دو ٹکڑے چاند ہوا ۔۔ سورج بھی واپس ہوا
شق القمر: یمن کا سردارحبیب ابن مالک، ابو جہل کی دعوت پر مکہ مکرمہ آیا تاکہ اسلام کا زور کم کرے اور لوگوں کو سمجھائے۔ اس نے ابو جہل وغیرہ سے ملکر مطالبہ کیا کہ آپ ﷺ ہم کو آسمانی معجزہ یعنی چاند کے دو ٹکرے کر کے دکھائیں۔ حضور ﷺ مسلمانوں سمیت صفا پہاڑ پر تشریف لے گئے اور وہاں یہ معجزہ دکھایا جس کا ذکر سورہ القمر کی آیت 1 ”پاس آئی قیامت اور شق ہو گیا چاند۔
صحیح بخاری حدیث 4868، 4867، 4866، 4865 اور4864میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہو گیا تھا، ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور دوسرا اس کے پیچھے چلا گیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر ہم سے فرمایا تھا کہ گواہ رہنا۔
رد شمس: حضرت بی بی اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ”خیبر“ کے قریب ”منزل صہبا“ میں، حضور ﷺ نماز عصر پڑھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں اپنا سر اقدس رکھ کر سو گئے، آپ ﷺپر وحی نازل ہونے لگی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں حضور ﷺ کا سر تھا، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اور آپ ﷺ کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نمازِ عصر قضا ہو گئی تو آپ ﷺ نے دُعا فرمائی کہ ”یا اللہ!یقینا علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا، لہذا تو سورج کو واپس لوٹا دے تاکہ علی نماز عصر ادا کر لے۔ حضرت بی بی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ڈوبا ہوا سورج پلٹ آیا اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور زمین کے اوپر ہر طرف دھوپ پھیل گئی۔
حوالے: زرقانی جلد 5 صفحہ 113، شفاء جلد 1 صفحہ 185، مدارج النبوہ جلد 2 صفحہ252، محدثین میں سے حضرت امام ابو جعفر طحاوی، امام حاکم، امام طبرانی، حافظ ابن مردویہ، حافظ ابوالبشر، قاضی عیاض، خطیب بغدادی، حافظ مغلطائی، علامہ عینی، علامی جلال الدین سیوطی، علامہ ابن یوسف دمشقی، شاہ ولی اللہ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، علامہ محمد بن عبدالباقی، علامہ قسطلانی رحمتہ اللہ علیھم نے اپنی اپنی کتابوں میں اس حدیث کو لکھا ہے۔
معجزات: ایک معجزہ قرآن کی تشریح کے ساتھ صحیح بخاری میں موجود ہے اور دوسرا معجزہ احادیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہے۔ پہلے معجزے سے ثابت ہوا کہ اللہ کریم کے حُکم سے نبی کریم ﷺ اختیار رکھتے ہیں کہ چاند کے دو ٹکڑے کر سکتے ہیں جس سے دوسرا معجزہ بھی ثابت ہو گیا کہ چاند کے دو ٹکڑے کرنے والی اعلی و افضل ہستی سورج کو بھی واپس پلٹا بھی سکتی ہے۔
احادیث: رد شمس والی احادیث کو اگر کوئی ضعیف مانتا ہے یا صحیح مانتا ہے، اس پر کوئی بحث نہیں لیکن اہلسنت دونوں معجزات پر ایمان لاتے ہیں۔ اہلحدیث حضرات اپنا قانون و اصول بتا دیں کہ کس مجتہد کے کہنے پر صحیح احادیث پر عمل کرتے ہیں اور ضعیف احادیث کا انکار کرتے ہیں۔ تقلید کو بدعت و شرک کس نبی نے کہا اُس کا نام بتا دیں ورنہ جس مجتہد کے مقلد ہیں اس کا نام بتا دیں۔ لبرلز، سیکولر یا کسی کا کوئی سوال ہے تو پہلے اپنی کوئی متفقہ کتاب اور عالم بتائیں جس کے قانون پر عمل کرتے ہیں۔
عقیدہ: اللہ کریم جس کو اختیار دیتا ہے تو اُس کو بار بار پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ جیسے ہم جب مرضی آنکھیں کھول اور بند کر سکتے ہیں، ہاتھ ہلا سکتے ہیں، قلم چلا سکتے ہیں، اسی طرح حضور ﷺ جب چاہیں معجزات دکھانے میں با اختیار ہیں۔ استغفراللہ آپ ریموٹ کنٹرول نہیں ہیں بلکہ اذن الہی سے با اختیار ہیں بلکہ اپنی قبر انور میں بھی اپنی تمام صفات، کمالات اور معجزات سمیت حیات ہیں۔
مشاہدہ: حضور ﷺ کی قبر انور کی حیاتی زندگی پر ایمان لا سکتے ہیں لیکن کسی کو دکھا نہیں سکتے۔ البتہ دنیا میں 24گھنٹے اللہ کریم کی ایک نئی شان ہے اور وہ وحدہ لاشریک ہر ایک کو آزما بھی رہا ہے، بچا بھی رہاہے، ہدایت بھی دے رہا ہے، مدد بھی فرما رہا ہے اور ہر ایک کے لئے اسباب پیدا بھی فرما رہا ہے۔ اللہ کریم کے حُکم سے سب مدد کر سکتے ہیں اور اگر حُکم نہ ہو تو کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا۔
قدرت: اس پیج پر ہم اتحاد امت کی کوشش کر رہے ہیں، عوام اور علماء کو سمجھ آ رہی ہے مگر کام تب بنے گا جب اللہ کریم چاہے گا ورنہ بہت سی عوام دعوی سے کہتی ہے جیسے وہ خود خدا ہو کہ یہ کام نہیں ہو سکتا لیکن ہم کہتے ہیں کوشش کرنا ہمارا کام اور کام بنانا اللہ کریم کا کام ہے، جس کو سمجھ آ رہی ہے وہ دوسروں کو شعور دے بس کام ہمارا بن گیا۔
بھائی بھائی: دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتوں نے اپنی پہچان اپنے علماء (دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کی وجہ سے) سے کروائی ہے حالانکہ کہنا چاہئے تھا کہ دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت سے ہوتے ہوئے حضور ﷺ کے دور سے کنیکٹڈ ہیں، البتہ دونوں جماعتوں کو پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، تقلید وغیرہ کی وجہ سے سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث) نے بدعتی و مُشرک کہا مگر سعودی حنبلی بن گئے اور اہلحدیث غیر مقلد ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد نے تقلید کو بدعت و شرک کہا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں فرمایا۔
اہلتشیع حضرات اہلسنت کو مسلمان نہیں سمجھتے، اگر مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر اختلاف کیا ہوا کیونکہ اہلسنت کا کہنا ہے کہ اہلتشیع کی بنیاد نہیں ہے کیونکہ بنیاد قرآن و سنت سے بنتی ہے۔ حضور ﷺ کی احادیث 124000صحابہ کرام نے اکٹھی کیں جن میں پنج تن بھی شامل ہیں لیکن اہلتشیع کی احادیث حضور ﷺ سے اگر مولا علی سے اہلتشیع تک پہنچیں ہیں تو حضور ﷺ کے تو 124000صحابی ہوئے، اہلتشیع کیا حضور ﷺ کے صحابہ کو مانتے ہیں یا مولا علی کے اپنے کوئی صحابی تھے، کون تھے نام بتائیں جن سے احادیث روایات کی ہیں ورنہ اہلسنت ٹھیک کہتے ہیں اہلتشیع بے بنیاد ہیں۔