حضرت ابراہیم کی اذان اور آج کا مسلمان
1۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تمام ادیان (اسلام، عیسائی، یہودی) کی جان ہیں اور ہر دین والے آپ کی عظمت کو مانتے ہیں۔ آپ کی پیدائش شہر بابل، قصبہ کوفی یا امواز کے علاقے مقام سوس میں ہوئی۔ آپ کی والدہ کا نام ”امیلتہ یا بونا“ اور والد کا نام تارخ ہے۔
2۔ نمرود بن کنعان کے دور میں پیدا ہوئے جوبادشاہ بھی تھا، اپنی پوجا بھی کرواتا تھا، خود کو خدا سمجھتا تھا، تاج پہنتا اور اس کے دور میں بُت پرستی، ستارہ پرست، چاند پرست، سورج پرست یعنی کے 5000 کے قریب بُت کو الہ سمجھا جاتا تھا۔
3۔ نمرود نے ایک رات خواب دیکھا کہ ایک ستارہ طلوع ہوا جس کی روشنی میں سورج اور ستارے بے نور ہو کر رہ گئے ہیں، کاہنوں اور نجومیوں نے تعبیر یہ بتائی کہ ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جو تیری بادشاہی کے زوال کا باعث ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ جسطرح حضرت موسی علیہ السلام کے فرعون نے بچے قتل کئے، میاں بیوی کو ملنے سے روک دیا، اسی طرح نمرود نے بھی کیا۔
4۔ اُسی دور میں بہت تدابیر کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والدین نے نمرود کے حُکم کے خلاف خاموشی سے بچہ پیدا بھی کیا اور ایک غار میں آپ کو چھپا دیا گیا جہاں آپ کی والدہ آپ کو روز دودھ پلانے جاتی تھیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ سات برس تک اور بعض کہتے ہیں کہ 17برس تک آپ نے غار میں پرورش پائی (عجائب القرآن صفحہ 95 بحوالہ روح البیان جلد 3صفحہ 59)
سوال: کیا اُس وقت مسلمان کوئی تھا یا نہیں؟ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والدین ایماندار تھے یا نہیں؟ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی والدہ مسلمان تھی یا نہیں؟ کیا صرف بچے کو بچانے کے لئے غار میں پالا گیا یا یہ خیال تھا کہ یہی بچہ ہے جو نمرود کا خاتمہ کرے گا؟؟
جواب: ہر سوال کا جواب ہر کتاب میں نہیں ہوتا بلکہ ہر سوال ہر ایک کے لئے ضروری نہیں ہوتا بلکہ صرف مقصد پر توجہ دینی چاہئے۔ ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جس دور میں پیدا ہوئے وہ نمرود کا دور تھا جس میں بُت پرستی عام تھی اسلئے سورہ الانعام 75 – 78 میں ہے:
آپ نے عوام کو ستارہ، چاند اور سورج سے منتیں مانگتے دیکھا اور پوچھا: کیا یہ میرے رب ہیں؟ جب ہر کوئی چمکتی چیز ڈوب جاتی رہی توآپ اپنی قوم سے لا تعلقی اختیار کی اور فرمایا: میں ہر باطل سے جدا ہو کر اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
تجزیہ: ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور والدین اُس کو مسلمان، یہودی، عیسائی، دیوبندی، بریلوی، وہابی، شیعہ بنا دیتے ہیں لیکن ہر بچے کے لئے یہی حُکم ہے کہ تحقیق کرے کہ کونسا دین الہامی دین ہے ورنہ اُس نے اپنی زندگی کا حق ادا نہیں کیا۔ یہی سبق حضرت ابراہیم علیہ اسلام سے ملتا ہے اور جو مسلمان تحقیق کرتا ہے، اللہ کریم اُس کے لئے مشاہدے کے راستے کھول دیتا ہے۔
چچا بھتیجے کا مقابلہ
1۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے والدین نے نمرود سے بچا کر اپنے بچے کو پالا اور تربیت کی تھی، قرآن پاک میں اب کا لفظ چچا، دادا، باپ سب کے لئے بولا جاتا ہے، اسلئے اہلسنت کی عالمانہ رائے یہی ہے کہ آذر چچا تھا جو بُت بنانے والا اور بُت فروش بھی تھا۔ البتہ دیوبندی اور اہلحدیث حضرات کے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد صاحب نعوذ باللہ مُشرک تھے۔ (حوالے کمنٹ سیکشن میں)
2۔ سورہ مریم کی آیات 41 – 48 میں ہے کہ بے شک وہ صدیق نبی تھا، جب اپنے باپ سے بولا، اے میرے باپ کیوں ایسے کو پوجتا ہے جو نہ سُنے، نہ دیکھے اور نہ کچھ تیرے کام آئے۔ اے میرے باپ بے شک میرے پاس وہ علم آیا جو تجھے نہ آیا تو تو میرے پیچھے چلا آ، میں تجھے سیدھی راہ دکھاؤں۔ اے میرے باپ شیطان کا بندہ نہ بن، بے شک شیطان رحمن کا نافرمان ہے۔ اے میرے باپ میں ڈرتا ہوں کہ تجھے رحمن کا کوئی عذاب پہنچے تو تو شیطان کا رفیق بن جائے۔
باپ بولا کیا تو میرے خداؤں سے منہ پھیرتا ہے۔ اے ابراہیم بے شک اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھ پر پتھراؤ کروں گا اور مجھ سے دور ہو جا۔ آپ نے کہا کہ بس تجھے سلام ہے، قریب ہے کہ میں تیرے لئے اپنے رب سے معافی مانگوں گا، بے شک وہ مجھ پر مہربان ہے، اور میں ایک کنارے ہو جاؤں گا۔ تم سے اور ان سب سے جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہو اور اپنے رب کو پوجوں گا، قریب ہے کہ میں اپنے رب کی بندگی سے بدبخت نہ ہوں۔(ترجمہ کنز الایمان)
امتحان: اس وقت لڑائی یہ نہیں کہ آذر چچا تھا یا باپ تھا کیونکہ دلائل سب دے رہے ہیں، البتہ لڑائی یہ ہے کہ کیا کوئی اپنے باپ کو گناہ گار سمجھتا ہوا، اسطرح دھڑلے سے تبلیغ کر سکتا ہے۔ کیا رشوت خور، سود خور، بے نمازی، چور، ڈاکووالد کو اسطرح تبلیغ کی جا سکتی ہے۔ کیا تبلیغ کرتے ہوئے باپ دادا کی کڑوی کسیلی سُن سکتے ہیں؟ کس میں ہمت ہے کہ اللہ کریم کے واسطے اپنے والدین کو چھوڑ دے۔ کیا کوئی عقیدے اور غیر شرعی اعمال کے خلاف لڑائی کرتا ہے تو چیلنج ہے کہ اپنی پہچان کروا دے۔
مندر کے بُت توڑکر دکھا
سورہ الانبیاء آیات 57 سے 67 میں آپ کی ایک اور جاندار کاروائی بُت پرستوں کے خلاف ملتی ہے جب آپ نے فرمایا: ”اور مجھے اللہ کی قسم ہے کہ میں تمہارے بُتوں کا بُرا چاہوں گا جب تم پیٹھ پھیر کر جا چُکے ہو گے۔ پھر ان کے بڑے بُت کے سوا سب بُت ٹکڑے ٹکڑے کر دئے تاکہ اس کی طرف رجوع کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معبودوں کے ساتھ کس نے یہ کیا ہے، بے شک وہ ظالموں میں سے ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا ہے کہ ایک جوان بتوں کے متلعق کچھ کہا کرتا ہے اسے ابراہیم کہتے ہیں۔کہنے لگے اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ تاکہ وہ گواہی دیں۔
کہنے لگے اے ابراہیم کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کیا ہے۔ کہا نہیں بلکہ ان کے اس بڑے بُت نے یہ ان کے ساتھ سلوک کیا ہے، سو ان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں۔ پھر اپنے دل ہی دل میں کہنے لگے بے شک تم (ابراہیم) ہی نے ظلم کیا ہے، پھر بے شرمی سے سر جھکا کر کہا کہ تو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں۔آپ نے فرمایا کہ کیا تم اللہ کے سوا اس کی پوجا کرتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے سکے اور نہ نقصان پہنچا سکے۔تُف ہے تم پر، اور جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔ کیا تمہیں عقل نہیں۔“
تجزیہ: انبیاء کرام دُنیا میں حق بات کہنے آتے ہیں اور ان کو یہ لالچ نہیں ہوتا کہ لوگ واہ واہ کریں۔ یہ داد لینا میراثیوں کا کام ہے حق پرستوں کا کام نہیں۔
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اکیلے سارے بُت خانے کے بُت توڑتے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کون تھا کیونکہ ریکارڈ میں کچھ لکھا نظر نہیں آتا مگر ایمان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام پر سلام ایسے ہی نہیں بھیجا گیا۔
اتنی حکمت اور دانائی سے بُت پرستوں کو دلائل دئے مگر وہ بھی عقیدے نہیں بلکہ عقیدت کا زہر پی چُکے تھے، اسلئے ان پر اچھائی کا اثر نہیں ہوا بلکہ بے شرمی سے جواب دیتے رہے۔ یہ باتیں نسل در نسل چلتی رہتی ہیں اور ہر دور میں ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ میں ابراہیم ہوں حالانکہ وہ خود آذر ہوتا ہے۔
اللہ کرے ہر گھر میں ”ابراہیم“ پیدا ہو جو اپنوں کے ساتھ ساتھ غیروں کو بھی سمجھا سکے۔
نمرود اور حضرت ابراہیم
حضرت ابراہیم علیہ اسلام توحید کے سمندر میں ڈوبے ہوئے، ستارہ، چاند اور سورج کی پوجا کرنے والوں سے پناہ مانگتے ہوئے اپنے چچا آذر کے ساتھ بحث کر کے اپنے علاقے کے بُتوں کو جب توڑ کر پُجاریوں کو لاجواب کر دیا تو یہ بات نمرود بادشاہ کے کان میں بھی پڑ گئی کہ ایک بندہ نام ابراہیم (علیہ اسلام) جو کسی ایک ہستی کو الہ مانتا ہے اُس نے بُتوں کو پاش پاش کر دیا ہے۔ اُس نے فوج کو حُکم دیا کہ ابراہیم (علیہ اسلام) کو ہمارے سامنے پیش کیا جائے اور پھر سورہ بقرہ 258 کا مکالمہ ہوا:
کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراھیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا، اس لیے کہ اللہ نے اسے سلطنت دی تھی، جب ابراھیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، کہا ابراھیم نے بے شک اللہ سورج مشرق سے لاتا ہے تو اسے مغرب سے لے آ، تب وہ کافر حیران رہ گیا، اور اللہ بے انصافوں کی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔
1) کسی کو سمجھانے کے واسطے انبیاء کرام معجزات کے ساتھ علمی دلیلیں بھی دیتے ہیں، کچھ پر علمی دلائل اثر کر جاتے ہیں اور کچھ پر معجزات کا اثر ہو جاتا ہے مگر کچھ ابو جہل جیسے جن پر معجزات اور علمی دلائل کا بھی اثر نہیں ہوتا، اسلئے ابوجہل علمی دلائل کے ساتھ ساتھ چاند کے دو ٹکڑے ہونے پر بھی ایمان نہیں لاتا۔
2) دوسری یہ بات سمجھ میں آئی کہ جس کو سمجھ آ جائے مگر اُس سے اُس کی اپنی ذات اور جماعت کو نقصان پہنچے تو وہ حقیقت کو فراموش کر کے سچے بندے کو مارنے کی کوشش کرتا ہے۔
3) بہت سے مسلمانوں نے بغیر سوچے سمجھے حضرت ابراہیم علیہ السلام بننے کی کوشش کی ہو گی مگر وقت کے حُکمرانوں اور فوج نے مروا دیا ہو گا۔اسلئے ہر ایک کو اپنا سیاسی، علمی، معاشی بیک گراؤنڈ دیکھ کر حالات کے نمردوں سے مقابلہ کرنا ہو گا ورنہ یہ کام گلے بھی پڑ سکتا ہے۔
4) اگر کوئی حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو پہلے اپنے جسم پر اسلام کو نافذ کرے، پھر گھر، محلے میں تبلیغ کرتا ہوا نیشنل لیول پر تبلیغ کا کام کرے۔
حضرت ابراہیم آگ میں
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنی زندگی میں توحیدی پیغام دینے کے لئے کمر بستہ ہوئے، بُت توڑے، نمرود سے مکالمہ کیا تو زمانے کے خداؤں نے یہ فیصلہ سُنایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا جائے اور اُس کا بیان سورہ الانبیاء 68 سے 70 میں ہے ”بولے ان کو جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو، اگر تمہیں کرنا ہے۔ ہم نے فرمایا اے آگ ہو جا ٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر“۔ سورہ صفت 97”بولے اس کے لئے ایک عمارت چنو اور پھر اسے بھڑکتی آگ میں ڈال دو۔
1۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے شدید امتحانات ہیں جو کہ منبر رسول پر بیٹھ کر بیان کرنے سے مزہ لیا جا سکتا ہے مگر عملی طور پر دیکھا جائے تو ناممکن نظر آتے ہیں۔
2۔ بادشاہ نمرود نے کہا کہ اس کو آگ میں ڈال دیا جائے، تیاری شروع ہوئی، عمارت بننی شروع ہوئی، کتنے دنوں میں بنی اور اُس وقت لازم ہے کہ آپ عبادت کرتے رہے ہوں گے کیونکہ امتحان کے وقت غیب کا علم نہیں بلکہ بشری تقاضا دیکھا جاتا ہے اور ہم علم غیب پر لڑائی کر رہے ہیں۔
3۔ ایک اکیلے نبی کا اُس وقت ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا اور وہ نبی کسی کا ساتھ لینے والا بھی نہیں تھا کیونکہ اُس کو اللہ کریم جانتا تھا کہ خلیل اللہ ہے، اسلئے سب فرشتوں نے آ کر پوچھا کہ اے ابراہیم کچھ چاہئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک ہی جواب تھا حسبی اللہ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔
4۔ دور دراز تک آگ پھیلی ہو ئی تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو صرف پسینہ آیا تھا، جب منجنیق کے ذریعے پھینکا گیا تو لازم ہے کہ اللہ کے حُکم سے اسطرح گئے ہوں گے جیسے فرشتے اُڑتے ہوئے آتے جاتے ہیں اور بڑے پیار سے آگ میں اُتر گئے ہوں گے کیونکہ کسی چیز سے ٹکڑا کر زخمی نہیں ہوئے۔
5۔ اس امتحان پر قربان اور اے ابراہیم تجھے سلام۔ کیا عشق ہے تیرا اور ہم سے زندگی کا بوجھ بھی اُٹھایا نہیں جاتا، آپ سراپا عشق و توحید کی مستی میں گُم اور نالائق سارے ہم کہ دین کا کھائیں نہ غم۔ یہ بھی غم کیا کسی غم سے ہے کم کہ نبی کا دین ختم کرنے میں شامل سب ہیں ہم۔
6۔ حُکم خدا سے آگ ٹھنڈی ہوئی اور لوگ سمجھ گئے کہ کچھ بھی باقی نہ رہا ہوگامگر ادھر یہ حالت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی ایک طرف اور یہ آگ کی نعمت ایک طرف کیونکہ آگ بھی کہہ رہی ہو گی کہ مجھ میں طاقت کہاں کہ ایک نبی کے ارادے کے سامنے جل سکوں۔ میری طاقت تو کھنچ لی ہے تیرے عشق نے اے ابراہیم۔
7۔ یاد رہے کہ امتحان کے وقت اعصاب کو قائم دائم رکھنا مومن ہونے کی نشانی ہے، اللہ کریم پر یقین رکھنا ایمان والوں کی نشانی ہے۔
حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ (میاں بیوی)
1۔ سورہ العنکبوت آیت 26 فَـَٔامَنَ لَهُۥ لُوطٌ ۘ وَقَالَ إِنِّى مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّىٓ” لوط اُن پر ایمان لایا اور کہا اُس (ابراہیم) نے میں اب اللہ کے لئے ہجرت کرنے لگا ہوں“۔ نار نمرود کے وقت میں حضرت سارہ رضی اللہ عنھا اور حضرت لوط علیہ اسلام صرف آپ پر ایمان رکھتے تھے۔ اسلئے بابل شہرسے نمرود کے مقابلے کے بعد جب ہجرت کرنا پڑی تو دونوں آپ کے ساتھ تھے۔
2۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام جب مصر پہنچے تو وہاں کا فرعون بادشاہ عمرو بن امرتی القیس تھا جو عورتوں کا رسیا تھا، اسلئے اُس کو علم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے ساتھ خوبصورت عورت حضرت سارہ رضی اللہ عنھا ہیں تو دربار میں طلب کیا۔ حضرت سارہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دینی بھائی بتایا۔ اُس بد کردار نے حضرت سارہ علیہ السلام کی طرف بُری نظر کی تو آپ کی بد دُعا سے اُسے فالج ہو گیا۔ آخر کار اُس نے توبہ کی اور حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا کو خادمہ (جو اُس کی بیٹی تھی یا لونڈی) کے طور پر اُن کے ساتھ کیا اور معافی مانگی۔ (حوالہ کمنٹ سیکشن میں)
3۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ اسلام فلسطین میں مقیم ہوئے، حضرت سارہ علیہ السلام کی کوئی اولاد نہیں تھی تو انہوں نے حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا سے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا نکاح کر دیا۔ حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا کے گھر میں حضرت اسماعیل علیہ اسلام پیدا ہوئے۔
4۔ سورہ ہود 71 سے 73 میں ہے کہ :اور ان کی بیوی (وہاں) کھڑی تھی تو وہ ہنسنے لگی تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی۔ کہنے لگیں: ہائے تعجب!کیا میرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا حالانکہ میں تو بوڑھی ہوں اور یہ میرے شوہر بھی بہت زیادہ عمر کے ہیں۔ بیشک یہ بڑی عجیب بات ہے۔ فرشتوں نے کہا: کیا تم اللہ کے کام پر تعجب کرتی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ بیشک وہی سب خوبیوں والا، عزت والاہے۔
5۔ حضرت سارہ رضی اللہ عنھا کے گھر میں حضرت اسحاق علیہ اسلام پیدا ہوئے۔ اسلئے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی اولاد سے باقی سب انبیاء کرام پیدا ہوئے جن کا تذکرہ قرآن مجید اور احادیث میں ملتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی چار بیویاں (1) سارہ (2) ہاجرہ (3) قطورہ (4) حجون تھیں (الکامل جلد 1صفحہ 123) تھیں جن سے آپ نے نکاح کئے۔
حُکم الہی سے جدائی
1۔ ہر کام اللہ کریم کے حُکم سے ہوتا ہے، دن رات ہوتا ہے اور ہر وقت ہوتا ہے، اسلئے تفاسیر کہتی ہیں کہ حضرت سارہ رضی اللہ عنھا نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو عرض کی کہ آپ حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا اور اُس کے دودھ پیتے بچے کو کہیں دور چھوڑ آئیں، اس پر اللہ کریم کا حُکم بھی آ گیا کہ اس کی بات مان لیں تو آپ علیہ السلام نے اپنی پیاری بیوی حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا اور حضرت اسماعیل علیہ اسلام کو مکہ چھوڑ آئے۔
2۔ بخاری 3365 میں ہے کہ حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا کوجب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دودھ پیتے بچے کے ساتھ ایک بڑے درخت کے پاس چھوڑا تو حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا پیچھے آئیں اور مقام کدا پر آواز دے کر پوچھا کہ آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جار ہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اللہ! حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا نے خوش ہو کر کہا کہ پھر میں راضی ہوں۔ آپ پیچھے مُڑے بغیر اپنی فیملی کے لئے دُعا کر کے واپس فلسطین آگئے۔
حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا بچے کو دودھ پلاتی رہیں اور مشکیزے سے پانی پیتی رہیں اور پھر پانی ختم ہوا تو صفا پر چڑھ کر دیکھا شاید کوئی نظر آ جائے مگر نظر لوٹ آئی لیکن کوئی نظر میں نہ آیا، پھر بچے کے پاس آئیں جو تڑپ رہا تھا، ایڑیاں رگڑ رہا تھا، پھر مروہ پہاڑ پر گئیں اور یہ سب کو معلوم ہے کہ صفا مروہ کے ساتھ پھیرے عُمرہ اور حج کے دوران لازم کیوں ہیں۔ یہ اسی ہماری ماں کی تڑپ پر تڑپنے کا حُکم ہوا کہ اسطرح عُمرے میں پھیرے لگاؤ ورنہ عُمرہ نہیں ہو گا۔
حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا جب واپس آئیں تو دیکھا کہ بچے کی ایڑیوں کے پاس پانی بہہ رہا ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ یہ ایڑی کے ساتھ ایڑی حضرت جبرائیل علیہ اسلام کی لگی تھی اور میٹھا پانی نکل آیا جو اللہ کریم کی قدرت کا شاہکار ہے۔اس پانی کو آج تک حاجی و زائرین پی رہے ہیں اور اس جیسا صاف شفاف بھوک و پیاس مٹانے والا پانی کہیں نہیں ملے گا۔
وہیں پر جرہم قبیلہ آ کر آباد ہوا اوراُس قبیلے کی ایک لڑکی سے حضرت اسماعیل کا نکاح ہوا، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت سارہ رضی اللہ عنھا سے پوچھ کر اپنی اولاد کو دیکھنے آئے تو حضرت اسماعیل کی بیوی سے ملاقات ہوئی اور پوچھا کہ اسماعیل کہاں ہیں تو اس عورت نے کہا کہ شکار پر گئے ہیں۔ اُس عورت نے نہ کھانا پوچھا اور نہ پانی توآپ علیہ اسلام نے کہا اسماعیل آئے تو اُس سے کہنا کہ اپنے گھر کی چوکھٹ بدل لے۔ اُس عورت نے جب خُلیہ بتایا اور بات بتائی تو انہوں نے اس عورت کو طلاق دے دی۔
پھر دوسری دفعہ آئے توحضرت اسماعیل علیہ اسلام پھر شکار پر گئے ہوئے تھے مگر ان کی دوسری بیوی نے کھانا وغیرہ کھلایا اور آپ نے اس عورت کو دعائیں دیں۔ تیسری بار جب آپ علیہ اسلام تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام آب زمزم کے پیچھے تیر ٹھیک کر رہے تھے۔ کیا عالم ملاقات کا ہو گا اور کیا جذبہ اور پیار ہو گا، یہ وہی سمجھ سکتا ہے جس کا کوئی بچھڑا ملا ہوتا ہے۔
بیٹے حضرت اسماعیل کی جان قربان۔۔
حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے اپنے بیٹے کو مکہ پاک میں چھوڑا اور کبھی کبھی ملنے جاتے، اُس دوران آپ علیہ اسلام نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلا رہے ہیں، مسلسل تین دن تک یہ خواب دکھائی دیا اور خلیل اللہ نے اس خواب کو وحی سمجھ کر اس پر عمل کرنے کا ارادہ کر لیا۔
ارادہ کرنا اور بات ہے مگر ساتھ میں انہوں نے اپنے بیٹے سے مشورہ کیا کہ اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے اللہ کی راہ پر قربان کر رہا ہوں، اب تو غوروفکر کر لے کہ تیرا ارادہ کیا ہے اور کیا اس مسئلے میں تو میرے خواب کو سچا سمجھتے ہوئے ساتھ دے گا۔
بیٹے نے باپ کی بات سُنی اور ادب سے جواب دیاکہ اے میرے نبی، یہ خواب بھی اللہ کریم کی طرف سے حُکم ہے، اسلئے جیسا حُکم ہوا ہے ویسے عمل کریں۔ اب باپ اپنے بیٹے کو اللہ کے حُکم پر قربان کرنے لگا ہے اور بیٹا اپنے باپ کے حُکم پر قربانی دینے لگا ہے کیونکہ جانبازوں کی جان ایمان پر قربان ہوتی ہے اور یہ اُن کا ایمان تھا کہ خواب برحق اور اللہ کریم کی طرف سے امتحان ہے۔
باپ اور بیٹے جب منی کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں شیطان تین جگہوں پر نمودار ہوا اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے تکبیرات پڑھتے ہوئے اُسے کنکریاں ماریں اور منی میں موجود تین بڑے ستون علامتی شیطان ہیں جن کو حاجی سات سات کنکریاں تکبیرات پڑھتے ہوئے مارتے ہیں۔
باپ نے منہ کے بل بیٹے کو لٹایا، اللہ اکبر کہا اور گردن پر چھری چلا دی، کون کہتا ہے کہ اللہ کریم نہیں دیکھتا، اللہ کریم ہی تو ہمارے ہر عمل کو دیکھتا ہے، کسی لمحے اللہ کریم غفلت میں نہیں ہے بلکہ ہر عمل، قول و فعل پر سزا اور جزا دے رہا ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ صرف انبیاء کرام کو دیکھتا ہے بلکہ اُس کے علم نے ہر ایک کو احاطے میں لئے ہوئے ہے۔
چھری نے گردن نہیں کاٹی اور پل بھر میں اس خواب کا فیصلہ ہو گیا اور دو نبیوں نے ثابت کر دیا کہ خون دینا پڑے تو خون بھی دیں گے، وقت دینا پڑا تو وقت بھی دیں گے لیکن اللہ کریم کے حُکم سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اللہ کریم کی طرف سے فیصلہ یہ ہوا کہ مینڈھا ذبح کیا جائے، پل بھر میں حضرت جبرائیل علیہ اسلام مینڈھا لائے اور وہ بیٹے کے بدلے میں ذبح ہو گیا۔
اللہ کریم نے فرمایا اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، بے شک یہ بہت بڑی، کھلم کھلا آزمائش تھی اور تو نے خلیل اللہ ہونے کا حق ادا کر دیا ہے، اسلئے ہم نے بیٹے کے فدیے میں یہ مینڈھا ذبح کروایا ہے اور یہ قربانی یادگار کے طور پر تیری نسلوں میں جاری رہے گی اسلئے ہر سال عید الاضحی میں قربانی کی جاتی ہے۔
قربانی: دین قربانی مانگتا ہے مگر یہاں ہر کوئی اپنی ذات اور جماعت پر قربان ہے مگر دین کے لئے قربانی دینے تو درکنار بولنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے سوائے ہم جیسوں کے جو چاہتے ہیں کہ حضور ﷺ کی ایک مسکراہٹ پر قربان ہو جائیں اور آپ ﷺ فرمائیں کہ کیا بے خوف دین کا کام کیا ہے۔
تعمیر کعبہ پر محنت مزدوری
1۔ خانہ کعبہ جو کہ طوفان نوح سے متاثر ہو چُکا تھا، اس کو بھی اصل بنیادوں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت جبرائیل علیہ اسلام کی نشاندہی سے اور اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی مدد سے تعمیر کیا۔ اسلئے اُس وقت کے حساب سے بہترین کاری گری اور خوب محنت باپ بیٹے کی تھی جس کی مزدوری میں اللہ کریم نے سارے انبیاء کرام حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی اولاد سے اور حضور ﷺ کو حضرت اسماعیل کی اولاد سے مبعوث فرمایا۔
2۔ خانہ کعبہ میں پڑا ”مقام ابراہیم“ یعنی وہ پتھر جس پر حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پاؤں کے نشان موجود ہیں، اُسی پتھر پر چڑھ کر آپ نے اللہ کریم کا گھر تعمیر کیا تھا اور جیسے جیسے ادھر ادھر ہونا ہوتا تو پتھر ساتھ ساتھ ادھر ادھر ہوتا، حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو باربار اُترنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ اسی طرح خانہ کعبہ کی دیوار جیسے جیسے بُلند ہوتی گئی اُسی طرح یہ پتھر بھی بلند ہوتا جاتا۔ اسلئے مقام ابراہیم کو طواف کے بعد بخاری 4483 کے مطابق نفل پڑھنے کی جگہ بنایا گیا۔
3۔ خانہ کعبہ تعمیر کرتے ہوئے مسلسل دُعائیں جاری تھیں یا اللہ ہماری اس خدمت کو قبول و منظور فرما لے اور سب سے بڑی دُعا خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی تھی کہ یا اللہ اپنا محبوب حضرت محمد ﷺ کو ان میں مبعوث فرمانا اور یہ دُعا بھی اللہ کریم نے قبول فرمائی اور حضور ﷺ کو حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی اولاد سے مبعوث فرمایا۔
4۔ کہا جاتا ہے کہ جب خانہ کعبہ تعمیر ہو گیا تو سات پھیرے لگائے گئے تاکہ دیکھا جائے کہ کوئی کمی کوتاہی تو تعمیر میں رہ تو نہیں گئی بس یہی سات پھیروں کا طواف صدیوں سے جاری ہے جو عُمرہ اور حج میں کیا جاتا ہے اور یہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی سُنت ہے حالانکہ ایسا کسی حدیث یا تفسیر کی کتاب میں نہیں ہے کہ سات پھیرے لگانا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وجہ سے لگائے جاتے ہیں۔
5۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد حُکم ہوا کہ لوگوں کو حج کے لئے ندا دو یعنی اے ابراہیم آواز لگاؤ کہ اللہ کریم کے گھر کا حج کرو۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے صدا لگائی اور اللہ کریم نے زمین و آسمان کی ہر حد تک وہ آواز پہنچائی یہاں تک کہ وہ آوازدُنیا میں ہر آنے والے نے سُن لی اور جس جس نے اُس وقت جتنی بار لبیک لبیک کہا وہ اتنی مرتبہ حج کرے گا۔
تحقیق: ہم سب مسلمان ہیں اور جس کو مسلمان کا درد نہیں وہ مسلمان نہیں۔ اللہ کریم کی عبادت کرتے ہیں اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، انبیاء کرام کا شیوہ ہے کہ اُمت کو اکٹھا کیا جائے، اسلئے اس پیج پر اہلتشیع، دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث حضرات کو سوال کر کے شعور دیا جا رہاہے کہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ:
اہلتشیع کا دین اسلام نہیں ہے کیونکہ وہ اہلبیت اور صحابہ کرام کے دین کو الگ الگ مانتے ہیں لیکن مولا علی نے کیا صرف ایک کو علم دیا باقی جتنے صحابہ تھے کیا وہ جاہل تھے حالانکہ اہلتشیع خود مسلمان ہی نہیں ہیں کیونکہ یہ خود نہیں بتاتے کہ ان کی احادیث حضور ﷺ کی ہیں یا کسی اور نے گھڑی ہیں۔ منگھڑت دین ہے اہلتشیع۔
دیوبندی اور بریلوی ایک ہیں مگر دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ہے۔ عوام اگر دیوبندی اور بریلوی علماء کو اکٹھا کر کے یہ پانچ سوال پوچھ لے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات سعودی عرب اور اہلحدیث حضرات کو گوارہ نہیں ہو گا کیونکہ عرس میلاد تقلید کو بدعت و شرک کہنے والے سعودی عرب کے وہابی علماء ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے 600سالہ اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کہا۔ عوام کو اپنا رول ادا کرنا ہو گا اور اپنی نسلوں کو سمجھانا ہو گا۔