حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ (میاں بیوی)

حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ (میاں بیوی)

1۔ سورہ العنکبوت آیت 26 فَـَٔامَنَ لَهُۥ لُوطٌ ۘ وَقَالَ إِنِّى مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّىٓ” لوط اُن پر ایمان لایا اور کہا اُس (ابراہیم) نے میں اب اللہ کے لئے ہجرت کرنے لگا ہوں“۔

نار نمرود کے وقت میں حضرت سارہ رضی اللہ عنھا اور حضرت لوط علیہ اسلام صرف آپ پر ایمان رکھتے تھے۔ اسلئے بابل شہرسے نمرود کے مقابلے کے بعد جب ہجرت کرنا پڑی تو دونوں آپ کے ساتھ تھے۔

2۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام جب مصر پہنچے تو وہاں کا فرعون بادشاہ عمرو بن امرتی القیس تھا جو عورتوں کا رسیا تھا، اسلئے اُس کو علم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے ساتھ خوبصورت عورت حضرت سارہ رضی اللہ عنھا ہیں تو دربار میں طلب کیا۔ حضرت سارہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دینی بھائی بتایا۔ اُس بد کردار نے حضرت سارہ علیہ السلام کی طرف بُری نظر کی تو آپ کی بد دُعا سے اُسے فالج ہو گیا۔ آخر کار اُس نے توبہ کی اور حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا کو خادمہ (جو اُس کی بیٹی تھی یا لونڈی) کے طور پر اُن کے ساتھ کیا اور معافی مانگی۔ 

3۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ اسلام فلسطین میں مقیم ہوئے، حضرت سارہ علیہ السلام کی کوئی اولاد نہیں تھی تو انہوں نے حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا سے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا نکاح کر دیا۔ حضرت حاجرہ رضی اللہ عنھا کے گھر میں حضرت اسماعیل علیہ اسلام پیدا ہوئے۔

4۔ سورہ ہود 71 سے 73 میں ہے کہ :اور ان کی بیوی (وہاں) کھڑی تھی تو وہ ہنسنے لگی تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی۔ کہنے لگیں: ہائے تعجب!کیا میرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا حالانکہ میں تو بوڑھی ہوں اور یہ میرے شوہر بھی بہت زیادہ عمر کے ہیں۔ بیشک یہ بڑی عجیب بات ہے۔ فرشتوں نے کہا: کیا تم اللہ کے کام پر تعجب کرتی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ بیشک وہی سب خوبیوں والا، عزت والاہے۔

5۔ حضرت سارہ رضی اللہ عنھا کے گھر میں حضرت اسحاق علیہ اسلام پیدا ہوئے۔ اسلئے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی اولاد سے باقی سب انبیاء کرام پیدا ہوئے جن کا تذکرہ قرآن مجید اور احادیث میں ملتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی چار بیویاں (1) سارہ (2) ہاجرہ (3) قطورہ (4) حجون تھیں (الکامل جلد 1صفحہ 123) تھیں جن سے آپ نے نکاح کئے۔

6۔ اسی طرح ہر مسلمان قرآن و سنت پر ایک ہے البتہ اہلتشیع کا دین اسلام نہیں ہے کیونکہ وہ اہلبیت اور صحابہ کرام کے دین کو الگ الگ مانتے ہیں حالانکہ دین ایک ہے۔ حضور نے اگر صرف مولا علی کو علم دیا تو باقی جتنے صحابہ تھے کیا وہ جاہل تھے۔اہلتشیع خود مسلمان ہی نہیں ہیں کیونکہ یہ خود نہیں بتاتے کہ ان کی احادیث حضور ﷺ کی ہیں یا کسی اور نے گھڑی ہیں۔ منگھڑت دین ہے اہلتشیع۔

7۔ دیوبندی اور بریلوی ایک ہیں مگر دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ہے۔ عوام اگر دیوبندی اور بریلوی علماء کو اکٹھا کر کے یہ پانچ سوال پوچھ لے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات سعودی عرب اور اہلحدیث حضرات کو گوارہ نہیں ہو گا کیونکہ عرس میلاد تقلید کو بدعت و شرک کہنے والے سعودی عرب کے وہابی علماء ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے 600سالہ اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کہا۔ عوام کو اپنا رول ادا کرنا ہو گا اور اپنی نسلوں کو سمجھانا ہو گا۔

پانچ سوال: اتحاد امت کے لئے ان پانچ سوالوں کے جواب دیوبندی اور بریلوی علماء ملکر عوام کو دیں (۱) بریلوی اور دیوبندی بننا لازمی ہے یا اہلسنت بننالازمی ہے اور اہلسنت کیا خلافت عثمانیہ والے نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا (۲)بریلوی اور دیوبندی کا اصولی اختلافکیا ہے؟ (۳) دیوبندی اور بریلوی کو اکٹھا کرنے کی تجاویز کیا ہیں؟(۴) دیوبندی اور بریلوی کے عقائد کونسے ہیں؟ (۵) دیوبندی اور وہابی میں کیا فرق ہے؟۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general