Hadein or Tazezain (حد یں اور تعز یر یں)

حد یں اور تعز یر یں

اللہ کریم نے مسلمانوں کو ایک قانون میں رہنے کا حُکم دیا ہے اور اگر کوئی قانون توڑے تو اُس پر سزا بھی رکھی ہے اور اس سزا پر عمل درآمد کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کی حد و د میں سے کسی ح د کا نافذ کرنا اللہ تعالی کی زمین پر چالیس راتیں بارش ہونے سے بہتر ہے۔ (ابن ماجہ 2537)

حد و د: وہ سزا جس کا قرآن میں ذکر ہے اور اُس حُکم پر نبی کریم ﷺ نے قانون توڑنے والوں کو سزا دی۔اسلئے ہر حاکم وقت اس سزا میں کمی و بیشی نہیں کر سکتا، اس کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کر سکتا بلکہ اس کو نافذ کرنے میں سب کی بھلائی ہے۔

اللہ تعالی ہر گناہ معاف کر سکتا ہے مگر ہر گناہ پر پکڑ بھی کر سکتا ہے۔ دنیا میں توبہ کی قبولیت کی صرف ایک نشانی ہے کہ جب اللہ کریم کسی کی توبہ قبول کر لیتا ہے تو اُس کو رسول اللہ ﷺ کی محبت عطا کر دیتا ہے اور فرماتا ہے جا تجھے بخش دیا۔
ایک گناہ چھوٹنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پرہیزگار ہو گئے بلکہ ہر گناہ چُھوٹ جانے کا مطلب ہے کہ ہم فرمانبردار ہو گئے۔ البتہ دنیا میں اگر کوئی گناہ کرتے پکڑا جائے تو اُس پر حد لاگو کرنا ضروری ہے۔
ابن ماجہ 2537: "اللہ تعالی کی حد و د میں سے کسی ح د کا نافذ کرنا اللہ تعالی کی زمین پر چالیس راتیں بارش ہونے سے بہتر ہے”۔
سزائیں
1۔ کچھ سزائیں بندوں کے اختیار میں ہیں جن کو کفارہ کہا جاتا ہے جیس قسم کا کفارہ، منت کا کفارہ، روزہ توڑنے کا کفارہ۔
2۔ وہ حد جو قرآن اور رسول کے فرمان سے ثابت ہیں ان میں قانون سازی نہیں ہے جیسے چو ری ، ز نا ، اور شر ا بی کی سزائیں
3۔ وہ تعزیرجنہیں متعین نہیں کیا مگر ہر برائی کو جرم قرار دے کر حاکم وقت خود سزا متعین کر سکتا ہے

سزائیں:جان بوجھ کرمار دینے (ق ت ل) پرسورہ بقرہ، غلطی سے مر (ق ت ل)جانے کی سورہ نساء، ڈ اکہ ز نی کی سورہ المائدہ، چو ری کی سورہ المائدہ، ز نا کی سورہ النور میں، بچو ں کے ساتھ یا مر د کی مر د کے ساتھ غلط کا ری کی سورہ النساء، کسی پر تہمت لگانے کی سورہ النور اور د ین سے پھر جانے کی سورہ البقرہ اور سورہ الاعراف میں سزا ؤں کا ذکر ہے۔

غلط کاری (ز نا) کی سزا
1۔اللہ کریم شرک کے سوا سب گناہوں کو معاف کر دے گا، اسلئے اللہ کریم سے معافی مانگنی چاہئے اور کوئی غلط کام نہیں کرنا چاہئے، دوسری طرف ایک دوسرے کے عیبوں پر پردہ ڈالنا چاہئے۔ ابوداود 4946 جو مسلمانوں کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا، اللہ کریم آخرت میں اس کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا۔
2۔ سب سے پہلے ز نا کا ری کو روکنے کے لئے سورہ نساء میں آیا کہ اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی بد کا ری کرے تو اپنوں میں سے چار مرد گواہ لاؤ، پھر اگر وہ چار مرد گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید کر دو یہاں تک کہ ان کو موت آ جائے یا اللہ کریم ان کے لئے کوئی راہ کھول دے۔
3۔ ابو داود 4414 – 15:”حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کریم نے گھر میں قید رکھنے والیوں کے لئے راستہ کھول دیا ہے۔ اب کنوارا کنواری کے ساتھ ز نا کرے تو 100 کوڑ وں اور ایک سا ل کی جلا و طنی کی سزا ہے اور شادی شدہ عورت کے ساتھ مرد ز نا کرے تو تو 100 کوڑ وں اور ر جم (سنگ س اری) کی سزا ہے“۔ اسلئے امام چاہے تو 100 کوڑ ے لگا کر ر جم کرے یا اس کے بغیر سنگ سا ر کروا دے۔
4۔ سورہ نور آیت 2 میں ہے کہ بدکاری کرنے والی عورت اور مرد کو بغیر ترس کھائے اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہوئے 100 دُرّ ے عوام کے سامنے کھلم کھلا مارے جائیں۔ یہ وہ عورت اور مرد ہوں گے جنہوں نے نکاح نہیں کیا اور اگر شادی شُدہ ہوں تو ان کو ر جم کیا جائے گا۔
5۔ بخاری 4829، 4830: سیدنا عمر فاروق فرماتے ہیں کہ زمانہ گذر جانے پر کہنے والے کہیں گے میں کتاب اللہ میں ر جم کا حُکم نہیں پاتا اور لوگوں کو گمراہ کرے گا حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے ز نا کرنے والے کو ر جم کروایا ہے اور ہم نے حضور ﷺ کے بعد بھی ایسی سزا دی ہے۔ بخاری 5270 حضور ﷺ کے پاس مَاعِز صحابی آئے، چار دفعہ ز نا کرنے کا اقرار کیا تو حضور ﷺ نے ان کو سنگ سا ر کروایا۔
6۔ ابن ماجہ 4440: ایک عورت نے اعتراف کیا تو آپ ﷺ نے اس کے کپڑے باندھ دئے، اس کو ر جم کیا گیا پھر نماز جنازہ بھی ادا کی گئی۔ صحیح بخاری 6148: نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی جوڑے کو ر جم کی سزا دی۔ ابو داود 4447: حضور ﷺ نے دیکھا کہ ایک یہودی کا منہ کالا کیا گیا ہے اور اس کو ز نا کرنے پر 100کو ڑے لگائے گئے۔ حضور ﷺ نے یہودی علماء سے قسم دے کر پوچھا کہ کیا تورات میں یہی سزا ہے، اُس نے کہا اگر آپ نے مجھے قسم نہ دی ہوتی تو سچ نہ بتاتا۔ ہمارے معزز ایسا کام کریں تو اسے چھوڑ دیتے ہیں اور معمولی پر حد لگاتے ہیں۔ پھر حضور ﷺ کے حکم پر اس کو ر جم کیا گیا۔
7۔ صحیح بخاری 5319: حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں گواہوں کے بغیر کسی کو ر جم کرتا تو فلاں عورت کو کرتا کیونکہ اس کا ز نا کرنا ظاہر ہے۔صحیح بخاری 2695: ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرا بیٹا اس کے ہاں مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی کے ساتھ غلط کاری کی ہے، میں نے اس کے جرم کے بدلے میں 100بکریاں اور ایک باندی دے دی ہے لیکن آپ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کر دیں تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ مال تجھے واپس مل جائے گا لیکن تیرے بیٹے کو 100 در ے اور ایک سال کے لئے جلا و طن کیا جائے گا۔
8۔ صحیح بخاری 2315۔ حضور ﷺ نے اس عورت کے پاس ایک صحابی کو بھیجا کہ تمہارے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ تم نے اس لڑکے سے غلط کاری کی ہے تو کیا تم اقرار کرتی ہے یا بہتان کا کیس اس کے خلاف کرنا چاہتی ہو۔ اس عورت نے اقرار کیا اور اس کو ر جم کر دیا گیا۔
بہتان اور ایمان (حد قذ ف)
غیبت، چغلی، بہتان زبان کے وہ چسکے ہیں جس میں ہر عورت اور مرد ملوث ہے اور زبان کے ان چسکوں کی وجہ سے کل قیامت والے دن ہمارے نیک اعمال اُن کو دئے جائیں گے جن کے کردار کو داغدار کرنے کے لئے غیبت، چغلی اور بہتان کرتے ہیں۔ البتہ حد ز نا کے ساتھ قذف (بہتان) پر بھی اللہ کریم نے 80 در وں کی حد لگانے کا حُکم دیا ہے:
سورہ نور کی آیات 4 اور 5 میں جو پارسا عورتوں پر الزام ( زا نیہ، یہ کسی سے خراب ہے، Ta xiوغیرہ)، لگانے کے بعد چار گواہ نہ لائیں، ان کو 80 کوڑ ے لگاؤ، ان کی گواہی پھر ساری زندگی نہ مانو، یہی فاسق ہیں مگر جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور ٹھیک ہو جائیں تو بے شک اللہ کریم بخشنے والا اور مہربان ہے۔
اسلئے عام عوام نہ بھی بدلے مگر اُس کو یہ تعلیم دینی چاہئے کہ 4 گواہوں کے بغیر جو بھی شخص کسی نیک مرد و عورت کو واضح طور پر صاف لفظوں میں زا نی کہے تو 80 دُر ے کی حد واجب ہو جاتی ہے اور ایسے لوگ کسی بھی عدالت میں گواہی دینے کے قابل بھی نہیں رہتے۔ البتہ یہ حد اُس وقت لگے گی جس وقت جس پر بہتان لگا ہے اُس کا مطالبہ قاضی سے ہو ورنہ قاضی خود بخود حد نہیں لگائے گا۔
لعان: اس کے علاوہ سور نور 8، 9، 10 میں ہے کہ جو اپنی بیوی پر بھی 4 گواہوں کے بغیر الزام لگائے تو لعا ن کرے یعنی چار بار سب کے سامنے کہے کہ اللہ کے نام سے کہتا ہوں میں سچا ہوں اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اللہ کی لعنت ہو اگر جھوٹا ہوں۔ اسیطرح عورت چار مرتبہ کہے کہ مرد جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ مجھ پر اللہ کریم کا غصب ہو اگر میرا مرد سچا ہو۔ اس کے بعد دونوں میاں بیوی میں جدائی کروا دی جائے گی۔ لعان کرنے کا پورا واقعہ بخاری 4747 اور 4748 میں ہے۔
سیدہ عائشہ پر ”افک“ یعنی بہت بڑا جھوٹ بہتان باندھا گیا جس میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا سب سے بڑا ہاتھ تھا (صحیح بخاری 4749) اس کے ساتھ ساتھ چند صحابہ بھی اس پراپیگنڈا کے زیر اثر آ گئے جس کی تفصیل بخاری 4750 میں موجود ہے۔ اللہ کریم نے سورہ نور کی تقریباً 17 آیات سیدہ عائشہ کے حق میں نازل فرمائیں اور بہتان لگانے کی سزا دے کر ان کی توبہ قبول ہوئی مگر منافق عبداللہ بن ابی کو آخرت میں سزا کے لئے چھوڑ دیا گیا۔
چور کی سزا
1۔ سورہ مائدہ آیت نمبر 38 میں اللہ کریم فرماتا ہے ”جو مرد یا عورت چو ر ہو تو اللہ کی طرف سے سز ا کے طور پر ان کی چو ری کی وجہ سے ان کے ہا تھ کا ٹ دو اور اللہ کریم غالب حکمت والا ہے“۔ سنن نسائی 4874: کوئی شخص ایمان رکھتے ہوئے ز نا نہیں کرتا، کوئی شخص ایمان رکھتے ہوئے چوری نہیں کرتا، کوئی شخص ایمان رکھتے ہوئے شر اب نہیں پیتا۔۔۔
2۔ نسائی 4876 ”جب وہ یہ کام کرتا ہے تو وہ اپنے گلے سے اسلام کا (قلا وہ) پٹہ اتار دیتا ہے یعنی بے ایمان ہو جاتا ہے (اُس وقت وہ بے ایمان ہوتا ہے) نسائی 4874 البتہ پھر بھی وہ توبہ کرتا ہے تو اللہ کریم اس کی توبہ قبول کرتا ہے کیونکہ توبہ کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ (صحیح بخاری 2648 حضور ﷺ نے فتح مکہ پر ایک عورت کا ہاتھ چو ری کی وجہ سے کا ٹ دیا تھا اور اس نے توبہ کر لی اور نکاح بھی کر لیا اور جب کبھی آتی تو میں اس کی ضرورت حضور ﷺ کے سامنے پیش کر دیتی”۔ اسلئے ہر ایک گنا ہ گاری کی توبہ قبول ہونے کے بعد گواہی قبول ہے۔
3۔ سَرِ قہ یعنی چو ری کا لغوی معنی ہے خفیہ طریقے سے کسی اور کی چیز اُٹھا لینا اور شرعی تعریف یہ ہے کہ عاقل بالغ شخص کا کسی ایسی محفوظ جگہ سے کہ جس کی حفاظت کا انتظام کیا گیا ہو، دس درہم (2.75تولہ چاندی کے برابر رقم تقریباً 4648 روپے) کی مالیت کی چیز کسی شبہ و تاویل کے بغیر اُٹھا لینا۔ نسائی 4877: حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی کی لعنت نازل ہو چو ری کرنے والے پر، انڈا چر اتا ہے تو اس کا ہاتھ کا ٹا جاتا ہے اور رسی چر اتا ہے تو ہاتھ کا ٹا جاتا ہے۔
4۔ اگر چو ر خود اقرار کر لے کہ میں نے چو ری کی ہے تو اس کا ہاتھ کا ٹا جائے گا۔ سنن نسائی 4881: حضور ﷺ کے سامنے ایک چو ر کو لایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے نہیں لگتا کہ تم نے چو ری کی ہے، اُس نے کہا کہ نہیں میں نے چو ری کی ہے تو آپ ﷺ نے اُس کا ہاتھ کا ٹنے کا حُکم دیا۔ اسی طرح دو مرد گواہی دیں کہ اس بندے نے چو ری کی ہے اور قاضی گواہوں سے سوال و جواب کرے گا کہ کسطرح چوری کی، کہاں کی، کتنے کی کی اور کس چیز کی کی اور پھر فیصلہ دے گا۔
5۔ حد ود کے کیس میں قاضی سفارش نہیں مان سکتا جیسے صحیح بخاری 3475: سیدنا اسامہ نے ایک مخزومہ عورت (فاطمہ بنت اسود) جس نے چوری کی، اس کی سفارش کی تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ تو اللہ کی حد ود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چو ری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔
سوچ: اگر آج چو ر نہیں پکڑا جاتا تو غم نہ کھا، اسلئے کہ چو ری کے مال سے مسجد بنانے والے کو ثواب نہیں ہوتا بلکہ جس کا مال لگ رہا ہوتا ہے اُس کو ثواب مل رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی کے مال سے پالنے والے کو ثواب نہیں ہے۔ اسلئے عوام کا مال چر انے والا عذاب میں ہی رہے گا اور جہاں لگائے گا ثواب جس کا مال ہے اس کو ملے گا۔
فقہ: کتنا ہاتھ کاٹنا ہے اور کیسے کاٹنا ہے، باربار چو ری کرے تو پھر کیا کرنا ہے یہ سب فقہ کے مسائل ہیں جو قرآن و سنت میں ہیں، یہاں بیان یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
نتیجہ: 5000 روپیہ کہیں سے چو ری کی نیت سے اُٹھایا حد لگی یا نہ لگی لیکن سمجھ لو جو آج بگھت گیا وہ بچ گیا اور جس نے آج سزا نہ پائی کل وہ قیامت والے دن پائے گا لیکن اگر وہ توبہ کر لے جس جس کا مال چرایا ہے اُس کا واپس کر دے یا اُسے اللہ کی راہ پر لگا کر کہے کہ یا اللہ اس کا ثواب اُس کو جس کا ہے۔
شر ا بی کی سز ا
1۔ شر ا بی پر قرآن مجید میں کوئی حد نہیں لگائی بلکہ اس کی سز ا حضور ﷺ کے فرمان سے ملتی ہے۔ حضور ﷺ جب مبعوث ہوئے تو بت پرستی، شر ا ب، جو ا، ز نا، سو د وغیرہ میں انسانیت غرق تھی۔
2۔ شر ا ب کے احکام آہستہ آہستہ نازل ہوئے، سورہ بقرہ 219 میں یہ فرمایا گیا کہ شر ا ب (خمر و میسر) میں دنیاوی فائدہ ہوتا ہے مگر اس کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے۔ سورہ نساء 43 میں فرمایا: اے ایماندارو جب تم نش ے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔ سورہ مائدہ 90 میں فرمایا شر ا ب، جو ا، بت اور پانسے یہ سب ناپاک شیطانی اعمال ہیں۔ کیا تم ان سب بُرے اعمال سے بعض یعنی رُکو گے؟
بخاری 4344: ہر نشہ آور شے خم ر ہے اور ہر خ مر حرام ہے۔ بخاری 242 و مسلم 2001 جو بھی مشروب عقل کو ڈھانپ لے وہ حر ام ہے۔ ابوداود 3581: ہر وہ شے جس کی زیادہ مقدار عقل کو ڈھانپ لےاس کی معمولی مقدار بھی حرا م ہے۔ بخاری 4619: جو شے عقل کو ڈھانپ لے اس کا نام خ مر ہے۔صحیح مسلم 5141 خ مر دوا نہیں بلکہ داء (بیماری) ہے۔ ابوداود 3870: اللہ تعالی نے تمہارے لئے اس شے میں شفا نہیں رکھی جو حرا م ہے۔
ابوداود 4485 جو شر ا ب پئے اس کو کو ڑے لگاؤ۔ مسلم 1707: 80کو ڑے شر ا بی کی سز ا ہے۔ شر ا ب کی سز ا تب جب مجرم خود اقرار کر لے یا دو معتبر آدمیوں کی شہادت مل جائے۔ ابوداود 3674: بے شک اللہ تعالی نے شر ا ب، اس کو کشید کرنے والے، جس کے لئے کشید کی گئی، اسے پینے والے، پلانے والے، اسے اٹھانے والے، جس کے لئے اٹھائی گئی ہو، اسے بیچنے والے، خریدنے والے اور اس کی قیمت کھانے والے (سب)پر لع نت کی ہے۔ ابن ماجہ 4020: شر ا ب کا نام بدل کر پینے والوں کو بندر اور سور بنایا جائے گا اور زمین میں دھنسایا جائے گا۔
بخاری 2464: جب حضور ﷺ نے شر ا ب کو حرام قرار دیا اور مدینہ پاک کی گلیوں میں شر ا ب بہہ رہی تھی۔ سب نے اپنے اوپر حرا م کر لی۔ بخاری 4003 شر ا ب میں جانور ذبح کر دئے۔ بخاری 3394 و صحیح مسلم 168معراج کی رات شر ا ب نہیں دودھ پسند کیا۔ بخاری 80: قیامت کے قریب شر ا ب عام ہو گی۔بخاری 2475: شر ا ب پیتے وقت ایمان نکل جاتا ہے۔بخاری 2316، 6780: شر ا بی کو کوڑوں، جوتوں اور چھڑیوں سے مارا جاتا۔ ترمذی 2801: اس دستر خوان پر بھی بیٹھنا حرام جس پر شر ا ب ہو۔ ابوداود 3680 : شر ا ب پینے والے کی 40 روز تک نماز قبول نہیں۔ (یہ پڑھکر بھی نماز پڑھتے رہنا کیونکہ نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے)۔
3۔ سنن ترمذی 1444میں حضور ﷺ نے درے لگانے کا حُکم دیا مگر قتل نہیں کیا جا سکتا۔ بخاری 6773 میں ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں شر ا بی کو چھڑیوں اور جوتوں سے مارا اور سیدنا ابوبکر کے زمانے میں 40 کوڑے مارے۔ البتہ سیدنا عمر فاروق کے دور میں آزاد شخص کے لئے شر ا ب پینے کی سز ا 80 کو ڑے مقرر کی گئی اور اس پر اجماع ہے۔
4۔ یہ بھی اُس صورت میں ہے کہ جب شر ا بی خود اقرار کر لے یا اس کے شر ا ب پینے پر دو گواہ ہوں۔ اسلئے سیدنا عمر فاروق نے اپنے بیٹے عبید اللہ پر شر ا ب کی حد لگائی۔ (مصنف عبد الرزاق) البتہ کسی بھی مستند کتاب میں بھی یہ نہیں آتا کہ حضرات ابوبکر، عمر و عثمان رضی اللہ عنھم نے شر ا ب پی ہو۔
معافی: حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم آپس میں اپنے معاملات میں ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو اس سے پہلے کہ ان کی خبر مجھ تک پہنچے، ہاں اگر اطلاع مجھ تک پہنچ جائے اور وہ ثابت ہو جائے تو پھر اس پر حد جاری کرنا فرض ہو جائے گا“۔
نتیجہ: حد حقوق اللہ سے ہیں جس میں کسی بندے کو تصرف (ترمیم و تبدیلی) کی اجازت نہیں جبکہ تعز یرات حقوق العباد میں سے ہے جس میں معافی، تبدیلی، زیادتی اور کمی کی جا سکتی ہے جیسے قت ل کا بدلہ قت ل ہے مگر اپنے اختیار سے مجرم کو معاف کر سکتا ہے، اسلئے اس کو بھی حد نہیں کہا جا سکتا۔ اسلئے قصا ص و ح د کے درمیان فرق یہ ہے کہ قصا ص میں مقتول کے والی قاتل کو معاف کریں تو حاکم کو سزا نافذ نہیں کرنی جبکہ حد ود (ز نا) میں معاملہ حاکم کے پاس پہنچ جائے تو سچ ثابت ہونے کے بعد حاکم پر نافذ کرنا لازم ہے۔
تعز یر: البتہ کچھ سز ا ئیں ایسی ہیں جس میں حکومت کو قانون سازی کا حق بھی حاصل ہے مگر اس دائرے میں رہتے ہوئے جو شریعت نے متعین کر رکھا ہے، اس طرح کی سزا شریعت میں ”تعز یر“ کہلاتی ہے۔اسلئے تعز یر ات ہند، تعز یر ات پاکستان جیسی کتابوں میں ہر قسم کے جرائم اور ہر طرح کی سزاؤں کا ذکر ہے۔
مثال: صحیح بخاری 6778: سیدنا علی فرماتے ہیں کہ جس شخص پر ح د (سز ا) قائم کروں اور وہ مر جائے تو مجھے رنج نہ ہو گا لیکن شر ا ب پینے والے کو سزا دوں اور وہ مر جائے تو میں اس کی دیت دوں گا کیونکہ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے کوئی ح د مقرر نہیں فرمائی تھی۔
فائدہ: یہ سز ا ئیں بندوں کو گناہوں میں مبتلا ہونے سے روکتی ہیں اور ان کا خوف انسان اور جرم کے درمیان حائل رہتا ہے۔اگر اس قانون پر عمل نہ کیا جائے تو خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے فساد پھیل جاتا ہے۔
تجزیاتی رپورٹ
1۔ انبیاء کرام کا یہ کہنا کہ ربنا ظلمنا انفسنا یا لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین یا اللہ کریم کا فرمانا عبس وتولی ایسی تمام آیات اللہ کریم اور انبیاء کرام کے درمیان معاملات ہیں جس پر عوام نے خاموش رہنا ہے اور ان آیات کی وجہ سے کسی بھی نبی کو نعوذ باللہ ظالم نہیں کہنا۔
2۔ حضور ﷺ نے صحابہ کرام کی تربیت کے لئے جو فرمایا اور جن پر حد لاگو کیں وہ بھی جنتی ہیں اور ہمارے لئے یہ قانون بننے تھے بن گئے مگر ہم ان صحابہ کرام کو عادل ہی کہیں گے کیونکہ اللہ کریم نے ان سے جنت کا وعدہ کر لیا ہوا ہے۔ (الحدید 10)
3۔ حضور ﷺ کے بعد حضرات ابوبکر، عمر، عثمان، علی، عائشہ، حسن اور امیر معاویہ رضی اللہ عنھم کا دور امتحانی دور تھا، اُس میں ہر صحابی نے قرآن و سنت کے مطابق اجتہاد کیا کیونکہ دین ایک تھا۔ اسلئے ان مسائل پر بھی ہم خاموش ہیں، اگر صحابہ اور اہلبیت کے درمیان فرق کریں گے تو قرآن و سنت کی لڑائی شروع ہو جائے گی۔
4۔ عقائد اہلسنت میں سب سے پہلے درجہ توحید، دوسرا رسالت، تیسرا تمام انبیاء کرام، چوتھا تمام مقرب فرشتے، پانچواں صحابہ کرام اور اہلبیت، چھٹا چاروں خلفاء کرام اور عشرہ مبشرہ، ساتواں امامت ابوبکر، آٹھواں مشاجرات صحابہ، نواں ضروریات دین اور دسواں شریعت و طریقت کے قانون کا ہے۔

تعز یر: البتہ کچھ سز ا ئیں ایسی ہیں جس میں حکومت کو قانون سازی کا حق بھی حاصل ہے مگر اس دائرے میں رہتے ہوئے جو شریعت نے متعین کر رکھا ہے، اس طرح کی سزا شریعت میں ”تعز یر“ کہلاتی ہے۔اسلئے تعز یر ات ہند، تعز یر ات پاکستان جیسی کتابوں میں ہر قسم کے جرائم اور ہر طرح کی سزاؤں کا ذکر ہے۔

مثال: صحیح بخاری 6778: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص پر ح د (سز ا) قائم کروں اور وہ مر جائے تو مجھے رنج نہ ہو گا لیکن شر ا ب پینے والے کو سزا دوں اور وہ مر جائے تو میں اس کی دیت دوں گا کیونکہ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے کوئی ح د مقرر نہیں فرمائی تھی۔

فائدہ: یہ سز ا ئیں بندوں کو گناہوں میں مبتلا ہونے سے روکتی ہیں اور ان کا خوف انسان اور جرم کے درمیان حائل رہتا ہے۔اگر اس قانون پر عمل نہ کیا جائے تو خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے فساد پھیل جاتا ہے۔

معافی: حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم آپس میں اپنے معاملات میں ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو اس سے پہلے کہ ان کی خبر مجھ تک پہنچے، ہاں اگر اطلاع مجھ تک پہنچ جائے اور وہ ثابت ہو جائے تو پھر اس پر حد جاری کرنا فرض ہو جائے گا“۔

نتیجہ: ح د حقوق اللہ سے ہیں جس میں کسی بندے کو تصرف (ترمیم و تبدیلی) کی اجازت نہیں جبکہ تعز یرات حقوق العباد میں سے ہے جس میں معافی، تبدیلی، زیادتی اور کمی کی جا سکتی ہے جیسے قت ل کا بدلہ قت ل ہے مگر اپنے اختیار سے مجرم کو معاف کر سکتا ہے، اسلئے اس کو بھی حد نہیں کہا جا سکتا۔ اسلئے قصا ص و ح د کے درمیان فرق یہ ہے کہ قصا ص میں مقتول کے والی قاتل کو معاف کریں تو حاکم کو سزا نافذ نہیں کرنی جبکہ حد ود (ز نا) میں معاملہ حاکم کے پاس پہنچ جائے تو سچ ثابت ہونے کے بعد حاکم پر نافذ کرنا لازم ہے۔

تحقیق: ہم سب مسلمان ہیں اور جس کو مسلمان کا درد نہیں وہ مسلمان نہیں۔ اللہ کریم کی عبادت کرتے ہیں اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، انبیاء کرام کا شیوہ ہے کہ اُمت کو اکٹھا کیا جائے، اسلئے اس پیج پر اہلتشیع، دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث حضرات کو سوال کر کے شعور دیا جا رہاہے کہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ:

ہمیں اسلام ، اہلبیت اور مولا علی کے دشمن اہلتشیع لگتے ہیں کیونکہ ایک سوال کا جواب نہیں دیتے۔ کیا صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین علیحدہ علیحدہ تھا؟ قیصر و کسری تک جو دین پہنچا وہ حضور کا دین نہیں تھا؟ اہلتشیع کا دین کونسا ہے اور کس وقت کن کتابوں سے وجود میں آیا؟

دیوبندی اور بریلوی ایک ہیں مگر دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ہے۔ عوام اگر دیوبندی اور بریلوی علماء کو اکٹھا کر کے یہ پانچ سوال پوچھ لے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات سعودی عرب اور اہلحدیث حضرات کو گوارہ نہیں ہو گا کیونکہ عرس میلاد تقلید کو بدعت و شرک کہنے والے سعودی عرب کے وہابی علماء ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کہا۔ عوام کو اپنا رول ادا کرنا ہو گا اور اپنی نسلوں کو سمجھانا ہو گا۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general