حضور ﷺ کی نماز (چوتھی قسط)
حضرت نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ) رضی اللہ عنہ 80ھ کوفہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت نعمان کا علمی سلسلہ حضرات حماد، علقمہ، فقہی صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہوتا ہوا حضورﷺ سے ملتا ہے۔ اسلئے حضرت نعمان بن ثابت رحمتہ اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی فقہ پر عمل کرتے ہیں۔ حضرت نعمان بن ثابت احادیث کی کتب صحاح ستہ (بخاری مسلم ترمذی ابن ماجہ ابوداود وغیرہ) کے دور سے پہلے کے ہیں۔ پاکستان میں اہلسنت اپنے”فقہی امام“ کی قرآن و احادیث کے مطابق تقلید کے ذریعے اتباع رسول کرتے ہیں۔
اصول: حضرت نعمان بن ثابت سب سے پہلے قرآن، پھر احادیث و سنت، اُس کے بعد ضعیف احادیث کو بھی اپنے قول سے زیادہ اہمیت دیتے، اب اس نماز میں ان کا اپنا قول ہے تو بتا دیں، اگر ضعیف احادیث ہیں تو وہ اپنے قول سے زیادہ اہمیت ضعیف احادیث کو دیتے ہیں۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق حضورﷺ نے اسطرح نماز ادا کی ہے:
حضور ﷺ کا سجدہ کا طریقہ کار
1۔ حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ آپ نے سجدہ میں جاتے ہوئے اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھا اور سجدے سے کھڑے ہوتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اُٹھایا۔ (ابن ماجہ:882)
2۔ حضرت ابن عباس سے آپ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے:مجھے سات اعضاء پر سجدہ کا حکم دیا گیا ہے: چہرہ پر اور یہ کہتے ہوئے آپ نےاپنے ہاتھ سے ناک کی جانب اِشارہ کیا ،اور دونوں ہاتھ ،گھٹنے اور پاؤں کے کناروں پر۔ (نسائی:1097) (مسلم:491)
3۔ حضرت ابو حمید ساعدی فرماتے ہیں: آپ ﷺنے سجدہ میں اپنی انگلیوں کو قبلہ رُخ رکھا ۔ (صحیح ابن خزیمہ:643)
4۔ آپﷺنے سجدہ میں اپنے پاؤں کی انگلیوں کا رُخ قبلہ کی طرف کیا۔(صحیح ابن حبان:1869)
5۔ حضرت براء بن عازب آپﷺکا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں:جب تم سجدہ کرو تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر اور کہنیوں کو اٹھا کر رکھو۔ (صحیح ابن خزیمہ:656)
6۔ حضرت ابوحمید ساعدی نبی کریمﷺکی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پھر نبی کریم ﷺنے(سجدہ میں جانے کیلئے) اللہ اکبر کہا او زمین پر سجدہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلووں سے الگ رکھا۔ (ابوداؤد:730)
7۔ حضرت ابو حمید ساعدی فرماتے ہیں:آپ ﷺنے جب سجدہ کیا تو اپنے ہاتھوں کو زمین پراِس طرح سے رکھاکہ ہاتھوں کو نہ بہت پھیلایا نہ بہت زیادہ سمیٹا۔ (صحیح ابن خزیمہ:643)
8۔ حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ ہم سےحضرت براء بن عازب نے سجدہ کا طریقہ بیان کیا، پس آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھا اور اپنی سُرین اٹھائی، پھر فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺکو ایسا ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ:646)
9۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:ایک دفعہ رات کو (میری آنکھ کھلی تو )میں نے نبی کریم ﷺکو( بستر پر) نہ پایا، میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو ٹٹولاتو میرا ہاتھ آپ ﷺکے قدموں میں لگا، آپ سجدے میں تھے اور آپ کے دونوں پاؤں سیدھے کھڑے ہوئے تھے۔ (نسائی:169)
10۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود نبی کریمﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں: جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے اور اپنے سجدہ میں تین مرتبہ یہ کہے: ”سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى“ تو اُس نے اپنا سجدہ مکمل کرلیا ، اور یہ کم سے کم مقدار ہے۔ (ترمذی:261)
11۔ نبی کریم ﷺنے ایک شخص کو نماز سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو ، پھر اطمینان کے ساتھ بیٹھو ، پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو۔ (بخاری:793)
دوسرا سجدہ: حدیثِ اعرابی میں نبی کریم ﷺنے اعرابی کو نماز سکھاتے ہوئے فرمایا:پھر تم اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو ، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان کے ساتھ سیدھے بیٹھ جاؤ، پھر اطمینان کے ساتھ دوسرا سجدہ کرو ،پھر اُٹھ جاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاؤ۔ (بخاری:6667)
سجدہ سے قیام میں جانے کا طریقہ: حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں :میں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ جب آپ نے سجدہ کیا تو اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھے اور جب آپ سجدہ سے اٹھے تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھایا ۔ (ابن ماجہ:882)
دو سجدوں کے بعد بیٹھنا نہیں(جلسہ استراحت): حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں :نبی کریمﷺنماز میں اپنے دونوں پاؤں کی انگلیوں پر زور دے کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ (ترمذی:288) حضرت ابو مالک اشعری نبی کریمﷺکی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتے ہیں: آپ ﷺنے تکبیر کہہ کر دوسرا سجدہ فرمایا پھر تکبیر کہی اور سیدھےکھڑے ہوگئے۔ (مسند احمد:22906) نبی کریم ﷺ نے ایک اعرابی کو نماز سکھاتے ہوئے فرمایا: پھر تم اطمینان کے ساتھ دوسرا سجدہ کرو، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔پھر یہی کام اپنی ساری نماز میں کرو۔ (بخاری:6667) حضرت نعمان بن عیاش فرماتے ہیں:میں نے کئی صحابہ کرام کوپایا ہے ،اُن کی حالت یہ تھی کہ جب پہلی اورتیسری رکعت میں سجدہ سے سر اٹھاتے تو سیدھا کھڑے ہوجاتے اور بیٹھتے نہ تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:3989) حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں: میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود کو نمازمیں بڑے غور سے دیکھا، میں نے دیکھا کہ وہ (سجدہ سے اٹھنے کے بعدسیدھے کھڑے ہوجاتے ہیں اور بیٹھتے نہیں ہیں۔ (مصنف عبد الرزاق:2966)
تمام رکعات کا طریقہ پہلی رکعت کی طرح ہے: حدیثِ اعرابی میں پہلی رکعت کا مکمل طریقہ سمجھانے کے بعد آپ ﷺنے دوسری تمام رکعات کے لئے اسی طریقے کو متعین کیا ،چنانچہ فرمایا:پھر یہی کام اپنی ساری نماز میں کرو۔ (بخاری:6667)
دوسری رکعت میں ثناء، تعوذ نہیں ہے: نبی کریمﷺ جب دوسری رکعت سے اٹھتے تو اَلْحَمْدُ لِلہِ سے شروع فرماتے اور (ثناء کے لئے ) خاموشی نہ فرماتے۔ (مسلم:599)
ہر دو رکعت میں قعدہ کیاجائے گا: حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:نبی کریم ﷺہر دو رکعت میں التحیات پڑھا کرتے تھے ۔(صحیح مسلم:498) حضرت فضل بن عباس نبی کریمﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں :نماز دو دو کرکے پڑھنا چاہیئے اور نماز کی ہر دو رکعت میں تشہد پڑھاجائے گا ۔(ترمذی:385)
جلسہ اور قعدہ میں بیٹھنے کا طریقہ: نماز میں بیٹھنا خواہ دو سجدوں کے درمیان ہو یا قعدہ میں، اِسی طرح پہلا قعدہ ہو یا آخری سب کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ بایاں پاؤں بچھاکر اُس پر بیٹھا جائے اور دایاں پاؤں اِس طرح سے کھڑا رکھا جائے کہ اُس کی اُنگلیاں قبلہ رُخ ہوں اور دونوں ہاتھ سامنے کی جانب دائیں بائیں ران پر ہوں۔ احادیثِ ذیل میں اِس کی تصریح ملاحظہ فرمائیں:
قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا ہوا اور دایاں کھڑا ہوا ہونا چاہیئے: حضرت عمرفرماتے ہیں: نماز کی سنت میں سے یہ ہے کہ تم اپنے بائیں پاؤں کوبچھاؤاور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھو ۔پھر فرمایا: نبی کریم ﷺجب بھی نماز میں بیٹھتے تو اپنے بائیں پاؤں کو بچھاتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کرتے۔ (صحیح ابن خزیمہ:679) حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:نبی کریمﷺنماز میں جب بیٹھتے تو اپنے بائیں پاؤں کو بچھالیتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے۔(ابوداؤد:783) حضرت ابوحمید ساعدی نبی کریمﷺکی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتے ہیں:پھر نبی کریم ﷺنے اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ سے سر اُٹھایا اور اپنے بائیں پاؤں کو موڑ کر (بچھایا اور)اُس پر بیٹھ گئے (ابوداؤد:963)
قعدہ میں دائیں پاؤں کی انگلیوں کا رُخ قبلہ کی طرف ہونا چاہیئے: حضرت ابوحمید ساعدی نبی کریمﷺکی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتے ہیں:پھر آپﷺبیٹھے اور اپنے بائیں پاؤں کو بچھایا اور دائیں پاؤں کے اگلے حصے (یعنی انگلیوں )کا رُ خ قبلہ کی طرف کیا ۔(ابوداؤد:963)
قعدہ میں دونوں ہاتھ دائیں بائیں ران پر ہونے چاہیئے: حضر ت عبد اللہ بن زبیر فرماتے ہیں :آپﷺ جب تشہد پڑھنے کے لئے بیٹھتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے۔ (مسلم:579)
تشہد کے کلمات: حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریمﷺ نےمجھے تشہد کے کلمات اس طرح سکھائے جیسے قرآن کریم کی سورت سکھاتے ہیں، اور اُس وقت میرا ہاتھ آپ کے ہاتھوں میں تھا،اور وہ تشہد کے کلمات یہ ہیں: اَلتَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، اَلسَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ۔(بخاری:6265)
قعدہ اولی میں صرف تشہد پڑھا جائے گا: حضرت عبد اللہ بن مسعود کے بارے میں آتا ہےکہ وہ نماز کے درمیان (یعنی قعدہ اولی میں) ہوتے تو تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہوجاتے اور جب نماز کے آخر(یعنی قعدہ اخیرہ میں )ہوتے تو تشہد کے بعد جتنا اللہ چاہتے، آپ دعاء کرتے، پھر سلام پھیر لیتے۔ ( ابن خزیمہ:708) حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں :تشہد کا آہستہ پڑھنا سنت ہے۔(ابوداؤد:986)
تشہد میں انگشت شہادت سے اشارہ کرنا : تشہد میں”اَشْھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“کہتے ہوئے شہادت کی انگلی کو” لَا“پراُٹھایا جاتا ہے اور ” اِلَّا“پر چھوڑ دیا جاتا ہے،بہت سی احادیث میں اس کا ثبوت ملتا ہے،اِس کی تفصیل احادیثِ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
تشہد میں انگلی سے اشارہ کا طریقہ: حضرت وائل بن حجرفرماتے ہیں:نبی کریمﷺنےدو انگلیوں( یعنی چھوٹی اور اُس سے متصل انگلی) کو بند کیا اور( درمیا نی انگلی اور انگوٹھے سے )حلقہ بنایا ، اور میں نے اُن کو اس طرح اشارہ کرتے ہوئے دیکھا ہے پھر بشر نے انگوٹھے اور درمیانی انگلی سے حلقہ بنایا اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا ۔(ابوداؤد:726)
اشارہ میں انگلی کا نہ ہلانا: حضرت عبد اللہ بن زبیر فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ جب تشہد پڑھتے تو انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور اُسے حرکت دیتے نہیں رہتے تھے۔ (ابوداؤد:989)
شہادت کی انگلی کو آخر تک بچھائے رکھنا: حضرت عاصم بن کلیب اپنے دادا( حضرت شہاب بن مجنون)سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:میں نبی کریم ﷺکے پاس داخل ہوا، آپ نماز پڑھ رہے تھے،آپ کا بایاں ہاتھ بائیں ران پر اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھا ہوا تھا، آ پ نے انگلیوں کوبند اور انگشت شہادت کو پھیلا رکھا تھا اور آپ یہ دعاء پڑھ رہے تھے: يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِيْنِكَ۔ اے دلوں کو پلٹنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطاء فرما۔ (ترمذی:3587)
درود شریف: حضرت کعب بن حجرہ فرماتے ہیں : ہم نے نبی کریم ﷺسے سوال کیا : یارسول اللہ ! ہم نے آپ پر سلام کا طریقہ تو سیکھ لیا ہے، درود کس طرح بھیجیں؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔(بخاری:3370)
حضرت عبد اللہ بن مسعود کا یہ ارشاد مروی ہے: ”يَتَشَهَّدُ الرَّجُلُ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَدْعُو لِنَفْسِهِ“۔آدمی کو چاہیے کہ تشہد پڑھے، پھر نبی کریم ﷺپر درود پڑھے، پھر اپنے لئے دعاء کرے ۔(مستدرکِ حاکم:990)
تشہد کے بعد کوئی بھی دعاء کی جاسکتی ہے: نبی کریم ﷺنے حضرت عبد اللہ بن مسعود کو تشہد کے کلمات سکھانے کے بعد فرمایا :”ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ، فَيَدْعُو“پھر تشہد کے بعد کوئی بھی پسندیدہ دعاء اختیار کر کے مانگے ۔(بخاری:835)
ایک خاص دعاء: حضرت ابو بکر صدیق نے نبی کریم ﷺسے درخواست کی : یا رسول اللہ ! مجھے ایسی دعاء بتلائیے جو میں اپنی نماز میں مانگا کروں۔ آپ ﷺنے یہ دعاء تلقین فرمائی :اَللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ۔(بخاری:6326)
سلام پھیرنا : حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں :نبی کریم ﷺنماز کو سلام پر ختم فرمایاکرتے تھے ۔(مسلم:498) حضرت عبد اللہ بن مسعودسے مَروی ہےکہ نبی کریم ﷺاپنے دائیں اور بائیں دونوں طرف’’ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ‘‘کہہ کر سلام پھیرا کرتے تھے۔ (ترمذی:295) حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں :نبی کریمﷺ اپنے دائیں اور بائیں دونوں طرف(اچھی طرح) سلام پھیرا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ ﷺکے رخسارِ انور کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔(ابوداؤد:996) حضرت عتبان بن مالک فرما تے ہیں:ہم نبی کریم ﷺکے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے اور آپ کے سلام کے ساتھ سلام پھیرا کرتے تھے۔ (بخاری:838)
نماز کے بعد دعاء: حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺسے سوال کیا گیا کہ کون سی دعاء زیادہ قبول ہوتی ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا :رات کے آخری پہراور فرض نمازوں کے بعد۔ (ترمذی:3499) حضرت عبد اللہ بن زبیرنے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز ختم ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھاکر دعاء کررہا ہے، آپ نے اُسے دیکھا تو فرمایا :نبی کریمﷺ نماز سے فارغ ہونے تک اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے۔ (طبرانی کبیر:324) حضرت سلمان نبی کریم ﷺکا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں :جب بھی کچھ لوگ اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھاکراللہ تعالی کے حضور دعاء کرتے ہیں تو اللہ تعالی اُن کے ہاتھ میں اُن کی مانگی ہوئی چیز ڈال دیتے ہیں ۔(طبرانی کبیر:6142) نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد مروی ہے کہ کوئی جماعت جو جمع ہو اور اُن میں سے بعض دعاء کریں اور دوسرے لوگ اُس دعاء پر آمین کہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کی دعاء کو قبول کرلیتے ہیں ۔(مستدرکِ حاکم:5478)
حضرت انس سے مَروی ہےکہ نبی کریمﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو سر پر پھیرتے اور فرماتے: ”بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ، اللَّهُمَّ أَذْهِبْ عَنِّي الْهَمَّ وَالْحَزَنَ “ اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، اے اللہ! مجھ سے فکروں اور غموں کو دور کردے۔ (طبرانی اوسط:3178)
قانون: تین ائمہ کرام کی تقلید میں اتباع رسول کرنے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں بلکہ اعتراض نام نہاد اہلحدیث سے ہے جو قرآن و احادیث کے نام پر چار ائمہ کرام کے خلاف بولتا ہے اور خود کو نبی اکرم ﷺ کا صحابی بناتا ہے۔
مکمل نماز: تمام اقساط کو ایک کر کے یہ نماز 75000 عوام نے پڑھی اور 7591 نے اس کو پھیلایا۔
سوال: نماز پر کمنٹ کرنے سے بہتر ہے کہ اہلحدیث حضرات ایک سوال کا جواب دیں کیا حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی ہونا بدعت و شرک و لعنت ہے تو تقلید کو بدعت و شرک ان کے کس نبی نے قرآن و سنت سے ثابت کیا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں کیا۔ کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ کس نے اہلحدیث جماعت کو اصول سکھایا کہ میری تقلید اتباع رسول ہے اس کا نام بتا دیں؟؟
تحقیق: ہم سب مسلمان ہیں اور جس کو مسلمان کا درد نہیں وہ مسلمان نہیں۔ اللہ کریم کی عبادت کرتے ہیں اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، انبیاء کرام کا شیوہ ہے کہ اُمت کو اکٹھا کیا جائے، اسلئے اس پیج پر اہلتشیع، دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث حضرات کو سوال کر کے شعور دیا جا رہاہے کہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ:
ہمیں اسلام ، اہلبیت اور مولا علی کے دشمن اہلتشیع لگتے ہیں کیونکہ ایک سوال کا جواب نہیں دیتے۔ کیا صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین علیحدہ علیحدہ تھا؟ قیصر و کسری تک جو دین پہنچا وہ حضور کا دین نہیں تھا؟ اہلتشیع کا دین کونسا ہے اور کس وقت کن کتابوں سے وجود میں آیا۔
دیوبندی اور بریلوی ایک ہیں مگر دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ہے۔ عوام اگر دیوبندی اور بریلوی علماء کو اکٹھا کر کے یہ پانچ سوال پوچھ لے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات سعودی عرب اور اہلحدیث حضرات کو گوارہ نہیں ہو گا کیونکہ عرس میلاد تقلید کو بدعت و شرک کہنے والے سعودی عرب کے وہابی علماء ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے 600سالہ اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کہا۔ عوام کو اپنا رول ادا کرنا ہو گا اور اپنی نسلوں کو سمجھانا ہو گا۔