غزوہ خندق (احزاب)
حزب کا معنی جماعت اور احزاب اس کی جمع ہے کیونکہ غزوہ خندق میں عالم عرب کی ساری جماعتیں اسلام کے خلاف اکٹھی ہو گئیں تھیں، اسلئے اس کو غزوہ احزاب کہتے ہیں جسکا سورہ احزاب میں ذکر ہے۔ غزوہ بدر 1ھ کی فتح اور غزوہ اُحد 3ھ کے امتحان کے بعد ایک سال میں (4ھ) حضور ﷺ کی قیادت میں غزوہ حمراء الاسد، غزوہ بنی نضیر، غزوہ ذات الرقاع، غزوہ بدر صغری، غزوہ دومتہ الجندل کر کے مشرکین مکہ، یہود اور ڈاکوؤں کے مختلف گروپس پر اپنی دھاک بٹھا دی۔
پلان: یہودی قبیلہ بنو نضیرنے مسلمانوں کے خلاف20سردار مشرکین مکہ، بنو غطفان اور قبائل عرب میں گھوم گھوم کر مسلمانوں سے لڑائی کی ترغیب دی جس سے قریش، کنانہ، تہامہ، بنو سلیم، غطفانی قبائل (فزارہ،مرہ اور اشجع)، بنو اسد اور دیگر قبائل ملا کر 10,000 کالشکر مدینہ کے لئے روانہ ہوئے حالانکہ دوسری طرف مدینہ پاک کی پوری آبادی لشکر کے برابرنہ تھی۔
مشاورت: حضور ﷺ کی انٹیلیجنس نے اطلاع دی، ہائی کمان کی مجلس شوری کا اجلاس، دفاعی منصوبے پر غور اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی رائے پر عملدرامد شروع کہ ”یا رسول اللہ ﷺ، فارس میں جب ہمارا محاصرہ ہوتا تو ہم اپنے ارد گرد خندق کھود لیتے تھے“۔اہل عرب اس طریقہ کارسے واقف نہ تھے، حضور ﷺ نے ہر دس آدمی کو چالیس ہاتھ خندق کھودنے کا کام سونپ دیااور رجزیہ اشعار ”اے اللہ زندگی تو بس آخرت کی ہے، پس انصار اور مہاجرین کو بخش دے“ پڑھ کر خود بھی شامل تھے۔ مزید رجزیہ اشعار صحیح بخاری 4104، 4106میں ہے۔
عالم بھوک: ایک طرف گرم جوشی تو دوسری طرف شدت کی بھوک تھی، حملے کا خطرہ شدید تھا، ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اگر پیٹ سے کپڑا اُٹھا کر دکھایا کہ پیٹ پر پتھر باندھا ہوا ہے تو حضور ﷺ نے اپنے شکم دکھایا جس پر دو پتھر بندھے تھے۔صحیح بخاری 4101 ”حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے گھر کا کھانا 1000صحابہ کھا گئے“اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی بہن اپنے بھائی اور ماموں کے لئے چند کھجوریں لائی جو سارے صحابہ کو کافی ہو گئیں، یہ معجزات اسی غزوہ احزاب کے ہیں۔
غیبی خبریں: اسی غزوہ احزاب میں تین دن بھوکا رہنے والوں سے جو چٹان ٹوٹ نہیں رہی تھی تو اُس کو پہلی ضرب حضورﷺ نے لگائی، بجلی سی چمکی، آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ملک شام کی کنجیاں دی گئی ہیں اور میں وہاں کے سرخ محلوں کو دیکھ رہا ہوں۔ دوسری ضرب پر چٹان سے بجلی چمکی اور حضور ﷺ نے فرمایا مجھے فارس بھی دے دیا گیا ہے۔ تیسری ضرب پر چٹان ریزہ ریزہ ہو گئی اورحضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے یمن کی کنجیاں دی گئیں ہیں۔ واللہ! میں اس وقت اپنی اس جگہ سے صنعاء دیکھ رہا ہوں۔
حفاظت: ادھر خندق تیارہوئی اور اُدھر کافروں کے لشکرخیمہ زن ہونے لگے جس کا ذکر سور احزاب میں آیا ہے۔مدینے کا انتظام حضرت ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کے حوالے، عورتوں اور بچوں کو مدینے کے قلعوں اور گڑھیوں میں محفوظ،سارے کام حکمت عملی سے تیار مگر کفار اسطرح کی چال کے لئے بالکل تیار نہ تھے مگر پیچ و تاب کھاتے، سمجھ نہ پاتے، کوئی پاس آتا تو تیروں کی بارش مسلمان کرتے۔
مبارزت: کفار کی ایک جماعت نے جن میں عَمرو بن عبدود جیسا لمبا تڑنگا جرنیل، عکرمہ بن ابی جہل اور ضرار بن خطاب نے خندق کے ایک تنگ مقام سے گھوڑے دوڑا کر خندق پار کر لی، دوسری طرف سے مسلمانوں نے وہ راستہ بند کر دیا۔ عمرو بن عبدود نے لڑائی کے لئے پکارا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مقابلہ کیا، مارنے لگے تو کافر نے چہرے پر تھوک دیا، آپ نے پھر اُسے اُٹھنے کی دعوت دی اور کہا کہ میں اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ تجھے اللہ کریم کی ذات کے حکم کو پورا کرنے کے لئے ماروں گا۔ دوسرے لمحے میں فیصلہ ہو چُکا تھا کہ عمرو بن عبدود کا پیٹ چاک پڑا تھا اور باقی کافر بھاگ گئے۔
قضا نمازوں کا قانون: غزوہ خندق کے دوران حضور ﷺ کی نمازیں قضا ہوئیں اور جیسے ہی وقت ملتا جماعت سے ادا کی جاتی رہیں۔یہ امت کے لئے مثال بنتی گئی کہ ایسے حالات میں فوجی کیا کرے گا۔ ”بخاری 4111البتہ نماز قضا ہونے پر حضور ﷺ نے کفار کو بددُعا بھی دی کہ ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے“ جس سے نمازادا کرنے کی اہمیت کا بھی علم ہوا۔اسی طرح بخاری 4112 میں قضا کا ہے۔
وعدہ خلافی: یہ کشمکش کافی دن جاری رہا،مخالفین کے کھانے کے سامان ختم ہوتے رہے، مسلمانوں کے جذبے بڑھتے گئے، تیر اندازی سے چھ مسلمان اور دس مشرک زندگی سے گئے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بھی تیر لگا جس سے ان کے بازو کی بڑی رگ کٹ گئی اور جذبے سے اپنے لئے دُعا کی۔بنو نضیر کا مُجرم سردار، حُیّی بن اخطب، بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد قرظی کے پاس آیا، کعب کا حضور ﷺ سے نہ لڑنے اور مدد کرنے کا معاہدہ تھا لیکن حُیّی کی تقریر نے اُس کو بے بس کر دیا اور اُس نے معاہدہ توڑ دیا جس سے بنو قریظہ کے فوجی بھی جنگ میں عورتوں کی سائڈ سے شامل ہو گئے۔
بہادری: اسلئے عورتوں میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا نے دیکھا کہ یہودی اسطرف سے کیوں آ رہا ہے،اُس نے حسان بن ثابت کو آواز دی مگر آپ جنگجو نہیں تھے تو حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا نے ستون کی ایک لکڑی سے اُس یہودی کو قتل کر دیا اور لاش یہودیوں کی طرف پھینک دی جس سے عورتوں کی طرف سے حملہ مزید نہ ہوا مگر اونٹ، سامان یہودی دیتے رہے۔
کنفرمیشن: حضور ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ، سعد بن عبادہ، عبداللہ بن رواحہ اور خوات بن جبیر رضی اللہ عنھم کو تحقیق کے لئے بھیجا کہ خاموشی سے جاؤ اور خبر لاؤ کہ کیا بنو قریظہ نے معاہدہ توڑ دیا ہے اور یہ خبر خاموش سے مجھے بتانی ہے تاکہ مسلمانوں کے حوصلے پست نہ ہوں۔ جب یہ صحابہ کرام گئے تو انہوں حضور ﷺ کی اہانت کی، برا بھلا کہا اور واضح کر دیا کہ کوئی عہد و پیمان نہیں ہے۔صحیح بخاری 4103”البتہ مسلمانوں کو بھی اس کا علم ہوا جس سے خوف کی صورت حال پیدا ہوئی جس کا قرآن میں ذکر ہے“۔
مذاق: منافقین بھی ہنسے کہ قیصر و کسری کے خزانے، چابیاں اور مبارکیں دینے اور لینے والوں کی حالت یہ ہے کہ پیشاب پاخانے کے لئے نہیں جا سکتے۔ پیچھے گھروں کی خیر نہیں ہے، ان منافقین کی بات کو اللہ کریم نے قرآن میں بیان کیا۔ تمام صورت حال سُن اور دیکھ کر حضور ﷺ کچھ دیر کے لئے کپڑا لپیٹ کر چت لیٹ گئے اور تھوڑی دیر بعد آپ ﷺ نے نئی حکمت عملی سے کام لیا۔ عورتوں کی حفاظت کے لئے کچھ فوجی دستے بھیجے۔
حوصلہ: ایک پلان یہ کیا کہ بنو غطفان کے دونوں سرداروں سے مدینے کی ایک تہائی پیداوار پر مصالحت کر لیتے ہیں تاکہ اس گریٹ ایٹ کا کچھ تو زور ٹوٹے مگر حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنھم نے سمجھ لیا کہ یہ حضور ﷺ ہمارے لئے کر رہے ہیں تو انہوں نے رائے دی کہ ایسا نہ کریں، ہمیں آپ ﷺ کی وجہ سے عزت ملی ہوئی ہے، کوئی بات نہیں کہ سارا عرب لڑائی پر ہے مگر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔حضور ﷺ اُن کے اس حوصلے پر مسکرائے۔
غیبی مدد: بنو غطفان کا ایک صحابی نعیم بن مسعود بن عامی اشجعی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں مگر میری قوم کو اس کا علم نہیں ہے، اگر کوئی حُکم ہو تو آپ بتائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا الحرب خدعۃ: جنگ ایک چال کا نام ہے، یعنی ایک چال میں جنگ ختم ہو جاتی ہے اور اس کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اس پر حضرت نعیم رضی اللہ عنہ پہلے بنو قریظہ کے پاس گئے، اپنی پہچان کروائی اور اُن کو ڈرایا کہ تم مدینے کے لوگ ہواور قریش مکہ تو واپس چلے جائیں گے، لڑائی کے بعد تمہیں محمد ﷺ نہیں چھوڑیں گے۔
اسلئے قریش سے کچھ آدمی اپنے پاس یرغمال کے طور پر مانگ لیں، اگر نہ دیں تو سمجھ جائیں کہ وہ آہ کے ساتھ نہیں ہیں۔ اس کے بعد حضرت نعیم رضی اللہ عنہ قریش کے پاس گئے اور کہا کہ یہود نے جو حضور ﷺ کے ساتھ عہد توڑا ہے اُس پر پریشان ہیں کیونکہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ لڑائی ہار چُکے ہیں، اب وہ قریش کے کچھ بندے حضور ﷺ کو دینا چاہتے ہیں، اسلئے وہ تم سے کچھ بندوں کو یرغمالی کے طور پر مانگیں گے۔ یہ چال کامیاب رہی اور ان کی آپس میں پھوٹ پڑ گئی اور حوصلے ٹوٹ گئے۔
دعائیں: ادھر مسلمان دعا کر رہے تھے یا اللہ ہماری پردہ پوشی فرما اور ہمیں خطرات سے مامون کر دے۔ دوسری طرف حضور ﷺ دعا کر رہے تھے: ”یا اللہ انہیں شکست دے اور جنجھوڑ کر رکھ دے“ (بخاری 4115)۔ اب تیسرا کام یہ ہواکہ اللہ کریم نے شدید تیز ہواؤں کا طوفان اور فرشتوں کو بھیج دیا جس سے کفار کے خیمے اُکھڑ، ہانڈیاں اُلٹ گئیں، خیمے کی طنابیں ٹوٹ گئیں۔ صحیح بخاری 4105 ”پروا ہوا کے ذریعے میری مدد کی گئی اور قوم عاد پچھوا ہوا سے ہلاک کر دی گئی تھی“۔
معجزہ یا کرامت: حضور ﷺ نے اسی سرد اور کڑکڑاتی ہوئی سردی میں حضرت خذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو کفار کی خبر لانے کے لئے بھیجا تووہ کہتے ہیں کہ میرے لئے سردی غائب اور ایسا لگے کہ میں گرم حمام میں چل رہا ہوں۔ (مسلم 4640)
حواری: ایک حدیث کے مطابق سخت سردی میں حضور ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا کہ مشرکین مکہ کی حالت کی جاسوسی کرنے کون جائے گا تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے ہر بار عرض کی یا رسول اللہ میں جاؤں گا تو حضور ﷺ نے فرمایا ہر نبی کا حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔(بخاری 4113)۔
اعصابی جنگ: شوال سے شروع ہونے والا یہ غزوہ ذی قعد میں ختم ہوا۔یہ لڑائی مال و جان کی نہیں بلکہ اعصابی و نفسیاتی لڑائی تھی۔ ”لڑائی کے خاتمے پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ اب ہم ان سب پر چڑھائی کریں گے، وہ ہم پر چڑھائی نہ کریں گے، اب ہمارا لشکر ان کی طرف جائے گا (بخاری 4109)۔
وعدہ: اس سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ صبر کرنے والے ہمیشہ جیت جاتے ہیں، اس پیج پر بھی علماء کو عوام کے ذریعے پیغام ہے کہ اہلسنت، خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت والے ہیں، اگر اہلحدیث حضرات اور دیوبندی سعودی عرب کے وہابی علماء کے ساتھ ہیں تو اعلان کریں اور سعودی عرب کے ساتھ نام نہاد حنبلی مقلد ہو جائیں۔ حنفیت اور غیر مقلدیت سے اسلام کو کمزور نہ کریں، سعودی عرب کا رویہ اہلسنت کے ساتھ متعصبانہ ہے اور کوئی بھی علمی مذاکرات نہیں ہیں بلکہ اہلحدیث اور دیوبندی کی وجہ سے رافضیت کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ کیا اللہ ہمارا مدد گار نہیں تو سچ بولیں اور اتحاد امت کا کام کریں۔
بھائی بھائی: دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتوں نے اپنی پہچان اپنے علماء (دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کی وجہ سے) سے کروائی ہے حالانکہ کہنا چاہئے تھا کہ دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت سے ہوتے ہوئے حضور ﷺ کے دور سے کنیکٹڈ ہیں، البتہ دونوں جماعتوں کو پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، تقلید وغیرہ کی وجہ سے سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث) نے بدعتی و مُشرک کہا مگر سعودی حنبلی بن گئے اور اہلحدیث غیر مقلد ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد نے تقلید کو بدعت و شرک کہا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں فرمایا۔
اہلتشیع حضرات: سیدھا سا سوال اہلتشیع سے ہے کہ حضور ﷺ کے دین پر 124000 صحابہ ہوئے جس میں مولا علی بھی شامل تھے۔ تمہارا ڈپلیکیٹ علی کے دین پر کون کون سے صحابی و تابعی ہیں؟ کون کون سے صحابی اور تابعی تمہاری احادیث کے راوی ہیں؟