تعمیر کعبہ پر محنت مزدوری
حضرات ابراہیم و اسماعیل
1۔ خانہ کعبہ جو کہ طوفان نوح سے متاثر ہو چُکا تھا، اس کو بھی اصل بنیادوں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت جبرائیل علیہ اسلام کی نشاندہی سے اور اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی مدد سے تعمیر کیا۔ اسلئے اُس وقت کے حساب سے بہترین کاری گری اور خوب محنت باپ بیٹے کی تھی جس کی مزدوری میں اللہ کریم نے سارے انبیاء کرام حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی اولاد سے اور حضور ﷺ کو حضرت اسماعیل کی اولاد سے مبعوث فرمایا۔
2۔ خانہ کعبہ میں پڑا ”مقام ابراہیم“ یعنی وہ پتھر جس پر حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پاؤں کے نشان موجود ہیں، اُسی پتھر پر چڑھ کر آپ نے اللہ کریم کا گھر تعمیر کیا تھا اور جیسے جیسے ادھر ادھر ہونا ہوتا تو پتھر ساتھ ساتھ ادھر ادھر ہوتا، حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو باربار اُترنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ اسی طرح خانہ کعبہ کی دیوار جیسے جیسے بُلند ہوتی گئی اُسی طرح یہ پتھر بھی بلند ہوتا جاتا۔ اسلئے مقام ابراہیم کو طواف کے بعد بخاری 4483 کے مطابق نفل پڑھنے کی جگہ بنایا گیا۔
3۔ خانہ کعبہ تعمیر کرتے ہوئے مسلسل دُعائیں جاری تھیں یا اللہ ہماری اس خدمت کو قبول و منظور فرما لے اور سب سے بڑی دُعا خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی تھی کہ یا اللہ اپنا محبوب حضرت محمد ﷺ کو ان میں مبعوث فرمانا اور یہ دُعا بھی اللہ کریم نے قبول فرمائی اور حضور ﷺ کو حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی اولاد سے مبعوث فرمایا۔
4۔ کہا جاتا ہے کہ جب خانہ کعبہ تعمیر ہو گیا تو سات پھیرے لگائے گئے تاکہ دیکھا جائے کہ کوئی کمی کوتاہی تو تعمیر میں رہ تو نہیں گئی بس یہی سات پھیروں کا طواف صدیوں سے جاری ہے جو عُمرہ اور حج میں کیا جاتا ہے اور یہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی سُنت ہے حالانکہ ایسا کسی حدیث یا تفسیر کی کتاب میں نہیں ہے کہ سات پھیرے لگانا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وجہ سے لگائے جاتے ہیں۔
5۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد حُکم ہوا کہ لوگوں کو حج کے لئے ندا دو یعنی اے ابراہیم آواز لگاؤ کہ اللہ کریم کے گھر کا حج کرو۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے صدا لگائی اور اللہ کریم نے زمین و آسمان کی ہر حد تک وہ آواز پہنچائی یہاں تک کہ وہ آوازدُنیا میں ہر آنے والے نے سُن لی اور جس جس نے اُس وقت جتنی بار لبیک لبیک کہا وہ اتنی مرتبہ حج کرے گا۔
6۔ ہم اس انٹرنیشنل دور میں بھی اسطرح آواز نہیں پہنچا سکتے جسطرح اللہ کریم نے پہنچائی اور اُسی وقت فیصلہ بھی ہو گیا کہ کون کون حج کرے گا۔ اسی طرح ہمارا کام تبلیغ کرنا ہے، دین پہنچانا ہے، وقت لگانا ہے، عوام مانے یا نہ مانے، تحقیق کرے یا نہ کرے، اپنی نسلوں کو سمجھائے یا نہ سمجھائے، اُس کی مرضی مگر ہم نے اپنا کام جاری رکھنا ہے۔
تحقیق: ہم سب مسلمان ہیں اور جس کو مسلمان کا درد نہیں وہ مسلمان نہیں۔ اللہ کریم کی عبادت کرتے ہیں اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، انبیاء کرام کا شیوہ ہے کہ اُمت کو اکٹھا کیا جائے، اسلئے اس پیج پر اہلتشیع، دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث حضرات کو سوال کر کے شعور دیا جا رہاہے کہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ:
اہلتشیع کا دین اسلام نہیں ہے کیونکہ وہ اہلبیت اور صحابہ کرام کے دین کو الگ الگ مانتے ہیں لیکن مولا علی نے کیا صرف ایک کو علم دیا باقی جتنے صحابہ تھے کیا وہ جاہل تھے حالانکہ اہلتشیع خود مسلمان ہی نہیں ہیں کیونکہ یہ خود نہیں بتاتے کہ ان کی احادیث حضور ﷺ کی ہیں یا کسی اور نے گھڑی ہیں۔ منگھڑت دین ہے اہلتشیع۔
دیوبندی اور بریلوی ایک ہیں مگر دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ہے۔ عوام اگر دیوبندی اور بریلوی علماء کو اکٹھا کر کے یہ پانچ سوال پوچھ لے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات سعودی عرب اور اہلحدیث حضرات کو گوارہ نہیں ہو گا کیونکہ عرس میلاد تقلید کو بدعت و شرک کہنے والے سعودی عرب کے وہابی علماء ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے 600سالہ اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کہا۔ عوام کو اپنا رول ادا کرنا ہو گا اور اپنی نسلوں کو سمجھانا ہو گا۔