ایک بکرا اور سارے گھر کی قربانی؟
حضور ﷺ کا فرمان ہے جو صاحب حیثیت ہونے کے باجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے(ابن ماجہ 3123)۔اسلئے اہلسنت کے نزدیک ہر عورت اور مرد پر نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ کی طرح قربانی بھی واجب ہے۔ البتہ ”اہلحدیث“ کا موقف ہے کہ اگر ایک بکرا ہو تو خاندان کے سارے گھر والوں کے لئے کافی ہو گا۔اہلسنت کے دلائل یہ ہیں:
1۔ ابن ماجہ 3136:”حضور ﷺ سے ایک صحابی نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے ذمہ ایک اونٹ کی قربانی ہے، میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں، جب کے مجھے خریدنے کے لئے اونٹ نہیں مل رہا تو حضور ﷺ نے انہیں حکم فرمایا کہ وہ سات بکریاں خریدیں اور انہیں ذبح کریں“۔ یہ دلیل ہے کہ ایک بکرا اگر ایک گھر کی طرف سے کافی ہے تو پھر سات بکریاں قربان کرنے کا حُکم کیوں دیا گیا۔
2۔ صحیح بخاری 5559: ”حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادیوں کوفرمایا کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں۔“ اگر باپ کی طرف سے قربانی پورے خاندان کے لئے کافی ہے تو حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کو کیوں فرماتے کہ اپنی قربانی خود ذبح کرو۔
3۔ سنن البیہقی 19636: حضور ﷺ نے فرمایا: اُٹھو اور اپنی قربانی کے موقع پر موجود رہو اور ترمذی 1495میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جانب سے ایک دنبے کی قربانی کیا کرتے تھے۔“ اگر ایک ہی قربانی میاں بیوی کی طرف سے ہوتی تو پھر دو کیوں کی جاتی رہیں۔
4۔ ترمذی 1502:”صلح حدیبیہ کے موقعہ پر بھی حضور ﷺ نے ایک اونٹ بھی 7 لوگوں کی طرف سے اور ایک گائے بھی 7 لوگوں کی طرف سے ذبح کی“ لیکن ایک بکرا فیملی کی طرف سے نہیں کیا۔
اہلحدیث کا موقف ہے کہ ابوداود 2810میں ہے کہ حضور ﷺ ایک بکرا اپنی طرف سے کرتے اور ایک بکرا اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے کرتے جنہوں نے قربانی نہیں کی۔ ابن ماجہ 3122:حضور ﷺ ایک مینڈھا اپنی امت کے ان لوگوں کے لئے ذبح فرماتے جنہوں نے اللہ کے لئے توحید کی گواہی دی اور دوسرا خود اپنی جانب سے اور اپنی آل پاک کی جانب سے ذبح فرماتے۔
ترمذی 1505: ایک شخص کے سوال کے جواب میں کہ حضور ﷺ کے دور میں قربانیاں کیسی ہوتی تھیں تو حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مرد اپنی اور اپنے گھر والوں کی جانب سے بکری قربانی کرتا۔۔ یہاں تک کہ لوگ فخر کرنے لگے پھر بات ایسی ہو گئی جو تم دیکھ رہے ہو۔
اہلسنت کی تشریح: ابن ماجہ 2810 اور ترمذی 1505 کی شرح میں لکھا ہے کہ تمام امت کی جانب سے ایک جانور ذبح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی امت کو ثواب میں شریک فرمایا ورنہ کسی ایک حدیث میں یہ نہیں لکھا کہ ایک بکرے میں 7 حصے ہوتے ہیں جیسے ابوداود 2807 میں ہے کہ گائے اور اونٹ میں 7حصے ہوتے ۔ امام نووی نے بھی فرمایا علماء کا اتفاق ہے کہ ایک بکرے کی قربانی میں شرکت درست نہیں ہے۔
فائدہ: تمام امت سے سوال ہے کہ ہر مرد و عورت کا اپنی اپنی قربانی کی عبادت ادا کرنے کا فائدہ ہے یا نقصان ہے۔ اگر اہلحدیث کے دلائل مان لئے جاتے ہیں تو گھر کے کئی صاحب استطاعت افراد قربانی سے محروم رہ جاتے ہیں۔
سوال: البتہ اہلحدیث حضرات سے صحیح اور ضعیف احادیث پر کوئی بحث نہیں۔ صرف ایک سوال ہے کہ جس امام کی صحیح احادیث میں تقلید کو اتباع رسول کہتے ہیں اُس ”امام“ کا نام بتا دیں کیونکہ حضور ﷺ کا مقلد کوئی نہیں ہے اور ان کی اتباع صحابہ کرام نے کی ہے باقی سب کتابوں اور علماء پر ہیں۔
اختلاف: اصل اختلاف سعودی عرب کا خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے ساتھ ہے جنہوں نے پیری مریدی، دم درود، تعویذ دحاگے، تقلید، میلاد، عرس، ایصال ثواب وغیرہ کو قانون شکل دی۔ سعودی عرب کے وہابی علماء (غیر مقلد، اہلحدیث سلفی توحیدی، محمدی یہ سب ایک ہیں) بلکہ دیوبندی بھی خلافت عثمانیہ والوں کو بدعتی و مشرک کہہ رہے ہیں یعنی اپنے اکابر کو بدعتی و مشرک کہہ رہے ہیں حالانکہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کف ریہ عبارتیں ہیں باقی اختلاف نہیں ہے۔
حل:اتحاد امت کے لئے ان پانچ سوالوں کے جواب دیوبندی اور بریلوی علماء ملکر عوام کو دیں (1) بریلوی اور دیوبندی بننا لازمی ہے یا اہلسنت بننا لازمی ہے اور اہلسنت کیا خلافت عثمانیہ والے نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا (2) دیوبندی اور وہابی میں کیا فرق ہے؟ (3)بریلوی اور دیوبندی کا اصولی اختلاف کیا ہے؟ (4) دیوبندی اور بریلوی کو اکٹھا کرنے کی تجاویز کیا ہیں؟ (5) دیوبندی اور بریلوی کے عقائد کونسے ہیں؟
اہلحدیث حضرات محمد بن عبدالوہاب کے مقلد ہیں جن کی تقلید کو رسول اللہ ﷺ کی اتباع قرار دیتے ہیں حالانکہ تقلید کو خلاف شرع، حرام، بدعت و شرک بھی قرار دیتے ہیں یہی اختلاف ہے۔
اہلتشیع ختم نبو ت کے منکر اسطرح ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے کا حُکم ہے اور اتباع اُس کی کی جاتی ہے جس سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا۔ باقی صحابہ کرام اور اہلبیت معصوم نہیں ہیں۔ حضور ﷺ کی تمام زندگی کا مطالعہ کرنے والے صحابہ کرام اور اہلبیت ہیں اور ان سب سے حضور ﷺ کی احادیث بیان ہوئیں مگر اہلتشیع 124000کو چھوڑ کر اہلبیت سے علم حاصل کرنے کے داعی ہیں۔
سوال:حضرات امام علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم نے کب آیت مباہلہ، حدیث کساء سُنا کر کہا کہ ہم معصوم ہیں اور حدیث غدیر خُم کا اعلان کرو کیونکہ امامت ہماری ہے حضرات ابوبکر، عمر و عثمان رضی اللہ عنھم غلط ہیں۔ اگر اعلان کیا ہے تو بتا دیں ورنہ جھوٹا کون؟ صرف بے دین اہلتشیع جھوٹا ہے جس کا تعلق رسول اللہ ﷺ کے دین سے نہیں ہے۔