اولاد فتنہ اور محبت والدین
قرآن پاک اور احادیث کے مطابق ہر مسلمان یہاں جینے نہیں بلکہ مرنے کے لئے آیا ہے اور ہمارے سامنے ہی ہر چھوٹا ہو یا بڑا مرتا جا رہا ہے۔ یہ دُنیا مزدوری کا گھر ہے اور اس کی اُجرت یعنی مزدوری جنت میں اللہ کریم کے دیدار کی صورت میں ملے گی۔ کچھ بے وقوف کہتے ہیں کہ مسلمان جنت میں حُوروں کے لالچ کے لئے جانا چاہتا ہے حالانکہ اس دُنیا میں اللہ کریم کا دیدار کروا دو جنت میں جانے کا نام نہیں لیں گے کیونکہ ہماری منزل اللہ کریم کی ذات ہے۔
اچھے میاں بیوی، اللہ کریم سے اولاد اسلئے مانگتے ہیں تاکہ اُس کو پال کر حضور ﷺ کی اُمت بنا سکیں۔اسکے لئے میاں بیوی دونوں کو قرآن و سنت کے مطابق ہونا چاہئے۔ اپنی مرضی چھوڑ کر اللہ کریم کی مرضی میں ڈھلنا چاہئے۔اگر اولاد ہو جائے تو ان سوالوں کو مدنظر رکھ کر حدود و قیود متعین کریں:
۱) کیا اولاد کی محبت میں ہم ہر حد پار کر دیتے ہیں یا اُن کے لئے خود بھی حدود و قیود میں رہتے ہیں اور اُن کو بھی سمجھاتے ہیں؟
۲) کیا اولاد کو آزادی دینے کے حق میں ہیں تو کتنی اور آزادی کی حد کتنی ہو گی؟
۳) کن کن کاموں کی بچوں کو اجازت ہے اور کیا وہ کام یا کھیل اُن کے لئے فائدہ مند ہیں؟
۴) کیا آپ اپنے بچوں کو ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتے ہیں یا کبھی غم کی بات کر کے اُن کا امتحان بھی لیتے ہیں؟
۵) بچوں کو غمگین دیکھ کر ہم اُن کی خوشی کے لئے ہر کام کرتے ہیں یا کبھی قرآن و سنت پڑھکر اُن کو صبر کی تلقین بھی کرتے ہیں؟
۶) بچوں کے ہر موڈ میں ہم بچوں کے ساتھ رہتے ہیں یا اُن سے ناراض ہوتے ہیں؟ اگر ناراض ہوتے ہیں تو کیوں؟
۷) کیا ہم بچوں کے جذبات کو سمجھ کر اُس کا حل دیتے ہیں؟
۸) کیا امیری غریبی کے چکر میں ہم خیر و شر کا فلسفہ اپنے بچوں کا سکھا نہیں پاتے؟
تجزیہ: ہمارے بچے ہمارے ہی خاندان سے مماثلت رکھتے ہوں گے، ہمارا ہی عکس ہوں گے، ہماری کچھ بیماریوں کا نتیجہ ہوں گے۔ اگر ہم اُن سے محبت والا موڈ رکھیں گے تو وہ ہمیشہ ہمیں اچھے موڈ میں دیکھ کر اثر لیں گے، اگر ہمیشہ خواہ مخواہ اُن سے غصہ کریں گے تو وہ بھی ہماری شکل دیکھ کر اثر لیں گے۔ رویے اثر انداز ہوتے ہیں اسلئے اپنا رویہ بہتر ہونا چاہئے۔ والدین کو اپنی اولاد کا دوست بن کر رہنا ہو گا۔
کوشش: اگر آپ سے بچے ہچکچاہٹ سے بات کرتے ہیں تو آپ کو ایسا رویہ دینا ہو گا کہ وہ بلا ججھک آپ سے بات کر سکیں۔ہر بچہ اپنے اندر انفرادیت رکھتا ہے، اسلئے اُس کا احساس کرتے ہوئے اُسے وقت دینا ہو گا کیونکہ ہم کمائی بہت کرتے ہیں مگر بچوں کو وقت نہیں دے پاتے جس کا کل آخرت والے دن اجر نہیں ملے گا۔
نتیجہ: حالات جیسے مرضی ہوں، میڈیا کا دور بھی ہو، ہمیں اپنے بچوں کو ایسا وقت دینا ہو گا جس سے اللہ کریم کے حضور یہ عرض کر سکیں کہ اپنی بساط کے مطابق کوشش کی جس پر ہمیں مزدوری عطا فرما۔
دینِ اسلام: دین بھی ہماری ذمہ داری میں آتا ہے کہ کونسا دین بچوں کو دینا ہے ورنہ بچے ہمیشہ کنفیوزڈ رہیں گے۔ دین اسلام نفرت نہیں سکھاتا بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہر جماعت یہ بتائے کہ دیوبندی بریلوی یا اہلحدیث ہونا کیوں لازم ہے بلکہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ۔
بھائی بھائی: دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتوں نے اپنی پہچان اپنے علماء (دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کی وجہ سے) سے کروائی ہے حالانکہ کہنا چاہئے تھا کہ دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت سے ہوتے ہوئے حضور ﷺ کے دور سے کنیکٹڈ ہیں، البتہ دونوں جماعتوں کو پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، تقلید وغیرہ کی وجہ سے سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث) نے بدعتی و مُشرک کہا مگر سعودی حنبلی بن گئے اور اہلحدیث غیر مقلد ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد نے تقلید کو بدعت و شرک کہا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں فرمایا۔
اہلتشیع حضرات اہلسنت کو مسلمان نہیں سمجھتے، اگر مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر اختلاف کیا ہوا کیونکہ اہلسنت کا کہنا ہے کہ اہلتشیع کی بنیاد نہیں ہے کیونکہ بنیاد قرآن و سنت سے بنتی ہے۔ حضور ﷺ کی احادیث 124000صحابہ کرام نے اکٹھی کیں جن میں پنج تن بھی شامل ہیں لیکن اہلتشیع کی احادیث حضور ﷺ سے اگر مولا علی سے اہلتشیع تک پہنچیں ہیں تو حضور ﷺ کے تو 124000صحابی ہوئے، اہلتشیع کیا حضور ﷺ کے صحابہ کو مانتے ہیں یا مولا علی کے اپنے کوئی صحابی تھے، کون تھے نام بتائیں جن سے احادیث روایات کی ہیں ورنہ اہلسنت ٹھیک کہتے ہیں اہلتشیع بے بنیاد ہیں۔