حدیث قرطاس اور غدیر خم

حدیث قرطاس اور غدیر خم

ہر مسلمان کو یہ علم ہونا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کے قول و فعل و تقریر کا خزانہ صرف اہلسنت کے پاس ہے اور اہلسنت نے حضور ﷺ کی احادیث کی شرح کے اصول بھی بنائے ہیں۔ اگر اہلتشیع حضرات، اہلسنت کی کتب میں شامل کسی بھی حدیث کی شرح کرتے ہیں تو کس "اصول” پر کرتے ہیں وہ اصول لکھ دیں اور اہلتشیع حضرات اپنی اصول اربعہ میں شامل امام جعفر سے منسوب اقوال کی شرح کس "اصول” پر کرتے ہیں وہ بھی لکھ دیں تاکہ عوام کو اہلتشیع کی صحابہ کرام کے خلاف پراپیگنڈا کی سمجھ آ جائے اور یہ بھی سمجھ آ جائے کہ اہلسنت اہلتشیع کا نماز جنازہ کیوں نہیں ادا کرتے۔

حدیث قرطاس

1۔ قرطاس کاغذ کو کہتے ہیں اور حدیث قرطاس کا مطلب ہے وہ حدیث جس میں حضور ﷺ نے وفات سے چند روز قبل اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے اہلبیت اور صحابہ کرام سے فرمایا کہ کاغذ اور دوات لاؤ میں تمہیں ایسی تحریر لکھ دوں جس سے تمہاری راہنمائی ہو جائے اور تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو حالانکہ اس سے پہلے آیت مبارکہ الیوم اکملت لکم دینکم یعنی تمہارا دین مکمل ہوگیا نازل ہو چُکی تھی۔

حدیث قرطاس: نبی اکرم ﷺ کی وفات کا وقت ہوا تو اس وقت گھرمیں کچھ صحابہ موجودتھے، ایک سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے، آپ ﷺنے فرمایا: قلم کاغذ لائیں، میں تحریر کر دوں، جس کے بعد آپ ہر گز نہ بھولوگے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تکلیف میں ہیں اور قرآن موجود ہے، لہٰذا ہمیں قرآن و حدیث ہی کافی ہے۔ گھر میں موجود صحابہ نے اس میں اختلاف کیا اور بحث مباحثہ ہونے لگا، کچھ کہہ رہے تھے کہ (قلم کاغذ)دیں، آپ ﷺ تحریر فرما دیں، جس کے بعد آپ ہر گز نہیں بھولیں گے، کچھ کہہ رہے تھےرہنے دیجئے آپ ﷺتکلیف میں ہیں۔ اختلاف شدت اختیار کر گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس سے اُٹھ جائیں۔ (صحیح البخاری :7366)

نتیجہ: اہلتشیع قلم دوات اور تحریر نہ لکھنے کا سارا الزام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیتے ہیں حالانکہ یہ الزام پھر حضورﷺ پر بھی لگے گا کیونکہ اگر حق نہیں پہنچایا یعنی لکھوایا نہیں تو نعوذ باللہ پھر اُن کی نبوت پر حرف آتا ہے کہ حق پہنچایا کیوں نہیں؟ جانثار صحابہ کرام اور اہلبیت میں سے کسی ایک نے بھی کاغذ نہیں دیا تو پھر سب پر حرف آتا ہے کہ اُس وقت موجود سب صحابہ اور اہلبیت مجرم ہوئے۔ ہمارا ایمان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے لکھنے کا ارادہ اپنے اختیار سے ترک کیا تھا کیونکہ نبی کریم ﷺ کفار کے روکنے سے تبلیغِ دین سے نہ رکے توصحابہ کے روکنے سے کیسے رُک سکتے تھے؟

2۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے الفاظ ”مالہ اہجر استفہموہ“ کا مطلب اہلتشیع نے ہذیان کیا یعنی وفات کے وقت میں بیہودہ کلام کرنا ٖ(نعوذ باللہ) حالانکہ بخاری شریف کتاب الجزیۃ، باب اخراج الیہودمن جزیرۃ العرب، جلد 10، ص 426، رقم الحدیث 2932 پر یوں موجود ہے: فقالو مالہ اہجر استفہموہ ۔ یعنی حاضرین نے کہا کہ حضورﷺ کا کیا حال ہے؟ کیا آپ ﷺ دنیا سے ہجرت (وصال) فرمانے لگے ہیں۔ آپﷺ سے دریافت تو کرلو۔

دوسرا عبارت میں قالوا جمع کا صیغہ ہے اسلئے ایک شخص واحد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ مراد لے لیا کیوں بلکہ کئی بولے تھے؟ دوسری جہالت یہ کہ ہجر کا معنی اہلتشیع نے ہذیان لکھ مارا حالانکہ ہجر معنی ہذیان کیا جائے تو آگے استفہموہ نے بتادیا کہ ہجر کے معنی اس دنیا سے تشریف لے جانے کا تھا۔ تیسرا معنی اسطرح ہوگا کہ کیا حضور ﷺ کوئی ہذیان فرما رہے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ ہوش سے فرمارہے ہیں ذراآپﷺسےدریافت تو کرلو۔

نتیجہ: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سارے فضائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے بے ادبی کا احتمال نہیں رہتا۔ دوسری بات بہت سی روایات میں یہ جملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب نہیں ہے۔ اسلئے اس لفظ کی غلط تشریح اہلتشیع کی شرارت ہے۔

3۔ حدیث میں یہ بھی آیا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں کتاب اللہ ہی کافی ہے۔اس کا مطلب بھی یہی تھا کہ حضور دین مکمل ہو چکا، اگر کاغذ قلم سے کچھ تحریر فرمانا حکم الہی نہیں تو آپ ﷺ تحریر قرطاس کی تکلیف نہ فرمائیں۔ حضورﷺ نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے موافقت ظاہر فرمائی اور تحریر قرطاس پر زور دینے والوں کو ڈانٹ دیا۔ چنانچہ بخاری شریف کتاب الجہاد والسیر، باب ہل یستشفع الی اہل الذمۃ ومعاملتہم جلد 10، ص 268، رقم الحدیث 2825 پر ہے: دعونی فالذی انا فیہ خیر مما تدعونی الیہ۔

نتیجہ: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ کے سامنے عرض کر دی کہ ہمیں کتاب اللہ ہی کافی ہے۔ کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ کی شان میں یہ گستاخی کی ہو گی اور کتاب اللہ کو کافی قرار دینا غلط تھا، اگر ایسا ہے تو یہ مقدمہ صحابہ کرام اور اہلبیت لڑتے، بے بنیاد شیعہ مذہب نے اس کو اپنے بے ایمان ہونے کا حصہ کیوں بنایا؟

4۔ حضور ﷺ کیا لکھ کر دینا چاہتے تھے وہ بھی احادیث میں موجود ہے۔ سیّدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں فرمایا: ۔۔۔میں نے ارادہ کیا ہے کہ ابوبکر اور آپ کے فرزندعبد الرحمن کی طرف پیغام بھیجوں اور (خلافت کی) وصیت کردوں تاکہ کوئی خلافت کا دعوی کر ے نہ تمنا ۔” (صحیح البخاری: 7217)

نتیجہ: نبی کریم ﷺ نے سیّدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی خلافت لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا، پھر ترک کردیا، اس لیے کہ جب خلافت کے لیے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ نام آئے گا تو اللہ تعالیٰ اور مومن انکار کردیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ یہ اہلتشیع الزام لگاتے ہیں کہ حضور ﷺ کے جسد خاکی کو چھوڑ کر تینوں خلفاء نے حضور ﷺ کا جنازہ بھی ادا نہیں کیا، یہ کیوں نہیں بتاتے کہ حضرت علی یا کسی بھی صحابی نے کوئی اعتراض کیا بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خود صحابہ چھوڑ کر گئے کہ تم یہ کام کرو ہم یہ معاملہ نپٹا کر آتے ہیں۔

5۔ اس سے وضاحت ہو گئی کہ”غدیر خم“ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خلافت بلا فصل کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا بلکہ غدیر خم میں مولا علی کی کہانی یہ ہے:

حضور ﷺ مدینہ پاک سے روانہ ہو کر حج کرنے پہنچے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے ہوتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت حج پر پہنچے۔ یمن کے علاقہ سے مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں آئیں۔ ان میں سے ایک لونڈی بطور خمس حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے لی اس پر دیگر ساتھیوں کو کچھ اعتراض ہوا۔ آپ ﷺ حج سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر پہنچے تو اس مقام پر آپ ﷺنے کچھ دیر آرام فرمایا۔ اس دوران بعض صحابہ کرام کی طرف سے وہ شکایات پیش کی گئیں جن میں سے ایک شکایت حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے متعلق تھی۔ غدیر خم کے مقام پر 18ذوالحجہ 10ھ نبی کریم ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ میں نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان فرمائی اور ان کلمات میں ایک کلمہ سب سے زیادہ مشہور ہے: من کنت مولاہ فعلی مولاہ ترمذي حدیث نمبر (3713) ابن ماجہ حدیث نمبر ( 121) یعنی جس شخص کے لئے میں محبوب اور دوست ہوں پس علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) اس کے محبوب اور دوست ہیں۔ یہ بول کر حضور ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دامن صاف کیا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ان احادیث کا کیا کریں:

* سیّدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں:سیّدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے یہاں سے واپس آئے، یہ رسول اللہ ﷺ کے مرض موت کا واقعہ ہے،صحابہ کرام نے پوچھا:ابو الحسن!رسول اللہ کی طبیعت کیسی ہے؟ کہا:الحمد اللہ!کافی بہتر ہے، پھر سیّدنا عباس بن عبدالمطلب نے سیّدنا علی کا ہاتھ تھام کر فرمایا:اللہ کی قسم!تین دن بعد آپ محکوم ہو جائیں گے،اللہ کی قسم!مجھے آثار نظر آرہے ہیں کہ نبی کریم اس مرض سے جانبرنہیں ہو سکیں گے،مجھے خوب شناخت ہے کہ وفات کے وقت بنی عبد المطلب کے چہرے کیسے ہوتے ہیں، ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہیے اور پوچھنا چاہئے کہ خلافت کسے ملے گی؟ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو ہمیں معلوم ہو جائے، اگر کوئی دوسرا ہے تو بھی پتا چل جائے اور اس کے بارے میں ہمیں وصیت فرما دیں، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کی قسم!اب اگر پوچھا اور نبی کریم ﷺ نے انکار کر دیا تولوگ ہمیں کبھی خلافت نہیں دیں گے، میں تونہیں پوچھوں گا۔ (صحیح البخاری :4447)

** سیّدناابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا:کیا آپ کے پاس کو ئی خاص تحریر ہے؟ فرمایا، نہیں، صرف کتاب اللہ کا فہم اور یہ صحیفہ ہے۔ میں نے پوچھا: اس صحیفہ میں کیا ہے؟ فرمایا:دیت، قیدیوں کی آزادی اور یہ کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے(کے مسائل ہیں)۔ (صحیح البخاری :111)

6۔ اہلتشیع نے اپنی کتابوں میں یہ لکھا ہے جس سے غدیر خم اور امامت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا معاملہ حل ہو جاتا ہے:

* حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر یعنی اس امت میں حضور ﷺ کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنھم) ہیں (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُن (یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما) کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا اور اس پر راضی ہو گئے تھے۔۔اسلئے ابوبکر کی ولایت راشدہ اور ھادیہ بن گئی (کتاب فرق الشیعہ ص 31 & 32 محمد بن حسن نو بختی)

** حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا: انہما امام الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول اللہ و من اقتدی بہما عصم یعنی یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور ﷺ کے بعد مقتدٰی ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا (تلخیص الشافی للطوسی جلد 2، ص 428)

*** حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا: لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری یعنی اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیا جو مجھے حضرت ابوبکر و عمرپر فضیلت دیتا ہو گا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا (رجال کشی ترجمہ رقم (257) معجم الخونی جلد ص 153)

**** سفیان ثوری الرحمہ حضرت محمد بن سکندر سے روایت کرتے ہیں کہ انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفہ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ترجمہ: انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درے لگاؤں گا جو کہ مفتری کی حد ہے (رجال کشی، ص 338، سطر 4 تا 6، مطبوعہ کربلا)

**** قال امیر المومنین و من لم یقل انی رابع الخلفاء فعلیہ لعنتہ اللہ (مناقب علامہ ابن شہر آشوب سوم، 63) ترجمہ: حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو مجھے ”رابع الخلفاء“ یعنی چوتھا خلیفہ نہ کہے اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے(کیونکہ آپ خود کو چوتھا خلیفہ قرار دیتے تھے)۔

‏** اہلتشیع کی تفسیر صافی اور تفسیر قمی میں اس آیت: و اذا اسری النبی الی بعض زواجہ حدیثا جب نبی ﷺ نے اپنی کسی بیوی سے ایک روز راز کی بات کی“ کے شان نزول میں لکھا ہے:…. میں تجھے ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ اگر تو نے اس راز کو ظاہر کرنے کی کوشش کی تو تیرے لئے اچھا نہیں ہو گا۔ سیدہ حفصہ نے عرض کی ٹھیک ہے:
آپ ﷺ نے فرمایا: میرے بعد بے شک ابوبکر خلیفہ ہوں گے، پھر ان کے بعد تیرے والد بزرگوار اس منصب پر فائز ہوں گے۔ اس پر سیدہ حفصہ نے عرض کی کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ خبر مجھے اللہ علیم و خبیر نے دی (تفسیر صافی ص 714، تفسیر قمی ص 457، سورہ تحریم)

‏** مسجد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کے وصال کے بعد آیت کریمہ الذین کفروا صدوا عن سبیل اللہ اضل اعمالھم کی تلاوت کی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے تلاوت کی وجہ دریافت فرمائی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ جو تمہیں رسول دیں وہ لے لو جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ، تم گواہ ہو جاؤ کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا ہے (تفسیر صافی جلد 2صفحہ 561، تفسیر قمی جلد 2ص301) یہ دیکھ کر کے کہیں فتنہ نہ پیدا ہو جائے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان کی بیعت کر لی۔۔ (شیخ علی البحرانی ”منار الہدی ص 685)اور جب ان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی بیعت کرنے کا سبب معلوم کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر ہم ابوبکر کو خلافت کا اہل نہ سمجھتے تو ہم اسے خلیفہ نہ بننے دیتے (شرح نہج البلاغہ 2/45)

‎پوری نہج البلاغہ میں حضرت علی اور امام حسن و حسین رضی اللہ عنھماکا کہیں بھی قول نہیں ملتا کہ ہم اللہ تعالی کی طرف سے منصوص امام ہیں اسلئے ”امامت“ اصول دین سے ہے، جو ہمیں امام نہ مانے وہ کافر ہو گیااور ہم اس کے خلاف جہاد کریں گے۔ البتہ اپنے اپنے دور میں سب نے خلافت کے لئے کوشش ضرور کی۔ اس خلافت و امامت کے اختلاف کی وجہ سے اہلتشیع کے ثانیہ، زیدیہ، امامیہ، غالی، اسماعیلیہ، کسانیہ فرقے وجود میں آئے۔

سوال: اہلتشیع جماعت سے اس عالمانہ بحث سے ہٹ کر سوال ہیں کہ کیا صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک نہیں ہے؟ کیا چاروں خلفاء کرام کا دین ایک نہیں ہے؟ کیا اہلبیت اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے ایک جیسی احادیث نہیں سُنیں؟ اہلتشیع کا دین پھر علیحدہ کیوں ہے اور ان کا اسلام سے تعلق کسطرح ہے؟

قیامت: اسی طرح مسلمانوں کو فرقہ واریت کی آگ سے اپنے بچوں کو بچانے کے لئے یہ بتانا چاہئے کہ اس وقت کوئی بھی شخصیت اور جماعت ایسی نہیں جس پر اعتماد کیا جائے، اسلئے سب ملکر خود تحقیق کریں اور اپنی اولادوں کے لئے راستہ آسان کریں ورنہ عوام اور علماء حضور ﷺ کے دین کو برباد کرنے میں برابر کے شریک ہوں گے۔

بھائی بھائی: دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتوں نے اپنی پہچان اپنے علماء (دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کی وجہ سے) سے کروائی ہے حالانکہ کہنا چاہئے تھا کہ دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت سے ہوتے ہوئے حضور ﷺ کے دور سے کنیکٹڈ ہیں، البتہ دونوں جماعتوں کو پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، تقلید وغیرہ کی وجہ سے سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث) نے بدعتی و مُشرک کہا مگر سعودی حنبلی بن گئے اور اہلحدیث غیر مقلد ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد نے تقلید کو بدعت و شرک کہا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں فرمایا۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general