Hazoor SAW Aur Khudkashi (حضور ﷺ اور خود کشی)

حضور ﷺ اور خود کشی

الصحیح بخاری 6982میں لکھا ہے کہ حضور ﷺ پر وحی آئی تو اُس کے بعد کچھ عرصہ وحی نہیں آئی تو حضور ﷺ پہاڑ کی چوٹی پر چلے جاتے اور ابھی ارادہ کرتے کہ میں خود کو اس پہاڑ سے گرا دوں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی صورت مبارک نظر آتی اور آپ ﷺ کو تسلی دیتی اور آپ اپنا ارادہ بدل کر پہاڑ کی چوٹی سے نیچے آ جاتے)

اعتراض: اس حدیث پر اہلتشییع، عیسائی، لبرلز، ملحد، منکر احادیث کا اعتراض موجود ہے، اس اعتراض سے مقصود اہلسنت کی مستند احادیث کی کتابوں کی اہمیت مسلمانوں کی نظروں سے گرانا ہے۔ البتہ اگر کوئی مسلمان گمراہ بھی ہو جاتا ہے تو پھر بھی وہ گمراہی سے نکل کر تباہی کی طرف اسلئے جائے گا کہ اعتراض کرنے والوں کے اپنے کوئی اصول و قانون نہیں ہے بلکہ یہ سب مسلمان ہی نہیں ہیں۔

مرزا کا قانون: ایک ویڈیو میں ایک مفتی صاحب مرزا انجینئیر کو کہہ رہے تھے کہ جیسے تو نے تصوف کی کتابوں کو جلانے کی بات کی ہے تو یہ بھی تو امام بخاری کی رسول اللہ ﷺ کے بارے میں توہین بنتی ہے تو اس کتاب کو بھی جلایا جائے یا نہیں؟ اگر مرزا کا ایک اصول نہیں تو پھر مرزا خود کس قانون پر ہے؟؟ مرزا کا کوئی قانون نہیں بلکہ تفضیلی و تفسیقی و پیر ڈاکٹر، مفتی و علماء رافضیت کے ایجنڈے پر ہیں۔

شرح: بخاری 6982 کی شرح میں کہا گیا ہے کہ خود کشی کا یہ واقعہ بخاری شریف میں ”موصولا“ نہیں بلکہ اسے امام بخاری نے امام زہری سے ”بلاغا“روایت کیا ہے اور جو حدیثیں ”بلاغا“ روایت کی جائیں وہ امام بخاری کے اصول پر نہیں ہوتیں۔ اسلئے جب صحیح بخاری کی صحت پر امت کے اجماع کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مقصود اسطرح کی روایتیں نہیں ہوتیں۔ اسلئے بخاری شریف کا یہ قصہ ناقابل قبول ہے ( امام زہری اور ”فیما بلغنا“ کی شرح کمنٹ سیکشن میں)۔

حدیث مقدس: اس حدیث کی شرح میں بعض علماء نے کہا کہ یہ ایک خود کشی کا خیال تھا اور یہ کام تو حضور ﷺ سے سرزد ہوا ہی نہیں۔ اگر مان بھی لیا جائے تو یہ بھی آزمائش تھی اور اسطرح سے امت کو سمجھانا مقصود تھا کہ ابتدا اور انتہا میں کیا فرق ہے کیونکہ یہ سارے مسائل امت کے لئے راہنمائی کرتے ہیں اور مندرجہ ذیل آیات کے بارے میں بھی وہی رویہ ہو گا جو بخاری کی حدیث 6982کا ہے:

(۱) حضور ﷺ نے جب کسی شے کو اپنے اوپر حرام کر لیا تو اللہ کریم نے سورہ تحریم میں فرمایا: اے محبوب جسے اللہ کریم نے آپ کے لئے حلال کیا، آپ اسے حرام کیوں کرتے ہو؟

(۲) اسی طرح حضرت مریم علیھا السلام کا قول قرآن نے بیان فرمایا: کہنے لگیں کاش میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی اور میرا نام و نشان بھی باقی نہ رہتا“۔

(۳) سورہ شعراء: اے نبی ﷺ ان کے ایمان نہ لانے پر شاید آپ تو اپنی جان کھو دیں گے۔“

نتیجہ: اس دُنیا میں کوئی اللہ کو نہیں مانتا، کوئی رسول اللہ ﷺ کو نہیں مانتا، کوئی صحابہ کرام اور اہلبیت کو نہیں مانتا اور یہ دنیا سب کی آزمائش ہے ہم نے اپنے عقیدے کا دفاع کرنا ہے۔ اللہ کریم قرآن کے ذریعے بھی گمراہ کرتا ہے (یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا)، احادیث کے ذریعے بھی گمرا ہ عوام ہوتی ہے، فقہ کے مسائل اور تصوف کی کتابوں سے بھی گمرا ہ ہوئی ہے۔اللہ جسے چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہ کرے۔ یا اللہ ہمیں ہدایت پر رکھنا امین

دینِ اسلام: دین بھی ہماری ذمہ داری میں آتا ہے کہ کونسا دین بچوں کو دینا ہے ورنہ بچے ہمیشہ کنفیوزڈ رہیں گے۔ دین اسلام نفرت نہیں سکھاتا بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہر جماعت یہ بتائے کہ دیوبندی بریلوی یا اہلحدیث ہونا کیوں لازم ہے بلکہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ۔

بھائی بھائی: دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتوں نے اپنی پہچان اپنے علماء (دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کے اصولی اختلاف کی وجہ سے) سے کروائی ہے حالانکہ کہنا چاہئے تھا کہ دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت سے ہوتے ہوئے حضور ﷺ کے دور سے کنیکٹڈ ہیں، البتہ دونوں جماعتوں کو پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، میلاد، عرس، تقلید وغیرہ کی وجہ سے سعودی عرب کے وہابی علماء (اہلحدیث) نے بدعتی و مُشرک کہا مگر سعودی حنبلی بن گئے اور اہلحدیث غیر مقلد ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس مجتہد نے تقلید کو بدعت و شرک کہا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں فرمایا۔

اہلتشیع حضرات: حضور ﷺ کی احادیث 124000صحابہ کرام نے اکٹھی کیں جن میں پنج تن بھی شامل ہیں لیکن اہلتشیع کی احادیث حضور ﷺ سے اگر مولا علی سے اہلتشیع تک پہنچیں ہیں تو حضور ﷺ کے تو 124000صحابی ہوئے، اہلتشیع کیا حضور ﷺ کے صحابہ کو مانتے ہیں یا مولا علی کے اپنے کوئی صحابی تھے، کون تھے نام بتائیں جن سے احادیث روایات کی ہیں ورنہ اہلسنت ٹھیک کہتے ہیں اہلتشیع بے بنیاد ہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general