قربانی میں آسانی
غریبوں میں پیسے یا دُکان سے گوشت لا کر بانٹنے سے قربانی نہیں ہوتی بلکہ قربانی کا اصل مقصد 10 ذی الحج کواللہ کریم کا قُرب (اراقتہِ دم لوجہ اللہ) حاصل کرنے کیلئے جانور کا”خون“ بہانا ہے۔ احادیث میں نبی کریم ﷺ نے گوشت کے تین حصے کرنے کا مشورہ دیا تو یہ ایک ”مستحب“ عمل ہے ورنہ ہر مسلمان سارا گوشت رکھ لے یا بانٹ دے یا ایک غریب کو سارا دے سب جائز ہے۔
نصاب اور اسباب: آسان انداز میں ہے کہ اپنے گھر کا خرچہ چلا کر اگر اتنے پیسے بچتے ہوں کہ قربانی آسانی سے کر سکو تو قربانی کر لو۔ البتہ نبی کریم ﷺ کے دور میں سونے کے دینار اور چاندی کے درہم ہوتے تھے اسلئے چاندی کے درہم کا نصاب 52.50 تولہ اور سونے کے دینارکا نصاب 7.50 تولہ رکھا گیا۔ آج کے دور میں جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر پیسے ہوں وہ چاندی کے ”نصاب“کا مالک بن جاتا ہے۔ چاندی کا موجودہ ریٹ 1567 روپے تولہ ہے۔ اس لئے جس کے پاس 1567 X 52.50 = 82268 روپیہ موجود ہووہ زکوۃ بھی دے گا اور قربانی بھی کرے گا۔
اسباب: قربانی ہر عورت(ماں، بیٹی، بیوی، دادی) اور مرد(بیٹا، باپ، شوہر، دادا)پر لگتی ہے جس کے پاس فالتو قیمتی یا ردی چیزیں 52.50 تولہ چاندی یعنی 82268 روپے کی موجود ہوں جیسے (1) جاہل مسلمان کے پاس علمی کتابیں 82268 روپے (چاندی کا نصاب)کی ہیں اور جاہل کو کتابوں کی ضرورت نہیں ہوتی، اسلئے کتابیں بیچ کر قربانی کرے (2) حج کے پیسے اکٹھے کر رہا ہو لیکن قربانی کے دن آ گئے توقربانی کرے گا (3) کسی کی کمیٹی 9 ذی الحج کو نکل آئی تو چاہئے کہ اپنی ضرورت کی کوئی چیز خرید لے ورنہ 10 سے 12 ذی الحج تک پیسے ہونے کی وجہ سے قربانی کرے گا۔
حقیقت: زکوۃ کیلئے سال کا گذرنا لازمی ہے لیکن قربانی کیلئے ”قربانی“ کے دنوں میں 82268 روپے آ جانے سے قربانی کرنا واجب ہے۔ اگر کوئی بکرا نہیں لے سکتا تو گائے میں حصہ ڈال لے۔ غریب کے پاس ضروریاتِ زندگی (مکان، دُکان وغیرہ) نہیں ہیں لیکن موجودہ حالات میں اُس کاگذارہ آسانی سے ہورہا ہے تو ”اسباب“ موجودہونے کی وجہ سے قربانی کرے گا۔
قربانی: ہر مالدار پر ایک قربانی واجب ہے اور اگر 10 جانور بھی کرے تو باقی سب نفل۔ کوئی غریب ”اسباب“ نہ رکھتا ہو لیکن قربانی کیلئے جانور خریدلائے توقربانی واجب ہو گئی لیکن مشورہ ہے کہ غریب آدمی اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرے مگر قربانی نہ کرے۔ سارے بھائی غریب ہیں اور ان پر قربانی نہیں لگتی لیکن ایک بھائی کو سب نے مل کر پیسے دئے تو وہ قربانی اس بھائی کی طرف سے ہو جائے گی باقی قربانی کا گوشت آپس میں بانٹ سکتے ہیں۔کوئی مسلمان کسی دوسرے (زندہ یا جواپنے دنیا سے چلے گئے) کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تواپنی طرف سے ایک ”قربانی“ لازماً کرے اورپھرکسی دوسرے کی طرف سے قربانی کر ے۔ اگر کوئی انگلینڈ یا کینڈا میں ہے توپاکستان میں اس کی اجازت سے ”قربانی“ کی جا سکتی ہے کیونکہ قربانی میں نیت ضروری ہے۔
حصے: بکرے میں دو، چار یا سات حصّے نہیں بلکہ صرف ایک حصّہ ہوتا ہے البتہ گائے اور اُونٹ میں سات حصّے ہوتے ہیں، اگرچہ اونٹ میں دس حصوں کی حدیث آتی ہے لیکن ہمارا عمل اونٹ یا گائے میں سات حصوں کی حدیث پر ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جو علماء کرام سے پوچھ سکتے ہیں۔
مخصوص دن اور مخصوص جانور: قربانی مخصوص دنوں میں ہوتی ہے یعنی 10 ذی الحج سے 12 ذی الحج کی مغرب تک جائز ہے اور13 ذی الحج کو نہیں۔ البتہ رات کو ذبح کرنا مکروہِ تنزیہی اس لئے تھاکہ جانور کی رگیں کٹنے میں کوئی غلطی نہ ہو جائے، اس وقت بجلی ہونے اور روشنی کے مختلف ذرائع ہونے کی وجہ سے رات کو قربانی کرنا جائز ہے۔ قربانی مخصوص جانور(نر اور مادہ دونوں جیسے اونٹ اونٹنی) اور مخصوص عُمر یعنی پانچ سال کا اونٹ اس سے کم نہیں، گائے دو سال کی اس سے کم نہیں، بکرا ایک سال سے کم نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ موٹا تازہ مینڈھا(بھیڑ، دُنبہ، چھترا) ”6ماہ“ کا بھی جائز ہے۔خصّی جانور، بھیڑ اور کٹے کی قربانی بھی جائز ہے۔ البتہ باقی حلال جانور اور پرندوں کا گوشت کھایا جا سکتا ہے مگر قربانی نہیں کی جاسکتی۔
ذبح کے متعلق: جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو (حدیث)اور کسی بھی حدیث پاک میں قصائی کا پیشہ ممنوع نہیں ہے۔ذات بدلنا حرام ہے البتہ پیشہ اچھا اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اونٹ کو ”نحر“کرنا مسنون ہے یعنی حلق کے آخری حصے میں نیزہ وغیرہ مار کر رگیں کاٹ دینے کو نحر کہتے ہیں جبکہ ”ذبح“ یہ ہے کہ گردن کو اس کی ابتدا سے لے کر سینے کی ابتدا تک کسی جگہ سے اس طرح کاٹا جائے کہ چار رگیں کٹ جائیں۔ ہر تیز دھار آلے (چُھری، خنجر وغیرہ)سے جانور ذبح کیا جا سکتا ہے جس سے اُس جانور کی رگیں تیزی سے کٹ جائیں۔ یہ کہنا بے وقوفی ہے کہ چُھری کے دستے میں تین پیچ (سوراخ) ہونے چاہئیں اور ”جانور“ پر تکبیر (بسم اللہ اللہ اکبر) تین جگہوں پر کہنی چاہئے۔
شرائط: ذبح کرنے میں تین شرطوں کا علم ہونا چاہئے (1) مسلمان عورت اور مرد ”دونوں“ ذبح کر سکتے ہیں اگرچہ گناہ گار(فاسق) ہی کیوں نہ ہوں، صحیح اہل کتاب(عیسائی) بھی تکبیر پڑھ کرجانور ”ذبح“ کر سکتے ہیں لیکن کافر،مرتدیا مجوسی نہیں۔ ذبح کرنے والا بسم اللہ اللہ اکبر کہے۔البتہ اگر کوئی تکبیرکہنا ”بُھول“ جائے تو جانور کی قربانی ہو جائے گی۔ (2) جانور کی چار یا تین ”رگیں“ ضرورکٹنی چاہئیں اور اگر دو”رگیں“کٹیں تو جانور حرام ہے۔ (3) اس کے علاوہ رگیں کٹنے پر ”جانور“ سے خون نکلنا چاہئے کیونکہ مُردہ جانور سے خون نہیں نکلتا اور جس جانور سے ”خون“ نہیں نکلا وہ جانور مُردہ ہے اور مُردار”حرام“ ہے۔ اگر مشین سے ذبح کرتے وقت بھی یہ تین شرطیں پوری ہو جاتی ہیں توجانور حلال ہے۔
تجربہ: احادیث میں جانور کی گھنڈی کا ذکر نہیں ہے بلکہ تین رگیں کٹ جائیں تو جانور ذبح ہو جاتا ہے اور اگر صرف دو رگیں کٹیں تو جانور حرام ہے۔ کچھ قصائی جانور کو ذبح کر کے جلدی سے”منکہ“ توڑ دیتے ہیں اوریہ عمل ”مکروہ تحریمی“ ہے، جانورکی قربانی چار رگیں کٹنے سے قربانی ہوجائے گی مگر منکہ توڑنے سے ثواب کم ہو گا۔ اگر جانور کا منہ قبلہ رُخ نہ رہا تب بھی ذبح ہو گیا لیکن بہتر ہے کہ جانور کا منہ قبلہ رُخ ہو۔ کوئی جانور دیوار کے نیچے آ کر دب جائے یا مٹی میں دفن ہو کر مرنے لگے تو بسم اللہ پڑھ کر جہاں مرضی تیز دھار آلہ ماریں تاکہ اس کا خون نکل جائے تو جانور ذبح ہو گیا۔
قربانی کا جانور: قربانی کا جانور لینے سے پہلے پوری ایمانداری سے دنیاداری کریں (1) لنگڑا جس کا لنگ واضح طور پر ظاہر ہو نہیں لینا، البتہ جو تھوڑے سے لنگ کے ساتھ چل سکتا ہو اس کی قربانی جائز ہے (2) جس کا کا نا پن ظا ہر ہو یا اندھے کی قربانی نہیں ہوتی، ایسے جانور کو دُور سے گھاس وغیرہ ڈال کر دیکھ لیں (3) جانورجس کی بیماری نظر آ رہی ہو وہ کم پیسوں کی وجہ سے نہیں لیناکیونکہ قربانی نہیں ہو گی (4) ایسا کمزور جس کی ہڈیوں پر گوشت ہی نہ ہو (5) کان کٹا ہو لیکن ایک گائے کا کان چِرا ہوا ہے مگر ساتھ ہی لٹکا ہوا ہے تو قربانی جائز ہے (6) سینگ ٹوٹالیکن جہاں سے اُگا ہے وہاں سے ٹوٹا ہو تو ناجائز ہے۔ گائے کا سینگ آنکھ کی طرف آتا تھا تو اس کی نوک تراش دی گئی تو جانورکی قربانی جائز ہے۔ جانور میں معمولی سا نقص ہو تو علماء کرام سے پوچھ کر قربانی کر سکتے ہیں۔
عقیقہ: عقیقے کیلئے بھی قربانی کی طرح ”جانور“ خوبصورت، بے عیب، صحتمند لینا ضروری ہے۔ قربانی والے دن عقیقہ کرنا جائز ہے کیونکہ”عقیقہ“ عید کے دن کرنا منع نہیں ہے۔ اگر کوئی جانور کی قربانی کر رہا ہے تو وہ عقیقہ بھی کر سکتا ہے جیسے ایک بکرا قربانی اور دوسرا بکرا اپنی اولاد کے عقیقے کیلئے لیا جا سکتا ہے یا ایک گائے میں (7)سات حصے ہوتے ہیں تو ایک حصہ قربانی اور(6) حصوں سے چھ بچوں کا عقیقہ کر سکتے ہیں۔ اگر عید والے دن جانور کی”قربانی“ چھوڑ کر صرف”عقیقہ“کر رہا ہے تو قبول نہیں۔
دو یا ایک بکرا: عقیقے میں لڑکے کی طرف سے بھی”ایک“ اور لڑکی کی طرف سے بھی ”ایک“بکرا کیا جا سکتا ہے اگر استطاعت نہ ہو۔ اسی طرح اگر لڑکی کی طرف سے بھی دو بکرے کرلیں تو وہ بھی منع نہیں۔
جھوٹ: قربانی کے جانور بیچنے والے اکثر جھوٹ بولتے ہیں،اس لئے ”عوام“ کسی ”ماہر“ کو ساتھ لے کر جائے تو بہتر ہے یا یہ دیکھ لے کہ اونٹ، گائے، بکرے کے نیچے والے ”دانت“ جودرمیان میں ہوتے ہیں وہ دانت باقی دانتوں سے لمبے ہوں لیکن سارے چھوٹے یا برابرنہ ہوں۔
ممانعت: جانور کا (1) پتّہ (2) مثانہ (3) فرج یعنی شرم گاہ (4) ذکر یعنی بکرے کی اگلی شرم گاہ (5) انثیین یعنی خُصیے، کپورے (ٹَکا ٹَک) (6) غدہ یعنی غدود مکروہِ تحریمی ہیں اور (7) خون حرام ہے۔
بعض مفتیان عظام نے اوجھڑی کو بھی مثانے کی طرح مکروہ تحریمی فرمایا اور اوجھڑی کا کھاناجائز قرار نہیں دیا۔
عجیب و غریب پریشان کرنے والی باتیں
٭ عید کے دن روزہ نہیں ہوتا کیونکہ روزے کا مطلب ہے کہ فجر سے لے کر مغرب تک بیوی سے دور اور بھوکا پیاسا رہنا۔ اس لئے قربانی کا گوشت پکنے تک کو روزہ نہیں کہتے بلکہ یہ نبی کریمﷺ کی سنت ہے، اگر کوئی قربانی کے گوشت سے پہلے کچھ کھا پی لے تو ہر گز گناہ گار نہیں ہے۔
٭ ذی الحج کا چاند دیکھ کر عید کی نماز پڑھنے کے بعد تک ناخن، بال وغیرہ نہ کاٹیں تو اس کا ثواب ”قربانی“ کے برابرہے لیکن ان دس دنوں میں ناخن یا بال وغیرہ کاٹنے کا تعلق ”قربانی“ سے نہیں ہے کیونکہ یہ ایک علیحدہ مستحب عمل ہے،اگر کوئی ناخن یا بال کاٹ لیتا ہے تو گناہ گار نہیں۔ داڑھی جیسے ہی نوجوان کوآئے اُسی وقت سے رکھنا واجب ہے اورذی الحج کے چند دن چہرے کے بال (داڑھی یا شیو)رکھنے کا کوئی ثواب نہیں ہے حالانکہ بعض بے وقوف بندے اسلئے قربانی نہیں کرتے کہ میں نے تو شیو کر لی ہے۔ قربانی کرنے والا”قربانی“ کر کے نہیں بلکہ عید کی نماز پڑھ کر ”خط“ وغیرہ بنوا سکتا ہے۔
٭ اہل تشیع(شیعہ) حضرات کہتے ہیں کہ قربانی کا گوشت محرم میں نہیں کھا سکتے حالانکہ قربانی کا گوشت پورا سال کھا سکتے ہیں جیسے ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سفر سے واپس آئے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاان کے پاس قربانی کا گوشت لائیں۔آپ نے فرمایا کہ کیا نبی کریمﷺ نے قربانی کا گوشت رکھنے سے منع نہیں فرمایا؟ حضرت فاطمہرضی اللہ عنہا نے بتایا کہ نبی کریمﷺ نے اجازت دے دی ہے۔ اس پر حضرت علیرضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ذی الحج سے اگلے ذی الحج تک اسے کھا سکتے ہیں یعنی ایک سال تک (مسند احمد جلد 12 صفحہ 14)
٭ قربانی کا گوشت ہندوکو دینا جائز نہیں اور اہل کتاب (عیسائی) کو بھی دینا بہتر نہیں، مسلمان اکثر گھر میں کام کرنے والی عیسائی عورتوں کو قربانی کا گوشت دیتے ہیں حالانکہ یہ صرف مسلمان کو دیا جائے۔ اگر اہل کتاب کو دیا تو یہ ”خلافِ مستحب“ عمل ہے مگرگوشت دینے سے بندہ گناہ گار نہیں ہوتا۔
قربانی کی کھالیں: قربانی کی کھال امیرکو ”تحفے“ میں اور غریب کو”صدقے“کے طور پر دی جا سکتی ہے کیونکہ یہ زکوۃ نہیں ہے جو صرف غریبوں پر لگتی ہے۔اس کھال کے چمڑے کو اپنے استعمال میں بھی لا سکتے ہیں البتہ قربانی کرنے والا بیچ کر پیسہ نہیں کھا سکتا۔قربانی کی کھال کسی بھی سید صاحب،عالم، شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو، بہن بھائی، والدین، مسجد کے مولوی صاحب، انتظامیہ وغیرہ سب کو دی جا سکتی ہے اور قربانی کی کھال ہر اس نیک کام میں لگاسکتے ہیں جس میں ثواب ہو۔
ہماری تجاویز:
1۔ قربانی انبیاء کرام، اولیاء کرام اوراپنے فوت ہوئے رشتے داروں کی طرف سے کرنا’’ جائز‘‘ ہے لیکن اگر ہمسائے، دوست یا رشتے دار جو زندہ ہیں غریب ہوں تو اُن کو بُلا کر کہا جائے کہ یہ گائے میں نے لی ہے اس میں سات حصے ہوتے ہیں، دو حصے میری طرف سے ہیں اُس سے میری اور میرے گھر والوں کی طرف سے قربانی ہو جائے گی مگر ایک ایک حصہ میں آپ کی طرف سے کروں گا، پیسہ میرا، قربانی آپ کی طرف سے اور گوشت کا ایک مکمل حصہ آپ کا ہو گا اور یہ سارا حصہ آپ اپنے غریب رشتے داروں میں بانٹ دیجئے گا۔
2۔ اگر کسی غریب دوست کا عید کے بعد نکاح ہے تو اُس کوقربانی کا گوشت دیا جائے۔
3۔ جس مسلمان نے قربانی کی وہ کسی ایسے گھر میں قربانی کا گوشت نہ دے جس نے خود قربانی کی ہو یہ دُنیا داری ہو گی اسلئے قربانی کا گوشت قربانی نہ کرنے والے غریب بہن بھائیوں ہمسایوں کودیا جائے۔
4۔ اگر ہو سکے تو قربانی اپنے گاؤں یا ایسی جگہ جہاں غریب لوگ رہتے ہوں کرنی چاہئے اور وہان گوشت تقسیم کر کے یا پکا کر اُن کو کھلایا جائے۔
5۔ امیر آدمی جو پورا سال گوشت کھا سکتا ہے وہ اپنے گھر میں گوشت نہ رکھے بلکہ سارا غریبوں میں تقسیم کر دے۔
6۔ ہم نے صرف یہ تجاویز دی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی کیا ہے تاکہ نمائشی قربانی نہ کی جائے بلکہ اللہ کریم کی رضا حاصل کرنے کے لئے قربانی کی جائے۔
اتحاد اُمت: ہم سب مسلمان ہیں اور جس کو مسلمان کا درد نہیں وہ مسلمان کیسا؟ اللہ کریم کی عبادت کرتے ہیں اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، انبیاء کرام کا شیوہ ہے کہ اُمت کو اکٹھا کیا جائے، اسلئے اس پیج پر اہلتشیع، دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث حضرات کو سوال کر کے شعور دیا جا رہاہے کہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ:
دیوبندی اور بریلوی ایک ہیں مگر دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ہے۔ عوام اگر دیوبندی اور بریلوی علماء کو اکٹھا کر کے یہ پانچ سوال پوچھ لے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات سعودی عرب اور اہلحدیث حضرات کو گوارہ نہیں ہو گا کیونکہ عرس میلاد تقلید کو بدعت و شرک کہنے والے سعودی عرب کے وہابی علماء ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کہا۔ عوام کو اپنا رول ادا کرنا ہو گا اور اپنی نسلوں کو سمجھانا ہو گا۔
تحقیق:: ہمیں اسلام ، اہلبیت اور مولا علی کے دشمن اہلتشیع لگتے ہیں کیونکہ ایک سوال کا جواب نہیں دیتے۔ کیا صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین علیحدہ علیحدہ تھا؟ قیصر و کسری تک جو دین پہنچا وہ حضور کا دین نہیں تھا؟ اہلتشیع کا دین کونسا ہے اور کس وقت کن کتابوں سے وجود میں آیا