمہ اوقاف اُسی کے انڈر ہے مگر اہلحدیث وہابی حضرات گورنمنٹ سے مطالبہ نہیں کریں گے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ وہاں رافضی قبضے زیادہ ہیں۔

نبوت: رسول اللہ ﷺ نے 23 سالہ زندگی میں جتنے مسلمان کئے، جو سابقون الاولون، مہاجرین و انصار وغیرہ تھے، جن کے بارے میں قرآن و احادیث موجود ہیں ان کے انکاری صرف اہلتشیع ہیں۔

’’امام باقر سے روایت ہے کہ جب جناب رسول خدا ﷺ نے دنیا سے رحلت فرمائی، چار اشخاص علی ابن ابی طالب، مقداد، سلمان فارسی اور ابوذر کے سواء سب مسلمان نہ رہے‘‘۔ (حیات القلوب)

2۔ اللہ کریم وحدہ لا شریک ہے اور اُس کی ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، اسلئے چند انبیاء کرام کی قبروں اور ناموں کا علم ہے ورنہ مسلمان کی زندگی میں قبروں کی اہمیت صرف درود و سلام، دعا اور درجات کی بلندی تک ہے لیکن کسی کو “الہ” سمجھ کر پُکارنے اور مدد مانگنے (شرک) سے نہیں ہے۔

3۔ قبریں کچی اور ایک بالشت (ایک گٹھ) ہونی چاہئیں، حضور ﷺ کی قبر انور بھی ایک بالشت (ایک گِٹھ) ہے،اس سے زیادہ 9 یا 10 محرم کو قبریں اونچی کرنا بدعت اور خلاف سُنت ہے لیکن ہمارے ہاں عام قبریں بھی ایک بالشت سے زیادہ ہیں۔ خیال ہے کہ قبروں پر قبے اور گنبد بنانے کا رواج اہلتشیع کے فاطمی خلافت کے دور میں ایسا ہوا ہے کیونکہ کسی بھی اہلسنت عالم (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کا فتوی اس بارے میں نہیں ہے کہ قبر پر گنبد، قبے اور تعویذ بنائے جائیں۔

5۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں اہلبیت اور صحابہ کرام کی عزت و عظمت کی وجہ سے ان کی قبور کے گنبد، قبے وغیرہ کو ڈھایا نہیں گیا بلکہ قبے گنبد بنانے سے منع بھی نہیں کیا گیا مگر کسی بھی اہلسنت عالم سے پوچھ لیں کہ اگر کسی بھی ولی اللہ کی قبر پر قبہ یا گنبد نہ بنایا جائے تو کوئی گناہ ہے، وہ کہے گا ہر گز نہیں مگر جاہل عوام ایسی قبر والے کو ولی اللہ نہیں مانے گی۔

6۔ سعودی عرب کے وہابی علماء نے بے دردی سے صحابہ کرام، ائمہ کرام، اہلبیت عظام کی قبور پر بلڈوزر چلائے، اُس سے ہر مسلمان کو تکلیف ہوئی اور قبر بھی ایک بالشت نہیں ملے گی، کیوں؟

7۔ خلافت عثمانیہ، تین براعظم پر پھیلی ہوئی حکومت میں ساری دُنیا کے اہلسنت عوام کے لئے شریعت کے مطابق اہلسنت علماء کرام نے فتاوی دے کر قانون سازی کی کیونکہ طاقتور قومیں ہر ایک کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔اگر سعودی عرب کی حکومت بھی تمام دنیا کے اہلسنت علماء سے مشورہ کر کے گنبد یا قبے ڈھاتی تو کوئی مسئلہ نہ تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ ہر اہلسنت کو بدعتی و مشرک کہا گیا۔

8۔ دیوبندی علماء کی عبارتوں پر کُفر کا فتوی بھی سعودی عرب نے نہیں بلکہ خلافت عثمانیہ کے اہلسنت علماء کرام نے 1905 میں دیا۔ دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتیں اہلسنت عقائد پر اور پیری مریدی، دم درود، میلاد، عرس وغیرہ کرنے والی ہیں۔ اگر سعودی عرب کے وہابی عقائد پر ہیں تو پھر ان کے اکابر خود ویوبندی کی نظر میں بدعتی و مشرک ہوئے۔

9۔ اہلحدیث جماعت اسلئے یہ کبھی نہیں بتاتی کہ عرس، میلاد، تقلید کو بدعت و شرک کس مجتہد نے کہا اور کیااُس مجتہد کی پیرو ی (تقلید) کا نام حضور ﷺ کی اتباع رکھا ہے۔ سعودی عرب کے وہابی علماء غیر مقلد ہیں مگر دُہری چال کہ سرکاری طور پر مذہب حنبلی ہے۔ اہلتشیع کی فقہ جعفر اور وہابی +اہلحدیث کی غیر مقلدیت سب بے بنیاد قانون پر ہیں۔

10۔ پاکستان میں گنبد و قبے ختم کروانے ہیں تو اہلحدیث جماعت سعودی عرب سے کہے کہ پاکستان کو ریال سے مدد تب دے جب قبے گنبد ختم ہوں ورنہ اہلحدیث جماعت سعودی عرب سے چندہ لے کر اہلسنت کو بدعتی و مشرک کہتی رہے گی مگر بدعت و شرک کس اہلسنت عالم نے سکھایا یہ نہیں بتائے گی۔ دوسری بات ایران کی ہے جو پاکستان میں اثر و رسوخ رکھتا ہے وہ مزارات کے حق میں ہے، اسلئے تفسیقی و تفضیلی پیر و مرید رافضیت کے ایجنڈے پر ہیں۔

11۔ سیاست عبادت سے نکل کر حماقت میں چلی گئی ہے، اب عوام کو اپنا اپنا خیال خود کرنا ہو گا کیونکہ کل قیامت والے دن کسی عالم یا جماعت نے اُن کا ساتھ نہیں دینا بلکہ ساتھ عقائد و اعمال کا ہو گا۔

بھائی بھائی: دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتوں نے اپنی پہچان اپنے علماء سے کروائی ہے حالانکہ کہنا چاہئے تھا کہ دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت سے ہوتے ہوئے حضور ﷺ کے دور سے کنیکٹڈ ہیں، البتہ دونوں جماعتوں کو پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، تقلید وغیرہ کی وجہ سے سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث) نے بدعتی و مُشرک کہا مگر سعودی حنبلی بن گئے اور اہلحدیث غیر مقلد ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد نے تقلید کو بدعت و شرک کہا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں فرمایا۔

اہلتشیع حضرات اہلسنت کو مسلمان نہیں سمجھتے، اگر مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر اختلاف کیا ہوا کیونکہ اہلسنت کا کہنا ہے کہ اہلتشیع کی بنیاد نہیں ہے کیونکہ بنیاد قرآن و سنت سے بنتی ہے۔ حضور ﷺ کی احادیث 124000صحابہ کرام نے اکٹھی کیں جن میں پنج تن بھی شامل ہیں لیکن اہلتشیع کی احادیث حضور ﷺ سے اگر مولا علی سے اہلتشیع تک پہنچیں ہیں تو حضور ﷺ کے تو 124000صحابی ہوئے، اہلتشیع کیا حضور ﷺ کے صحابہ کو مانتے ہیں یا مولا علی کے اپنے کوئی صحابی تھے، کون تھے نام بتائیں جن سے احادیث روایات کی ہیں ورنہ اہلسنت ٹھیک کہتے ہیں اہلتشیع بے بنیاد ہیں۔

غلط: اگر یہ بات غلط ہے تو اہلتشیع حضرات کونسے بدری، احد، تبوک، حنین کے صحابہ کرام کو مسلمان سمجھتے ہیں، کونسی اہلتشیع کی کتابوں میں لکھا ہے؟

امامت: نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد امامت نہیں بلکہ خلافت قائم ہوئی مگر اہلتشیع حضرات کا کہنا ہے کہ جو سیدنا علی کو امام نہ مانے وہ مسلمان نہیں (اصول کافی)، سوال ہے کہ سیدنا ابوبکر کے مقابلے میں کس نے سیدنا علی کو امام مانا؟ اگر نہیں مانا تو مسلمان کون رہا؟ سیدنا علی نے نبی اکرم ﷺ کے بعد کن کو مسلمان کیا؟؟

سازش: عقیدہ نبوت و خلافت میں سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان و علی رضی اللہ عنھم موجود ہیں مگر امامت میں خود سیدنا علی موجود نہیں ہیں۔ عقیدہ امامت نبوت کو بدل کر نام نہاد علی کو امام بنا کر پیش کر رہا ہے اس پر خوب ورکنگ کر کے تفرقہ پیدا کیا گیا۔

سپورٹ: اس میں سپورٹ اہلسنت کرتے ہیں جو خاموش ہیں، یہ نہیں بتاتے کہ دیوبندی و بریلوی کیسے اکٹھے ہو سکتے؟ اہلحدیث پلس سعودی عرب کے وہابی علماء ایک نام کیوں نہیں ہیں؟

مر جائیں گے خاموشی سے یہ کہہ کر کہ بس ہم ٹھیک ہیں
دین ایک، قرآن ایک، احادیث ایک، پھر ٹھیک کون نہیں

عقیدہ امامت اگر ٹھیک ہے تو ہم توبہ کرنے کو تیار، دیوبندی و بریلوی کی تعلیم ایک تو ہم اس پر چلنے کو تیار، اہلحدیث و وہابی ٹھیک تو ہم اس پر چلنے کو تیار، ہمیں اپنی جماعتوں میں داخل کرنے کی شرائط بتائی جائیں۔ 

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general