غزوہ قریظہ
تمام عالم عرب کے مشرکین مکہ، یہود اور دیگر قبائل کے 10000جنگجو کے حملے کو نبی کریم ﷺ نے بڑی حکمت عملی اور اللہ کریم کی مدد سے خندق کھود کر پسپا کیا۔ آپ غزوہ سے واپس ہوئے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کی کہ اللہ کریم کے حُکم سے ہم نے ابھی یہودی قبیلہ غزوہ قریظہ کی طرف روانہ ہونا ہے، اسلئے تیار ی کا حُکم دیں کیونکہ اس قبیلے نے ہی حضور ﷺ کو شہید کرنے کی کوشش کی،برا بھلا کہا، آستین کا سانپ ثابت ہوا، مسلمانوں کو مکمل ختم کرنے کی پلاننگ کی۔
بنو قریظہ والوں کے پاس کافی سامان تھے اسلئے وہ قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں نے جا کر اُن کا محاصرہ کر لیا۔ جب محاصرے کو 25دن کے قریب ہو گئے تو یہود کے سردار کعب بن اسد نے یہود کے سامنے تین متبادل تجاویز رکھیں جو انہوں نے قبول نہیں کیں:
۱) اسلام قبول کر لو اور محمد ﷺ کے دین کو قبول کر لو کیونکہ وہ واقعی ہی نبی ہیں۔
۲) اپنے بیوی بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر کے مسلمانوں سے لڑائی کرو۔
۳) ہفتے والے دن مسلمانوں کو علم ہے کہ لڑائی نہیں ہوتی تو اچانک اُن پر حملہ کردو۔
اس کے بعد اُنہوں نے ہتھ یار ڈالنے کا فیصلہ کیا مگر بعض مسلمان دوستوں جیسے ابو لبابہ رضی اللہ عنہ سے رابطے کی خواہش کی کیونکہ ان کے باغات اور آل اولاد بھی اس علاقے میں تھی، ابولبابہ وہاں پہنچے تو یہودی مرد و عورت بہت روئے اور پوچھا کہ کیا ہم ہتھ یار ڈال دیں تو انہوں نے کہا ہاں مگر ساتھ گردن کٹنے کا اشارہ بھی دے دیا کہ تم سب کی اب موت ہے لیکن انہیں فورا احساس ہوا کہ میں نے راز ظاہر کر دیا ہے۔ مسجد میں آ گئے، اپنا گناہ بتایا، کہا کہ اللہ ہی اب میرا فیصلہ کرے گا تو بعد میں اللہ کریم نے ان کی معافی کا پروانہ دیا اور حضور ﷺ نے ان کو کھول کر آزاد کیا۔
حضرت زبیر اور حضرت علی رضی اللہ عنھما نے بنو قریظہ کے فوجیوں کو دھمکیاں لگائیں، وہ ڈر بھی گئے حالانکہ ابھی کافی عرصہ وہ قلعہ بند رہ سکتے تھے مگر ان کے اعصاب اس محاصرے سے جواب دے چُکے تھے، اسلئے ہتھ یار ڈال کر خود کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم اپنے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کروانا پسند کرو گے (حضرت سعد کو غزوہ احزاب میں تیر لگا تھا اور وہ زخمی تھے اور اس فیصلے کے بعد شہید ہو گئے)، انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے سب کی سُنی اور فرمایا: فیصلہ یہ ہے کہ مردوں کو قتل کر دیا جائے، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنایا جائے اور اموال تقسیم کر لئے جائیں۔ آپ ﷺ نے اس فیصلے کو بہت سراہا کیونکہ ان کی بد عہدی پر تو اللہ کریم بھی ناراض تھا، اس وجہ سے تو فرشتے بھی ساتھ آئے تھے کہ حضور آرام نہیں کرنا بلکہ ابھی بنو قریظہ کا محاصرہ کرنا ہے۔ خندقیں کھود کر سب ظالم مار دئے گئے۔ایک صحابی کو شہید کرنے والی عورت بھی ماری گئی۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مدینہ واپس تشریف لائے تو انتقال ہوا، ان کے جنازے میں فرشتے بھی شریک ہوئے۔ (حوالے کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں)
دینِ اسلام: دین بھی ہماری ذمہ داری میں آتا ہے کہ کونسا دین بچوں کو دینا ہے ورنہ بچے ہمیشہ کنفیوزڈ رہیں گے۔ دین اسلام نفرت نہیں سکھاتا بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہر جماعت یہ بتائے کہ دیوبندی بریلوی یا اہلحدیث ہونا کیوں لازم ہے بلکہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ۔
بھائی بھائی: دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتوں نے اپنی پہچان اپنے علماء (دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کی وجہ سے) سے کروائی ہے حالانکہ کہنا چاہئے تھا کہ دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت سے ہوتے ہوئے حضور ﷺ کے دور سے کنیکٹڈ ہیں، البتہ دونوں جماعتوں کو پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، تقلید وغیرہ کی وجہ سے سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث) نے بدعتی و مُشرک کہا مگر سعودی حنبلی بن گئے اور اہلحدیث غیر مقلد ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد نے تقلید کو بدعت و شرک کہا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں فرمایا۔
اہلتشیع حضرات: حضور ﷺ کی احادیث 124000صحابہ کرام نے اکٹھی کیں جن میں پنج تن بھی شامل ہیں لیکن اہلتشیع کی احادیث حضور ﷺ سے اگر مولا علی سے اہلتشیع تک پہنچیں ہیں تو حضور ﷺ کے تو 124000صحابی ہوئے، اہلتشیع کیا حضور ﷺ کے صحابہ کو مانتے ہیں یا مولا علی کے اپنے کوئی صحابی تھے، کون تھے نام بتائیں جن سے احادیث روایات کی ہیں ورنہ اہلسنت ٹھیک کہتے ہیں اہلتشیع بے بنیاد ہیں۔