
بندہ اور اللہ
بندے ہی بندوں کا امتحان ہیں اور بہترین بندے اپنی پرفارمنس ہر گھڑی بہتر بناتے رہتے ہیں کیونکہ اللہ کریم کی ہر دن نئی شان ہوتی ہے جو ہر اس بندے کو نوازتی ہے جو روزانہ اپنے اندر کی صلاحیت کو باہر لاتا ہے۔
صحیح مسلم 1465: ”قیامت والے دن اللہ کریم فرمائیں گے، اے ابن آدم، میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ شخص کہے گا کہ اے میرے رب، میں آپ کی عیادت کیسے کرتا حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں۔ اللہ تعالی فرمائیں گے کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔
اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ وہ شخص کہے گا اے میرے رب میں آپ کو کھانا کیسے کھلاتا حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں۔ اللہ فرمائے گا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تم سے کھانا مانگا، تم اگر اس کو کھانا کھلاتے تو تم مجھے اس کے پاس پاتے۔
اے ابن آدم میں نے تم سے پانی مانگا تھا، تم نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ وہ شخص کہے گا، اے میرے رب، میں آپ کو کیسے پانی پلاتا حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں۔ اللہ تعالی فرمائیں گے کہ میرے فلاں بندہ نے تم سے پانی مانگا تھا، اگر تم اس کو پلاتے تو تم مجھے اس کے پاس پاتے“۔
تجزیہ:ہمیں اس قدر اپنے کردار میں سچا ہونا چاہئے کہ ہر عام و خاص ہم سے مدد مانگ سکے اور مدد مانگنے میں کبھی نہ ہچکچائے۔ اُس کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر اس کے پاس ہو گا تو ضرور دے گا ورنہ جھوٹ نہیں بولے گا۔کردار کی خوبی سے آپ اس حدیث کی منزل کو پا سکتے ہیں۔ البتہ ہر دوست کا خیال رکھنا نا ممکن ہوتا ہے لیکن جس سے محبت ہوتی ہے اُس کا خیال اپنی حیثیت کے مطابق رکھا جاتا ہے۔
مثال: ایک دوست کو ہارٹ اٹیک ہوا تو سب کہنے لگے کہ اس کا پتا لینے جاتے ہیں لیکن ہمارے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ اُس کا ایک ہی بیٹا ہے، وہ کبھی گھر آئے گا اور کبھی ہسپتال جائیگا۔ اس طرح کرو کہ تم سب ہسپتال کا وقت بانٹ لو اور جس نے ہسپتال جانا ہو وہ اس کے گھر سے کھانا وغیرہ بھی لیتا جائے۔ جس کے پاس رات کا وقت ہو وہ آٹھ گھنٹے وہاں دے اور جس کے پاس صبح کا وقت ہو وہ آٹھ گھنٹے صبح کو دے۔ دوسری طرف سب نے دُعائیں بھی کیں جو رنگ لے آئیں ورنہ ڈاکٹر نے پیس میکر لگا دیا ہوا تھا کہ اب یہ بندہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا مگر محبتی لوگوں کی محبت اور دعا نے اسے دوبارہ اصل والی زندگی دے دی۔
مدد: سب دوستوں کو کہا گیا کہ کوئی پھل پھول لے کر نہ جائے، اس کو تو ہوش نہیں ہے کہ کھا سکے بلکہ اگر ہو سکے تو اُس کے گھر والوں کی مدد کر دو تاکہ دوائی وغیرہ لے سکیں۔
رائے: اسی طرح ایک دوست کے والد صاحب بیمار ہوئے تو دوسرے دوست نے کہا کہ اگر کہو تو میں آ کر تمہارے پاس بیٹھ جاتا ہوں ورنہ اگر بلڈ وغیرہ کی ضرورت ہو تو ارینج کر دوں گا۔ ایک دوست نے کہا پیسوں کی ضرورت ہو تو اتنے پیسے میں آسانی سے تمہیں دے سکتا ہوں اور یہ قرضہ نہیں ہو گا بلکہ یہ میرا سودا اللہ کریم کے ساتھ ہو گا۔ اسطرح ہر دوست اگر کسی کی مدد کرنا چاہے تو خود کہہ دے کہ میں یہ تمہارے لئے کر سکتا ہوں تاکہ اُس کو کہنا ہی نہ پڑے۔
اصول: ہر غریب آدمی یہ نہ سمجھے کہ وہ غریب ہے اور امیر کو اس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ بھی اپنی عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچا کر، اپنے دوستوں رشتے داروں میں اُن کے کسی کام آنے کے لئے وقت دے سکتا ہے یا پوچھ سکتا ہے کہ میرے لئے کوئی کام ہو تو حاضر ہوں۔
سوال: مندرجہ بالا حدیث سے اللہ کریم نے ہمارے لئے راہنمائی فرمائی ہے کہ ایک دوسرے کے کام آؤ، ایک دوسرے کو سلام کرو، محبت بڑھاؤ، بیماری پرسی کرو، کھانے کھلاؤ، پانی پلاؤ، ایک دوسرے کے جنازے میں شریک ہو،چھینک کا جواب دو، ہر حال میں میرے واسطے کام کرو کیونکہ جو مخلوق کے حق میں بہتر ہو گا، اللہ کریم اُس کے حق میں بہتر ہو گا۔
سوچ: اسلئے ہم مذہبی جماعتوں سے کہہ رہے ہیں کہ ہم کو سرٹیفیکیٹ دیں کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں؟ کیا ہمیں کسی جماعت میں داخلے کی ضرورت ہیں یا عقائد اہلسنت سمجھانے کی ضرورت ہے مگر جواب نہیں دیتے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت
بھائی بھائی: دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتوں نے اپنی پہچان اپنے علماء (دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کی وجہ سے) سے کروائی ہے حالانکہ کہنا چاہئے تھا کہ دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت سے ہوتے ہوئے حضور ﷺ کے دور سے کنیکٹڈ ہیں، البتہ دونوں جماعتوں کو پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، تقلید وغیرہ کی وجہ سے سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث) نے بدعتی و مُشرک کہا مگر سعودی حنبلی بن گئے اور اہلحدیث غیر مقلد ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد نے تقلید کو بدعت و شرک کہا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں فرمایا۔
اہلتشیع حضرات اہلسنت کو مسلمان نہیں سمجھتے، اگر مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر اختلاف کیا ہوا کیونکہ اہلسنت کا کہنا ہے کہ اہلتشیع کی بنیاد نہیں ہے کیونکہ بنیاد قرآن و سنت سے بنتی ہے۔ حضور ﷺ کی احادیث 124000صحابہ کرام نے اکٹھی کیں جن میں پنج تن بھی شامل ہیں لیکن اہلتشیع کی احادیث حضور ﷺ سے اگر مولا علی سے اہلتشیع تک پہنچیں ہیں تو حضور ﷺ کے تو 124000صحابی ہوئے، اہلتشیع کیا حضور ﷺ کے صحابہ کو مانتے ہیں یا مولا علی کے اپنے کوئی صحابی تھے، کون تھے نام بتائیں جن سے احادیث روایات کی ہیں ورنہ اہلسنت ٹھیک کہتے ہیں اہلتشیع بے بنیاد ہیں۔