دینی حالت اور فتاوی
واقعہ: ایک جگہ ایصالِ ثواب (قل و چہلم) کی محفل تھی تو اُس میں بیان کیا گیا کہ قل و چہلم، تیجہ، دسواں، برسی یعنی غم کی وجہ سے جو کھانا کھلایا جاتا ہے وہ غریب و فقیر کو کھانا چاہئے لیکن امیر آدمی کو کھانا لگتا نہیں۔ اس پر آوازیں آئیں کہ مولوی صاحب وہابی یا دیوبندی لگتے ہیں، دعا کرواؤ جاؤ جاؤ گھر جاؤ۔
فتوی: بریلوی شریف کے مفتیان عظام کا ایک فتوی پڑھا جس میں ایک سوال ”ایک عالم نے ایک دوسرے عالم کو دیوبندی کہا“ کہ جواب میں بریلوی شریف کے مفتیان عظام نے فرمایا”دیوبندی وہی ہے جو چار کفریہ عبارتوں کا دفاع کرے (دفاع کرنے پر وہ اس کو اپنا عقیدہ مانتا ہے)، البتہ مستحب اعمال کی وجہ سے کسی عالم یا پیر کا دوسرے کسی عالم کو ”دیوبندی“ کہنے سے تجدید ایمان، تجدید نکاح، اپنے مریدین کو دوبارہ بیعت کرے گا، اُس کی خلافت، امامت اور خطابت سب ناجائز و ممنوع“۔
شعور: مستحب اعمال (انگوٹھے چُومنا، یا رسول اللہ مدد کو توسل کے طور پر پُکارنا، اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، میلاد، عُرس، پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے وغیرہ) کوئی اہلسنت مسلمان نہ کرے تو اُس کو وہابی یا دیوبندی نہیں کہنا ورنہ سزا اوپر بیان کر دی گئی ہے۔ فتوی فتوی ہوتا ہے دیوبندی بھی فتوی کو نہیں مانے تھے اور بریلوی بھی نہ مانیں تو سزا آخرت میں ملے گی۔
محبت: دیوبندی حضرات سے سُنتے تھے کہ بریلوی بدعتی و مُشرک ہیں تو خیال پیدا ہوتا تھا کہ یہ کیوں کہا جاتا ہے۔ پھر دیوبندی اکابر کی تحاریر جناب احمد رضا خاں صاحب کے حق میں پڑھیں تو علم ہوا کہ دیوبندی اکابر تو اعلیحضرت کو عاشق رسول ثابت کر رہے ہیں (تحاریر کے حوالے کمنٹ سیکشن)۔ مزید فتاوی رضویہ پڑھنے کا علم ہوا تو جو قانون و اصول سیکھنے کو ملے اُس کی وجہ سے اعلیحضرت سے محبت ہو گئی مگر بریلوی اور دیوبندی دونوں نے اپنی مساجد میں یہ اصول و قانون نہیں سکھائے۔
لمحۂ فکریہ: فتاوی رضویہ میں کہیں نہیں لکھا کہ بریلوی بنو بلکہ یہ لکھا ہے کہ اہلسنت ہونا چاہئے کیونکہ آپ کی پیدائش 10 شوال، 1272 (14 جون 1856) اور وفات 25 صفر المظفر، 1340ھ (28 اکتوبر 1921) ہے، خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت کے دور میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ دیوبندی علماء کی عبارتوں پر فتاوی 1905میں لئے گئے۔ 1924میں سعودی عرب وجود میں آیا، 1926میں مزارات ڈھا کر آل وہاب نے اپنی بنیاد بتائی۔
دیوبندی: دیوبندی حضرات اکثر و بیشتر جونسی حکومت ہو اُس کے ساتھ مل جاتے ہیں، انگریزوں کی ہو تب بھی، سعودی وہابی ہوں تب بھی اور فتاوی بدل بھی لیں گے جیسے سعودی عرب کے وہابی علماء کے نزدیک دیوبندی (پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، عرس، میلاد منانے والے ہیں اور دیوبندی اکابر کی کتابوں میں سب حوالے ہیں) بھی بدعتی و مشرک ہیں مگر جناب ضیاء الحق صاحب کے دور میں بریلوی کتب پر بین لگوایا گیا حالانکہ دیوبندی بھی وہی عقائد کے تھے مگر وہ پاک صاف رہے کیونکہ امام کعبہ دیوبندی اور اہلحدیث دونوں کو امامت کرواتا ہے۔
سوچ: اگر سعودی عرب ایران کسی وجہ سے ایک ہو جاتے ہیں جیسا لگ بھی رہا ہے تو دیوبندی اور وہابی کا مذہبی رُخ معاشی مسائل کی وجہ سے بدل جائے گا بلکہ حکومت کے حق میں ہو جائے گا۔ اہلسنت بریلوی ہمیشہ صلح کلیت کے قائل نہیں ہیں، البتہ سازشی بھی نہیں ہیں، اسلئے ایک ہی اصول ہے کہ دیوبندی ہمارے بھائی ہیں اگر دیوبندی علماء کی چار توہین والی عبارتوں سے توبہ کر لیں۔ اگر وہابی عقائد پر ہیں تو پھر دیوبندی بریلوی کو نہیں بلکہ اپنے اکابر کو بدعتی و مشرک کہہ رہے ہیں۔
تجزیہ: عام و خاص کو غور و فکر کی دعوت ہے کہ دجالی سسٹم میں دجل و فریب کاحصہ نہ بنیں بلکہ نور فراست سے حالات کا تجزیہ کریں تو سمجھ آئے گی کہ رافضی و خارجی سسٹم سے اہلسنت تباہ ہو رہی ہے اور اہلسنت عقائد بیان کرنے سے عوام ایک ہو سکتی ہے۔ یا اللہ شعور عطا فرما کیونکہ ابھی زندہ ہیں ورنہ مرنے کے بعد بھی سوچا تو کیا سوچا۔
اہلتشیع حضرات اہلسنت کو مسلمان نہیں سمجھتے، اگر مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر اختلاف کیا ہوا کیونکہ اہلسنت کا کہنا ہے کہ اہلتشیع کی بنیاد نہیں ہے کیونکہ بنیاد قرآن و سنت سے بنتی ہے۔ حضور ﷺ کی احادیث 124000صحابہ کرام نے اکٹھی کیں جن میں پنج تن بھی شامل ہیں لیکن اہلتشیع کی احادیث حضور ﷺ سے اگر مولا علی سے اہلتشیع تک پہنچیں ہیں تو حضور ﷺ کے تو 124000صحابی ہوئے، اہلتشیع کیا حضور ﷺ کے صحابہ کو مانتے ہیں یا مولا علی کے اپنے کوئی صحابی تھے، کون تھے نام بتائیں جن سے احادیث روایات کی ہیں ورنہ اہلسنت ٹھیک کہتے ہیں اہلتشیع بے بنیاد ہیں۔