صبر کو ایک بد دعا نہیں بنانا
1۔ غزوہ اُحد میں مسلمانوں کا کافی نقصان ہوا اور حضور ﷺ بھی زخمی ہوئے۔ حضور ﷺ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے پوچھا کہ کیا آپ پر غزوہ اُحد سے بڑھ کر کوئی سخت دن گذرا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ میں مکہ سے 65 میل دور طائف کی ایک بستی میں پہنچا۔ اس دن بنو ثقیف کے سردار ابن عبد یا لیل نے میری دعوت اسلام قبول نہ کی بلکہ میرے پیچھے طائف کے اوباش لونڈوں کو لگا دیا جنہوں نے مجھ پر پتھر برسائے۔ میں وہاں سے پتھر کھا کر لوٹا تو بہت غمگین تھا۔
اہل نجد کے میقات قرن الثعالب تک پہنچا تھا کہ ایک بدلی کو اپنے سر پر سایہ کرتے دیکھا۔ مجھے اُس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نظر آئے۔ انہوں نے کہااللہ تعالی نے آپ کی قوم کا سلوک آپ سے دیکھ لیا ہے، اس نے پہاڑوں کے فرشتوں کو بھیجا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو دونوں پہاڑ آپس میں ملا کر مشرک قوم کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں۔ میں آمادہ نہ ہوا کیونکہ مجھے امید تھی کہ اللہ کریم اسی قوم کی اگلی نسلوں میں ایسے صالحین پیدا کرے گا جو اللہ کریم کی عبادت کریں گے، کسی کو شریک نہ ٹھرائیں گے (بخاری و مسلم)
2۔ اللہ کریم نے حضورﷺ کو رحمتہ اللعالمین ایسے ہی نہیں بنایا بلکہ وہ تمام جہانوں کے لئے رحمت بننے کے حقدار تھے۔اسلئے آپ ﷺ کاجسم زخمی ہے مگر اس حالت پر بھی آپ کی رحمت غالب ہے جو دُعا کر رہی ہے کہ یا اللہ مجھے پتھر مارنے والوں کی اولاد کو ایمان کی دولت عطا کر دے۔
3۔ صبر کا مقام تو یہ ہے کہ کسی نے بڑے سے بڑا تیر بھی چلا دیا تو دل سے یہ آواز آئی، یا اللہ میں اس پر صبر کرتا ہوں مگر اس تیر مارنے والے کو بھی ہدایت دے کیونکہ میں صبر سے اس دنیا میں رحمت و برکت کی صورت میں اجر چاہتا ہوں اور اس بندے کی ہدایت چاہتا ہوں۔
4۔ کچھ مسلمان ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی بات ناگوار گذرے، کوئی پریشانی کسی کی طرف سے مل جائے، کسی مُشکل میں کوئی ڈال دے تو ساتھ ہی کہیں گے کہ ہمارا صبر تم پر پڑے گا اور دیکھنا اللہ کریم تمہاری کیا حالت کرے گا۔ ان کا یہ عمل صبر نہیں ہوتا بلکہ ایک بد دُعا ہوتی ہے۔
5۔ ہم نے غور و فکر کرنا ہے کہ کیا ہمارا صبر ایک بد دعا بن کر ہمارے اجر کو ضائع کرنے والا ہے یا ایک دعا بن کر دوسروں کو ہدایت اور ہمارے لئے رحمت و دیدار الہی کا ذریعہ بن رہا ہے۔
6۔ ان اللہ مع الصابرین یعنی اللہ کریم صبر کرنے والوں کےساتھ ہے، اس بات سے اللہ کا ساتھ اسطرح مل گیا ہے کہ دنیاداروں کی بات سے اور دنیاوی نقصان ہونے سے دل غمگین اور پریشان نہیں ہوتا۔ ہر کوئی کہتا ہے امت اکٹھی نہیں ہو سکتی لیکن اس کے خدائی دعوی پر صبر کر کے انتظار میں ہیں کہ رب کُن فرما کر اکٹھا کر دے۔
7۔ ہر مذہب و مسلک و جماعت اپنے آپ کو حق پر سمجھتی ہے اسلئے اپنے حق میں دلائل اسطرح دیتی ہے کہ ہمیشہ اپنی اچھی مثالیں سُناتی ہے اور اپنی بری مثالوں کی تاویل کرے گی لیکن توبہ نہیں کرے گی۔ دوسروں کی غلطیاں نکال کر ذلیل کرتی ہے مگرکبھی بھی دوسری جماعتوں کی اچھائیاں نہیں بتائے گی۔
عوام اگر کچھ کر سکتی ہے تو سبحان اللہ، ماشاء اللہ، جزاک اللہ مت لکھے بلکہ یہ سمجھ کر بتائے کہ کیا عوام اپنی نسلوں کو سمجھائے گی کہ اصل حقیقت یہ ہے:
بھائی بھائی: دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتوں نے اپنی پہچان اپنے علماء سے کروائی ہے حالانکہ کہنا چاہئے تھا کہ دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت سے ہوتے ہوئے حضور ﷺ کے دور سے کنیکٹڈ ہیں، البتہ دونوں جماعتوں کو پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، تقلید وغیرہ کی وجہ سے سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث) نے بدعتی و مُشرک کہا مگر سعودی حنبلی بن گئے اور اہلحدیث غیر مقلد ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد نے تقلید کو بدعت و شرک کہا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں فرمایا۔
اہلتشیع حضرات اہلسنت کو مسلمان نہیں سمجھتے، اگر مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر اختلاف کیا ہوا کیونکہ اہلسنت کا کہنا ہے کہ اہلتشیع کی بنیاد نہیں ہے کیونکہ بنیاد قرآن و سنت سے بنتی ہے۔ حضور ﷺ کی احادیث 124000صحابہ کرام نے اکٹھی کیں جن میں پنج تن بھی شامل ہیں لیکن اہلتشیع کی احادیث حضور ﷺ سے اگر مولا علی سے اہلتشیع تک پہنچیں ہیں تو حضور ﷺ کے تو 124000صحابی ہوئے، اہلتشیع کیا حضور ﷺ کے صحابہ کو مانتے ہیں یا مولا علی کے اپنے کوئی صحابی تھے، کون تھے نام بتائیں جن سے احادیث روایات کی ہیں ورنہ اہلسنت ٹھیک کہتے ہیں اہلتشیع بے بنیاد ہیں۔