حضور ﷺ کی نماز (تیسری قسط)
حضرت نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ) رضی اللہ عنہ 80ھ کوفہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت نعمان کا علمی سلسلہ حضرات حماد، علقمہ، فقہی صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہوتا ہوا حضورﷺ سے ملتا ہے۔ اسلئے حضرت نعمان بن ثابت رحمتہ اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی فقہ پر عمل کرتے ہیں۔ حضرت نعمان بن ثابت احادیث کی کتب صحاح ستہ (بخاری مسلم ترمذی ابن ماجہ ابوداود وغیرہ) کے دور سے پہلے کے ہیں۔ پاکستان میں اہلسنت اپنے”فقہی امام“ کی قرآن و احادیث کے مطابق تقلید کے ذریعے اتباع رسول کرتے ہیں۔
اصول: حضرت نعمان بن ثابت سب سے پہلے قرآن، پھر احادیث و سنت، آثار صحابہ، اُس کے بعد ضعیف احادیث کو بھی اپنے قول سے زیادہ اہمیت دیتے، اب اس نماز میں ان کا اپنا قول ہے تو بتا دیں، اگر ضعیف احادیث ہیں تو وہ اپنے قول سے زیادہ اہمیت ضعیف احادیث کو دیتے ہیں۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق حضورﷺ نے اسطرح نماز ادا کی ہے:
رفع یدین: نماز میں تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رکوع میں جاتے ہوئے یا رکوع سے اُٹھتے ہوئے ہاتھوں کو کانوں تک نہیں اُٹھایا جاتا اور اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ نبی کریم ﷺکے سفر و حضرکے ساتھی حضرت عبد اللہ بن مسعودایک دفعہ لوگوں سے فرمانے لگے:میں تمہیں نبی کریم ﷺکی نماز کا طریقہ نہ بتاؤں؟ اُس کے بعدحضرت عبد اللہ بن مسعود نے نماز پڑھی اور صرف ایک مرتبہ تکبیر میں ہاتھوں کو اٹھایا۔ (ابوداؤد:748)
2۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودفرماتے ہیں : میں نے رسول اللہﷺ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر کے ساتھ نماز پڑھی، انہوں نے سوائے تکبیر تحریمہ کے کہیں بھی اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔(مسند ابویعلیٰ موصلی:5039)
3۔ حضرت براء بن عازب سے مَروی ہے کہ نبی کریمﷺجب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو اپنے کانوں قریب تک اُٹھاتے پھر اُس کے بعد(رکوع میں جاتے ہوئے یا رکوع سے اُٹھتے ہوئے ) دوبارہ نہیں اُٹھاتے تھے۔ (ابوداؤد:748)
4۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں: میں نے نبی کریمﷺکو دیکھا، آپ نے نمازکے شروع میں اپنے ہاتھ اُٹھائے پھر فارغ ہونے تک دوبارہ نہیں اُٹھائے۔ (ابوداؤد:752)
5۔ حضرت براء بن عازب اور عباد بن زبیر کی روایتوں میں بھی نبی کریم ﷺ کا یہی عمل منقول ہے کہ آپ ﷺنے صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو اٹھایا اور اُس کے بعد نماز سے فارغ ہونے تک دوبارہ ہاتھ نہیں اٹھائے۔ حضرت عبا دبن زبیرسے مَروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب نماز شروع کرتے تو نماز کے شروع میں اپنے ہاتھ اُٹھاتے پھر (نماز سے)فارغ ہونے تک کسی بھی رکن میں ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔ (الدرایۃ فی تخریج احادیث الھدایۃ:1/152)
6۔ حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں ایک دفعہ نبی کریمﷺہمارے پاس (حجرہ سے)نکل کر تشریف لائے اور فرمایا: مجھے کیا ہوا کہ میں تم لوگوں کو دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ نماز میں اپنے ہاتھوں کو ایسے اُٹھارہے ہو جیسے و بدکے ہوئے گھوڑے کی دُمیں ہیں (ایسا نہ کیا کرو)نماز میں سکون سے رہا کرو۔ (مسلم:430)
7۔ حضرت ابن عباس نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں: ہاتھوں کو صرف سات مقامات پر اُٹھایا جائے گا: نماز شروع کرتے ہوئے، جب مسجدِ حرام میں داخل ہوکر بیت اللہ پر نگاہ پڑے، جب صفاء کی پہاڑی پر چڑھے، جب مَروہ کی پہاڑی پر چڑھے، جب عرفہ کی شام لوگوں کے ساتھ وقوف کرےاور مزدلفہ میں (وقوفِ مزدلفہ کے وقت)دونوں مقام پر جبکہ جمرہ کی رمی کرے۔ (طبرانی کبیر:12072)
ترکِ رفعِ یدین میں خلفاءِ راشدین اور صحابہ کرام کا عمل:
1۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ، حضرت ابوبکر صدیق او ر حضرت عمر کے ساتھ نماز پڑھی، انہوں نے سوائے تکبیر تحریمہ کے کہیں بھی اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔ (مسند ابویعلیٰ موصلی:5039)
2۔ حضرت اسودفرماتے ہیں: میں نےسیدنا حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ نماز پڑھی،اُنہوں نےنماز کے شروع میں تکبیر کے علاوہ کسی اور جگہ ہاتھ نہیں اُٹھایا۔(مُصنّف ابن ابی شیبہ:2454)
3۔ حضرت عاصم بن کلیب اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں:حضرت علی جب نماز شروع کرتے تو ہاتھ اُٹھاتے تھے پھر (آخر تک)دوبارہ نہیں اُٹھاتے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2442)
4۔ اِمام مالک فرماتے ہیں کہ مجھےحضرت نُعیم مُجمر اور ابو جعفر قاری نے خبر دی ہے: حضرت ابوہریرہ اُنہیں نماز پڑھاتے تھےتو ہر اُٹھتے اور جھکتے ہوئے تکبیر(یعنی اللہ اکبر) کہتے تھے۔حضرت ابوجعفرقاری فرماتے ہیں:حضرت ابوہریرہ صرف نماز کے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھایا کرتے تھے۔ (مؤطا امام محمد:88)
5۔ میں نے رسول اللہﷺ، حضرت ابوبکر صدیق او ر حضرت عمر کے ساتھ نماز پڑھی، انہوں نے سوائے تکبیر تحریمہ کے کہیں بھی اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔(مسند ابویعلیٰ موصلی:5039)
6۔ حضرت اسودفرماتے ہیں: میں نےسیدنا حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ نماز پڑھی، اُنہوں نےنماز کے شروع میں تکبیر کے علاوہ کسی اور جگہ ہاتھ نہیں اُٹھایا۔(مُصنّف ابن ابی شیبہ:2454)
7۔ حضرت عاصم بن کلیب اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں:حضرت علی جب نماز شروع کرتے تو ہاتھ اُٹھاتے تھے پھر (آخر تک)دوبارہ نہیں اُٹھاتے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2442)
8۔ اِمام مالک فرماتے ہیں کہ مجھےحضرت نُعیم مُجمر اور ابو جعفر قاری نے خبر دی ہے: حضرت ابوہریرہ اُنہیں نماز پڑھاتے تھےتو ہر اُٹھتے اور جھکتے ہوئے تکبیر(یعنی اللہ اکبر) کہتے تھے۔حضرت ابوجعفرقاری فرماتے ہیں:حضرت ابوہریرہ صرف نماز کے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھایا کرتے تھے۔(مؤطا امام محمد:88)
9۔ حضرت ابراہیم نخعی حضرت عبد اللہ بن مسعود کے بارے میں فرماتے ہیں:حضرت عبد اللہ بن مسعودنماز کے شروع میں (تکبیرِ تحریمہ کہتے ہوئے)ہاتھ اُٹھاتے تھے پھر(آخر تک)نہیں اُٹھاتے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2443)
10۔ حضرت مُجاہدفرماتے ہیں :میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر کو صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اُٹھاتے ہوئے دیکھا۔(مصنّف ابن ابی شیبۃ:2452)
11۔ حضرت مُجاہد فرماتے ہیں:میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمرکے پیچھے نماز پڑھی، اُنہوں نے نماز کی صرف تکبیرِ تحریمہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو اُٹھایا۔(طحاوی:1357)
ترکِ رفعِ یدین کے مسئلہ میں کبار تابعین کا عمل :
1۔ حضرت اسودفرماتے ہیں:میں نے حضرت عمرکو دیکھا کہ وہ پہلی تکبیر(تکبیرِ تحریمہ)میں اپنے ہاتھ اُٹھاتے پھر دوبارہ (آخر تک)نہیں اُٹھاتے،راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم نخعی اور حضرت شعبی کو بھی دیکھا کہ وہ بھی اِسی طرح کرتے تھے۔(طحاوی:1364)
2۔ حضرت شعبی کے بارے میں منقول ہے: وہ صرف پہلی تکبیر (یعنی تکبیرِ تحریمہ)میں ہاتھ اُٹھاتے تھے پھر (آخر تک)نہیں اُٹھاتے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2444)
3۔ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں: نمازکے شروع میں (تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے) ہاتھ اُٹھاؤ اور اس کے علاوہ نماز کے کسی بھی رکن میں مت اُٹھایا کرو۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2447)
4۔ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں: جب تم نماز کے شروع میں تکبیر کہو تو اپنے ہاتھوں کو اُٹھاؤ پھر بقیہ پوری نماز میں ہاتھوں کو نہ اُٹھاؤ۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2445)
5۔ حضرت اسود اور حضرت علقمہ کے بارے میں آتا ہے: وہ دونوں نماز کے شروع میں ہاتھ اُٹھایا کرتے تھےپھر دوبارہ نہیں اُٹھاتے۔(مصنف ابن ابی شیبہ:2453)
6۔ حضرت ابواسحاق فرماتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت علی کے شاگردصرف نماز کے شروع میں(تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے)ہاتھ اُٹھایا کرتے تھے۔ حضرت وکیع فرماتے ہیں کہ پھر وہ دوبارہ نماز کے آخر تک دوبارہ ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:2446)
7۔ علم و عمل کا عظیم مَرکز جسے دنیا ”کوفہ“کے نام سے جانتی ہے ، اور جہاں حضرات صحابہ کرام وتابعین کی ایک بڑی جماعت رہی ہے، وہاں کے رہنے والوں کا بھی مسلَک ”ترکِ رفعِ یدین “ہی کا تھا ، چنانچہ اِمام ترمذی فرماتے ہیں: بےشمار اہلِ علم اور صحابہ کرام اور تابعین اسی کے قائل ہیں اور یہی حضرت سفیان ثوری اور اہلِ کوفہ کا قول ہے۔(یعنی نماز میں صرف تکبیرِ تحریمہ کے وقت رفعِ یدین کیا جائے گا )۔(ترمذی،رقم الحدیث:257)
8۔ فقہِ حنفی کے سب سے بڑے ناقل حضرت اِمام محمّد اپنی شہرہ آفاق کتاب ”مؤطاء اِمام محمد“ میں لکھتے ہیں: اور بہرحال نماز میں رفعِ یدین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک مرتبہ نماز کی اِبتداء میں ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھائے، پھر اس کے بعد نماز میں کسی بھی جگہ ہاتھ نہ اُٹھائے۔ اور یہ سب حضرت اِمام ابوحنیفہ کا قول ہے۔(مؤطا اِمام محمّد:90 ،91،میزان)
رفعِ یدین کی روایات قابلِ عمل کیوں نہیں
1۔ ائمّہ اربعہ میں دو بڑے اور مشہور اِمام یعنی اِمام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت اِمام مالک رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑے ہوتے ہوئے رفعِ یدین کے قائل نہیں، اور اُنہوں نے رفعِ یدین کی روایات کو اِس لئے ترجیح نہیں دی کیونکہ وہ احادیث متن کے اعتبار سےمضطرب(مختلف) ہونے کی وجہ سےقابلِ اِستدلال نہیں، چنانچہ رفعِ یدین کی ”أصح مافی الباب “یعنی سب سے زیادہ صحیح روایت جس کو رفعِ یدین کے بارےمیں سب سے مضبوط اور ٹھوس دلیل قرار دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اُسے ”حجۃ اللہ علی الخلق“ کادرجہ دیا گیا ہے، وہ حضرت عبد اللہ بن عمرکی ایک روایت ہے، جسے اِمام بخاری نے نقل کیا ہے، ملاحظہ فرمائیے :
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نبی کریمﷺ کی نماز کا یہ طریقہ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺنماز کے شروع میں تکبیر کہتے ہوئے ،رکوع میں جاتے ہوئےاور رکوع سے سر اُٹھاکر رفعِ یدین کیا کرتے تھے۔(بخاری:735) لیکن یہ حدیث متن کے اعتبار سےمضطرب(یعنی مختلف)ہے یعنی اِس کے الفاظ کے اندر بڑی کثرت سے اختلاف پایا جاتا ہے،جس کی وجہ سے یہ حدیث قابلِ اِستدلال نہیں،اور اِس کے اضطراب کی تفصیل یہ ہےکہ حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت میں بکثرت یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ نماز میں رفعِ یدین یعنی ہاتھوں کے اُٹھانے کا عمل کتنی مرتبہ اور کہاں کہاں کیا جائے گا ،چنانچہ:
٭…ایک روایت میں صرف رکوع سے اُٹھ کر رفعِ یدین کا ذکر ہے۔(مؤطا مالک:210)
٭…ایک روایت میں دو رکعتوں کے بعد تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہونے کے بعد بھی رفعِ یدین کاذکر ہے۔(بخاری:739)
٭…صرف سجدہ میں جاتے ہوئے بھی رفعِ یدین کا ذکر ہے۔(طبرانی اوسط:16)
ایک اور روایت میں ہر خفض و رفع یعنی نماز میں ہر اونچ نیچ کے وقت رفعِ یدین کا ذکر ہے۔(شرح مشکل الآثار:5831)
٭…ایک روایت میں صرف نماز کے شروع میں تکبیرِ تحریمہ کہتے ہوئے رفعِ یدین کا ذکر ہے۔(نصب الرّایۃ:1/404)(مستخرج ابی عوانہ: 1572)
مذکورہ بالا تمام احادیث حضرت عبد اللہ بن عمرسے ہی مَروی ہیں، اور ان سب میں دیکھ لیجئے کہ کس قدر شدیدمتن کا اختلاف و اضطراب پایا جاتا ہے، نیز خود حضرت عبد اللہ بن عمرجوکہ اِس ”أصح مافی الباب“روایت کے راوی ہیں، خود اُن کا عمل بھی رفعِ یدین کا نہیں تھا، چنانچہ مشہور اور جلیل القدر تابعی حضرت مُجاہد جنہوں نے ایک طویل زمانہ حضرت عبد اللہ بن عمر کے ساتھ گزارا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر کو صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اُٹھاتے ہوئے دیکھا۔(مصنّف ابن ابی شیبۃ:2452)(طحاوی:1357)
جبکہ ترکِ رفعِ یدین کی روایات غیر مضطرب ہیں جن میں سند اور متن کا کوئی اختلاف اور اضطراب بھی نہیں پایا جاتا، اور نہ ہی اُن کے راوی کا عمل اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہے پس ایسے میں اُنہیں کیوں اختیار نہ کیا جائے اور وہ کیوں قابلِ ترجیح نہ ہوں اور پھر اُس پر مزید یہ کہ وہ روایات قرآن کریم کے مُوافق اور تعاملِ صحابہ کے مطابق بھی ہیں، چنانچہ قرآن کریم کی آیات:﴿قُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ﴾اور﴿الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُون﴾ سے اِسی کی تائید ہوتی ہے، نیز خلفاء راشدین سمیت کئی صحابہ کرام اور تابعین کا عمل بھی اِسی کے مطابق رہا ہے اور اِسی وجہ سے اہلِ علم کے دو بڑے مرکز مدینہ منوّرہ اور کوفہ کے فقہاء کرام نے اِسی کو اختیار کیا تھا۔
قانون: تین ائمہ کرام کی تقلید میں اتباع رسول کرنے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں بلکہ اعتراض نام نہاد اہلحدیث سے ہے جو قرآن و احادیث کے نام پر چار ائمہ کرام کے خلاف بولتا ہے اور خود کو نبی اکرم ﷺ کا صحابی بناتا ہے۔
مکمل نماز: تمام اقساط کو ایک کر کے یہ نماز 75000 عوام نے پڑھی اور 7591 نے اس کو پھیلایا۔
سوال: نماز پر کمنٹ کرنے سے بہتر ہے کہ اہلحدیث حضرات ایک سوال کا جواب دیں کیا حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی ہونا بدعت و شرک و لعنت ہے تو تقلید کو بدعت و شرک ان کے کس نبی نے قرآن و سنت سے ثابت کیا کیونکہ حضور ﷺ نے تو نہیں کیا۔ کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ کس نے اہلحدیث جماعت کو اصول سکھایا کہ میری تقلید اتباع رسول ہے اس کا نام بتا دیں؟؟
تحقیق: ہم سب مسلمان ہیں اور جس کو مسلمان کا درد نہیں وہ مسلمان نہیں۔ اللہ کریم کی عبادت کرتے ہیں اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، انبیاء کرام کا شیوہ ہے کہ اُمت کو اکٹھا کیا جائے، اسلئے اس پیج پر اہلتشیع، دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث حضرات کو سوال کر کے شعور دیا جا رہاہے کہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ:
اہلتشیع کا دین اسلام نہیں ہے کیونکہ وہ اہلبیت اور صحابہ کرام کے دین کو الگ الگ مانتے ہیں لیکن مولا علی نے کیا صرف ایک کو علم دیا باقی جتنے صحابہ تھے کیا وہ جاہل تھے حالانکہ اہلتشیع خود مسلمان ہی نہیں ہیں کیونکہ یہ خود نہیں بتاتے کہ ان کی احادیث حضور ﷺ کی ہیں یا کسی اور نے گھڑی ہیں۔ منگھڑت دین ہے اہلتشیع۔
دیوبندی اور بریلوی ایک ہیں مگر دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ہے۔ عوام اگر دیوبندی اور بریلوی علماء کو اکٹھا کر کے یہ پانچ سوال پوچھ لے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات سعودی عرب اور اہلحدیث حضرات کو گوارہ نہیں ہو گا کیونکہ عرس میلاد تقلید کو بدعت و شرک کہنے والے سعودی عرب کے وہابی علماء ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے 600سالہ اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کہا۔ عوام کو اپنا رول ادا کرنا ہو گا اور اپنی نسلوں کو سمجھانا ہو گا۔