غزوہ اُحد
17رمضان المبارک 2ھ کو غزوہ بدر ہوا، ایک سال بعد، شوال تین ہجری، غزوہ اُحد ہوا۔ انتقام کا لاوا، تجارتی مال جو بدر والی لڑائی میں دوسرے راستے سے بچ گیا تھا اُس سے اسلحہ خریدا گیا، تین ہزار کا لشکر تیار، مدینے کی طرف روانہ، حضور ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا اور طے پایا کہ جنگ مدینہ پاک سے باہر رہ کر لڑی جائے۔ عبداللہ بن ابی منافق بھی اپنے 300 ساتھیوں سمیت شامل ہوا۔ 1000 کا لشکر نکلا مگر 300 منافقین کا لشکر “شوط“ کے مقام پر ایک سازش کے تحت علیحدہ ہو گیا۔
پشت پر اُحد پہاڑ، 50 آدمی پہاڑ پر پہرے کے لئے متعین جن کو آرڈر تھا کہ یہ جگہ نہیں چھوڑنی، گھمسان کی لڑائی، مسلمانوں کا جوش و خروش، قریش بد حواس ہو کر بھاگے، مالِ غنیمت اکٹھا ہونا شروع ہوا، پہاڑ پر نگرانی کرنے والے امیر حضرت عبداللہ بن جُبیر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے کے باوجود چند صحابہ کرام کے سوا سب مال غنیمت کو اکٹھا کرنے میں مدد دینے کے لئے پہاڑ سے نیچے اُترے۔
خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابوجہل (ابھی مسلمان نہیں ہوئے) عقب کی جانب سے تیزی سے پہاڑی دستے کو شہید کرتے ہوئے، مال غنیمت میں لگے مسلمانوں کو شہید کرنے لگے، بد حواس قریش واپس ہوئے، 22 یا 23 مرے مگر 70 مسلمان شہید ہوئے۔ حضور ﷺ کے زخمی ہونے پر افواہ اُڑی کہ حضور ﷺ شہید ہو گئے جس پر کچھ صحابہ کرام مدینہ کی طرف واپس، کچھ نے کہا اب حضور ﷺ کے بغیر جینے کا فائدہ کوئی نہیں، اسلئے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے، کچھ حضور ﷺ کی حفاظت کرتے ہوئے زخمی اور شہید ہوتے رہے اور کچھ ادھر ادھر بھاگے مگر جلدی واپس آئے جب حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے گھمسان کے رن میں حضور ﷺ کو پہچان کر آواز لگائی کہ اے مسلمانوں! حضور ﷺ زندہ اور صحیح سلامت ہیں۔
نتیجہ: سورہ آل عمران کی آیات 139سے 180 تک غزوہ اُحد کا تذکرہ ہے، ہر ایک صحابی کے بارے میں اُتریں اور اُس کے بعد سب کی بخشش کا پروانہ جاری کر دیا گیا۔ اللہ کریم نے قیامت والے دن تک کے مسلمانوں کو خبردار کر دیا کہ جنگ جنگ ہوتی ہے، فوجی اڈے نہیں ملتے، قبائل ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، منافقت ہو جاتی ہے۔ اسلئے اللہ کریم مسلمانوں کو آزماتا ہے کہ زخم لگنے کے بعد کیا مزہ لیتے ہیں، مسلمان جنت کا راستہ آسان نہ سمجھیں، فضائل کی باتیں سُن کر میدان میں آنے والو شہادت بھی مل جاتی ہے، حضور ﷺ کے شہید ہونے کی افواہ پر بھی اللہ کریم نے سوال کر کے سمجھایا کہ اگر محمد (ﷺ) شہید کر بھی دئے جائیں تو کیا تم اپنے دین سے پھر جاؤ گے؟
بددلی: شکست سے قومیں تباہ ہو جاتی ہیں، حوصلے پست ہوتے ہیں، لیڈر کی قیادت پر سوال اُٹھتے ہیں، عورتیں بیوہ ہوتی ہیں، جنازے اُٹھانے مشکل ہوتے ہیں، رقت و رونا و گریہ ہر گھر سے ہوتا ہے، رُعب و دبدبہ دُشمنوں پر ختم ہو جاتا ہے، دُشمن بڑھ چڑھ کر حملے کرتے ہیں، اسلئے غزوہ اُحد کے بعد مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا، گوریلہ حملے شدید ہوئے اور دو سال بڑی خراب حالت رہی حتی کہ منافقین و یہود کے ساتھ ساتھ ابوجہل پارٹی نے ملکر ”غزوہ احزاب“ کی صور ت میں کامیاب کاروائی کی مگر عمدہ قیادت اور اللہ کریم کی مدد سے ناکام ہو گئی۔
نام: بدر کے شہدا میں سب سے بڑا نام حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا ہے اور باقی 72شہداء کے نام کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں۔ آج بھی حضور ﷺ کے غزوات پڑھنے والوں کو علم ہوتا ہو گا کہ ہر غزوہ اور سریہ فوجی مسلمانوں کو کیا سکھاتا ہے۔ عوام بے چاری کو تو کچھ علم نہیں ہوتا وہ تو ہمیشہ جذباتی ہوتی ہے۔ کرپٹ لیڈروں کو سر پر چڑھاتی ہے اور بعد میں روتی ہے۔ عوام اگر کچھ کر سکتی ہے تو سبحان اللہ، ماشاء اللہ، جزاک اللہ مت لکھے بلکہ یہ سمجھ کر بتائے کہ کیا عوام اپنی نسلوں کو سمجھائے گی کہ اصل حقیقت یہ ہے:
بھائی بھائی: دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتوں نے اپنی پہچان اپنے علماء سے کروائی ہے حالانکہ کہنا چاہئے تھا کہ دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت سے ہوتے ہوئے حضور ﷺ کے دور سے کنیکٹڈ ہیں، البتہ دونوں جماعتوں کو پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، تقلید وغیرہ کی وجہ سے سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث) نے بدعتی و مُشرک کہا مگر سعودی حنبلی بن گئے اور اہلحدیث غیر مقلد ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد نے تقلید کو بدعت و شرک کہا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں فرمایا۔
اہلتشیع حضرات اہلسنت کو مسلمان نہیں سمجھتے، اگر مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر اختلاف کیا ہوا کیونکہ اہلسنت کا کہنا ہے کہ اہلتشیع کی بنیاد نہیں ہے کیونکہ بنیاد قرآن و سنت سے بنتی ہے۔ حضور ﷺ کی احادیث 124000صحابہ کرام نے اکٹھی کیں جن میں پنج تن بھی شامل ہیں لیکن اہلتشیع کی احادیث حضور ﷺ سے اگر مولا علی سے اہلتشیع تک پہنچیں ہیں تو حضور ﷺ کے تو 124000صحابی ہوئے، اہلتشیع کیا حضور ﷺ کے صحابہ کو مانتے ہیں یا مولا علی کے اپنے کوئی صحابی تھے، کون تھے نام بتائیں جن سے احادیث روایات کی ہیں ورنہ اہلسنت ٹھیک کہتے ہیں اہلتشیع بے بنیاد ہیں۔