غلط کاری (ز نا) کی سزا
1۔اللہ کریم شرک کے سوا سب گناہوں کو معاف کر دے گا، اسلئے اللہ کریم سے معافی مانگنی چاہئے اور کوئی غلط کام نہیں کرنا چاہئے، دوسری طرف ایک دوسرے کے عیبوں پر پردہ ڈالنا چاہئے۔ ابوداود 4946 جو مسلمانوں کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا، اللہ کریم آخرت میں اس کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا۔
2۔ سب سے پہلے ز نا کا ری کو روکنے کے لئے سورہ نساء میں آیا کہ اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی بد کا ری کرے تو اپنوں میں سے چار مرد گواہ لاؤ، پھر اگر وہ چار مرد گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید کر دو یہاں تک کہ ان کو موت آ جائے یا اللہ کریم ان کے لئے کوئی راہ کھول دے۔
3۔ ابو داود 4414 – 15:”حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کریم نے گھر میں قید رکھنے والیوں کے لئے راستہ کھول دیا ہے۔ اب کنوا را کنوا ری کے ساتھ ز نا کرے تو 100 کوڑ وں اور ایک سا ل کی جلا و طنی کی سزا ہے اور شادی شدہ عورت کے ساتھ مرد ز نا کرے تو تو 100 کوڑ وں اور ر جم (سنگ س اری) کی سزا ہے“۔ اسلئے امام چاہے تو 100 کوڑ ے لگا کر ر جم کرے یا اس کے بغیر سنگ سا ر کروا دے۔
4۔ سورہ نور آیت 2میں ہے کہ بدکاری کرنے والی عورت اور مرد کو بغیر ترس کھائے اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہوئے 100 دُرّ ے عوام کے سامنے کھلم کھلا مارے جائیں۔ یہ وہ عورت اور مرد ہوں گے جنہوں نے نکاح نہیں کیا اور اگر شادی شُدہ ہوں تو ان کو ر جم کیا جائے گا۔
5۔بخاری 4829، 4830: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمانہ گذر جانے پر کہنے والے کہیں گے میں کتاب اللہ میں ر جم کا حُکم نہیں پاتا اور لوگوں کو گمراہ کرے گا حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے ز نا کرنے والے کو ر جم کروایا ہے اور ہم نے حضور ﷺ کے بعد بھی ایسی سزا دی ہے۔بخاری 5270 حضور ﷺ کے پاس مَاعِز صحابی آئے، چار دفعہ ز نا کرنے کا اقرار کیا تو حضور ﷺ نے ان کو سنگ سا ر کروایا۔
6۔ ابن ماجہ 4440: ایک عورت نے اعتراف کیا تو آپ ﷺ نے اس کے کپڑے باندھ دئے، اس کو ر جم کیا گیا پھر نماز جنازہ بھی ادا کی گئی۔صحیح بخاری 6148: نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی جوڑے کو ر جم کی سزا دی۔ ابو داود 4447: حضور ﷺ نے دیکھا کہ ایک یہودی کا منہ کالا کیا گیا ہے اور اس کو ز نا کرنے پر 100کو ڑے لگائے گئے۔ حضور ﷺ نے یہودی علماء سے قسم دے کر پوچھا کہ کیا تورات میں یہی سزا ہے، اُس نے کہا اگر آپ نے مجھے قسم نہ دی ہوتی تو سچ نہ بتاتا۔ ہمارے معزز ایسا کام کریں تو اسے چھوڑ دیتے ہیں اور معمولی پر ح د لگاتے ہیں۔ پھر حضور ﷺ کے حکم پر اس کو ر جم کیا گیا۔
7۔ صحیح بخاری 5319: حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں گواہوں کے بغیر کسی کو ر جم کرتا تو فلاں عورت کو کرتا کیونکہ اس کا ز نا کرنا ظاہر ہے۔صحیح بخاری 2695: ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرا بیٹا اس کے ہاں مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی کے ساتھ غلط کاری کی ہے، میں نے اس کے جرم کے بدلے میں 100بکریاں اور ایک باندی دے دی ہے لیکن آپ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کر دیں تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ مال تجھے واپس مل جائے گا لیکن تیرے بیٹے کو 100 در ے اور ایک سال کے لئے جلا و طن کیا جائے گا۔
8۔ صحیح بخاری 2315۔ حضور ﷺ نے اس عورت کے پاس ایک صحابی کو بھیجا کہ تمہارے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ تم نے اس لڑکے سے غلط کاری کی ہے تو کیا تم اقرار کرتی ہے یا بہتان کا کیس اس کے خلاف کرنا چاہتی ہو۔ اس عورت نے اقرار کیا اور اس کو ر جم کر دیا گیا۔
نتیجہ: اللہ کریم شرک کے سوا سب گناہوں کو معاف کر سکتا ہے، البتہ حاکم وقت کے پاس فیصلہ آ جائے تو وہ اس کی سزا نہ دے تو گناہ گار ہے۔ سزا دینا اصل برائی کا خاتمہ کرنا ہے۔ ایک دوسرے کے عیب چھپانے چاہئیں اور گواہوں کے بغیر کسی پر الزام نہیں لگانا چاہئے مگر سچی بات یہ ہے کہ سزا بہت سخت ہے اور بڑے بڑے اس خوف سے ٹھیک ہو سکتے ہیں مگر طاقتور اس پر عمل ہونے نہیں دیں گے۔
تحقیق: ہم سب مسلمان ہیں اور جس کو مسلمان کا درد نہیں وہ مسلمان نہیں۔ اللہ کریم کی عبادت کرتے ہیں اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، انبیاء کرام کا شیوہ ہے کہ اُمت کو اکٹھا کیا جائے، اسلئے اس پیج پر اہلتشیع، دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث حضرات کو سوال کر کے شعور دیا جا رہاہے کہ اختلاف بتاؤ، اختلاف مٹاؤ، مسلمان بناؤ:
ہمیں اسلام ، اہلبیت اور مولا علی کے دشمن اہلتشیع لگتے ہیں کیونکہ ایک سوال کا جواب نہیں دیتے۔ کیا صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین علیحدہ علیحدہ تھا؟ قیصر و کسری تک جو دین پہنچا وہ حضور کا دین نہیں تھا؟ اہلتشیع کا دین کونسا ہے اور کس وقت کن کتابوں سے وجود میں آیا۔
دیوبندی اور بریلوی ایک ہیں مگر دیوبندی علماء کی چار کف ریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف ہے۔ عوام اگر دیوبندی اور بریلوی علماء کو اکٹھا کر کے یہ پانچ سوال پوچھ لے تو مسلمان ایک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات سعودی عرب اور اہلحدیث حضرات کو گوارہ نہیں ہو گا کیونکہ عرس میلاد تقلید کو بدعت و شرک کہنے والے سعودی عرب کے وہابی علماء ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کے 600سالہ اہلسنت علماء کرام کو بدعتی و مشرک کہا۔ عوام کو اپنا رول ادا ہو گا اور اپنی نسلوں کو سمجھانا ہو کرنا گا۔