Ahle Sunnat Sy Muhabat (اہلسنت سے محبت)

اہلسنت سے محبت

بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ ہم اہلسنت ہیں اور بے شک اہلسنت ہیں، اگر اعلان کریں کہ بریلوی بننا لازم نہیں بلکہ اجماع امت کے عقائد اہلسنت پر ہونا لازم ہے۔ دوسرا یہ بتا دیں کہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار عبارتیں ہیں۔ البتہ عجیب بات ہے کہ بریلوی حضرات کا فتاوی رضویہ بیان کیا جائے تو کہتے ہیں کہ تم بریلویت پروموٹ کر رہے ہو، اگر نہ کیا جائے تو کہتے ہیں کہ بریلوی علماء بیان کیوں نہیں کرتے؟

تصدیق: اگر مندرجہ ذیل مسائل پر بریلوی عوام عمل نہ کرے تواہلسنت ہی نہیں ہے، اگر دیوبندی اور اہلحدیث ان ریفرنس کے بغیر کہیں کہ مزاروں میلادوں پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ بریلوی کر رہے ہیں توقبر بھاری کریں گے لیکن سب یہ تصدیق کریں کہ اس پیج پر بدعت و شرک نہیں بلکہ دین اسلام سکھایا جا رہا ہے:

1۔ ایصال ثواب: جناب احمد رضا خاں فرماتے ہیں’’ایصال ثواب” سنت ہے اور موت میں ضیافت ممنوع، اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت تیار کرنی منع ہے کہ شرع نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غمی میں۔ اور یہ بدعتِ شنیعہ ہے‘‘۔ (فتاوٰی رضویہ جلد نمبر 9 ص 604)

آسان اردو: جب مُردے کو قبر میں ڈال کر آتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ کھانا کھا کر جانا تو وہ کھانا پکانا اور کھانا کھاناجائز نہیں ہے لیکن تقریباً پورے ملک میں کھانا کھایا جاتا ہے جو کہ بدعت ہے۔

قُل چہلم بدعت: جناب احمد رضا نے فرمایا کہ ’’میت کا تیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں متعین کرنا یہ تعینات عرفیہ ہیں، ان میں اصلاً حرج نہیں جبکہ انہیں شرعاً لازم نہ جانے۔ یہ نہ سمجھے کہ انہی دنوں ثواب پہنچے گا آگے پیچھے نہیں۔‘‘(فتاوٰی رضویہ جلد 9 صفحہ 604)

آسان اردو: قرآن و احادیث میں قل، چہلم، تیجہ، دسواں، جمعراتیں، برسی کرنے کا کوئی حکم نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق برصغیر کے معاشرتی رسم و رواج سے تھا، دنوں کا تعین عوام کی سہولت کیلئے ہے۔

قل چہلم کا کھانا: معاشرہ جو کر رہا ہے اس پر بحث نہیں ہے بلکہ علمی طور پر بریلوی فاضل نے یہ قانون معاشرے کو سکھایا: ’’تیجہ، دسواں، چہلم وغیرہ جائز ہیں جبکہ اللہ کے لیے کریں اورمساکین کو دیں۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ جلد 9 صفحہ 599) ’’(سوم) کے چنے فقراء ہی کھائیں، غنی کو نہ چاہئے بچہ یا بڑا۔ غنی بچوں کو ان کے والدین منع کریں‘‘۔( جلد 9 صفحہ 615)’’عوام مسلمین کی فاتحہ، چہلم، برسی، ششماہی کا کھانا بھی اغنیاء کو مناسب نہیں۔‘‘( جلد 9 صفحہ 610)

آسان اردو: قل چہلم، تیجہ، دسواں، جمعرات اور برسی کی روٹی امیر آدمی کونا جائز اورنا مناسب ہے بلکہ یہ صرف فقیر آدمی کے لئے جائز ہے۔

فاتحہ کرنا یا ایصالِ ثواب (قل، تیجہ، ستواں، دسواں،چہلم، برسی ) کی حقیقت

پہلی بات: جناب احمد رضا صاحب نے فرمایا: ’’فاتحہ دلانا شریعت میں جائز ہے، اصل یہ ہے کہ جو کوئی عبادت کرے اسے اختیار ہے کہ اس کا ثواب دوسرے کے لیے کر دے اگرچہ ادائے عبادت کے وقت خود اپنے لیے کرنے کی نیت رہی ہو۔ظاہر دلائل سے یہی ثابت ہے خواہ نماز ہو یا روزہ، صدقہ یا قرأت‘‘۔(فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ 593)

آسان اردو: ’’ فاتحہ‘‘ کا مطلب خود بنایا(self made) رواجی ’’ختم شریف‘‘ نہیں ہے کہ ایک دفعہ سورۃ فاتحہ اور تین دفعہ سورۃ اخلاص پڑھنا، کھانا آگے رکھ کر دُعا کرنا وغیرہ بلکہ اس کی تعریف یہ ہے کہ نفلی نمازیں (تہجد، اشراق، چاشت، اوابین وغیرہ)، نفلی روزے (پیر، جمعرات، شوال، یوم عاشورہ)، صدقہ (اپنے مال سے کسی مسلمان کا چھوٹا بڑا کوئی کام کرنا) یہ سب ’’فاتحہ‘‘ کہلائے گا مگر عوام سیٹ پیٹرن پر عمل کرتی ہے اور علماء جائز کی آڑ میں دیگر طریقے سمجھاتے ہی نہیں۔

2۔ قبر کی زیارت (عرس): مفتی احمد یار خاں نعیمی صاحب کتاب میں لکھتے ہیں کہ’’ عرس کی ’’حقیقت ‘‘صرف اسقدر ہے کہ (1) ہر سال تاریخِ وفات پر(2) قبرکی زیارت کرنا (3) قرآن خوانی و (4) صدقات کا ثواب پہنچانا جیساکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہر سال شہداء احد کی قبروں پر تشریف لے جاتے تھے‘‘( جاء الحق صفحہ 300)۔

پاکستان میں اولیاء کرام کی قبروں کی زیارات پر جانا ایک کاروبار بھی ہے، دوسرا اُس کے فضائل جان بوجھ کر اتنے بیان کئے جاتے ہیں جتنے نماز پڑھنے کے بھی نہیں کئے جاتے، مفتی صاحب کے بقول سال میں ایک مرتبہ جانا،اللہ کریم کے لئے قرآن پڑھ کر اور وہاں کے غریبوں کو اللہ واسطے کھانا کھلا کر صاحبِ قبر کی روح کو ایصالِ ثواب کرنا عُرس کہلاتا ہے۔ اب آپ اس سے ثابت کر دیں کہ جس کو ایصالِ ثواب کیا جا رہا ہے، کیا اُس سے مانگا جا رہا ہے اور کیااس کو قبر پرستی کہتے ہیں؟

قبر (مزار) پر جانے کا طریقہ کار

رقص یا دھمال ناجائز : ’’عرسِ مشائخ کہ منکراتِ شرعیہ مثلاً رقص و مزا میر وغیرہ سے خالی ہو جائز ہے‘‘۔(جلد نمبر 9 صفحہ 420، جلد نمبر 29، صفحہ203)۔

عورتوں کا جانا ناجائز + جاہل کا جانا ناپسند: عورتوں کا مزارات پر جانا پسند نہیں کرتا خصوصاًاس طوفانِ بدتمیزی رقص و مزا میر سرودمیں جو آجکل جہال نے اعراس طیبہ میں برپا کر رکھا ہے اس کی شرکت میں تو عوام رجال کو بھی پسند نہیں کرتا (جلد 23 ص 111) عورتوں کاقبرستان جانا جائز نہیں(جلد نمبر 9 ص 541)

طواف،سجدہ و بوسہ قبر منع: بلا شبہ غیرکعبہ معظمہ کا طوافِ تعظیمی ناجائز اور غیر خدا کو سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور بوسہ قبر میں علماء کا اختلاف ہے اور احوط منع ہے خصوصاً مزارات طیبہ اولیاء کرام کو کہ ہمارے علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پرکھڑا ہو یہی ادب ہے(جلد 22 ص 382)

میوزک قوالی نا جائز: مزامیر کے ساتھ قوالی جائز نہیں(جلد نمبر 24 صفحہ 145)

آتش بازی ، دیا جلانا یا موم بتی جلاناحرام: ’’عرس میں آتش بازی (جیسے میلہ چراغاں) اسراف ہے اور اسراف حرام ہے ۔ کھانے کا لٹانا بے ادبی ہے اور بے ادبی محرومی ہے۔ تضیعِ مال ہے اور تضیع مال حرام۔ روشنی اگر مصالح شریعہ سے خالی ہے تو وہ بھی اسراف ھے‘‘۔(جلد نمبر 24 صفحہ 112)۔

مہندی، فرضی مزار اور طوائف :مہندی نکالنا ناجائز ہے اور اس کا آغاز کسی جاہل سفیہ(پاگل) نے کیا ہو گا(جلد 24 صفحہ 510) فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز اور بدعت ہے اور اس کی کمائی نذرانوں کی صورت میں حرام ہے (جلد 9 ص 425) رنڈیوں کا ناچ بے شک حرام ہے، اولیا ئے کرام کے عرسوں میں بیقید جاہلوں نے یہ معصیت پھیلائی ہے (جلد 29 ص 92)

ہم اس پر بحث نہیں کریں گے کہ نبی کریم ﷺ کے دورمیں انبیاء اور اولیاء کی قبروں پر کوئی گنبد، قبہ، اوپر تعویذ، پھولوں یا کپڑوں کی چادریں نہیں تھیں اور عرقِ گلاب سے ان قبروں کو غسل دینے کا کوئی تصور نہیں تھا کیونکہ اس کا تعلق شرک، قبر پرستی اور عُرس سے نہیں ہے البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ اہلسنت عالم جناب احمد رضا خاں صاحب نے فرمایا کہ ’’(قبرکی) بلندی ایک بالشت (ایک گِٹھ) سے زیادہ نہ ہو”۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر 9صفحہ نمبر425)

3۔ میلاد: نماز کی شرائط پوری نہ ہوں تو نماز نہیں ہوتی، اسی طرح ’’میلاد‘‘ ایک مستحب عمل ہے اس کی شرائط وہی ہونی چاہئیں جیسے جناب احمد رضا خاں صاحب نے “میلاد‘‘ منانے کے لئے فتاوی رضویہ میں لکھا ہے،عوام کو چاہئے کہ اس پر عمل کرے ورنہ اپنا وقت ضائع کر کے میلاد کو بدنام نہ کروائے:

پہلی شرط: بے نمازی کے گھر میلادنہیں منانا چاہئے۔
سوال: ’’ بے نمازی مسلمان کے گھر میلاد شریف کی محفل میں شریک ہونا یا پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟‘‘
جواب’’مجلس میلاد شریف نیک کام ہے اور نیک کام میں شرکت بری نہیں، ہاں اگر اس کی تنبیہہ کیلئے اس سے میل جول یک لخت چھوڑ دیا ہو تونہ شریک ہوں یہی بہتر ہے ‘‘۔(فتاوی رضویہ جلد نمبر 23 صفحہ 736) اس فتوی میں’’بے نمازی‘‘ کوسبق سکھانے کے لئے اُس سے میل جول چھوڑنے کا حُکم دیا جا رہا ہے کیونکہ بے نمازی میلادی کا’’میلاد‘‘ منانے کا حق نہیں بنتا۔

دوسری شرط: بے نمازی، داڑھی کتروانے یا منڈوانے والے سے نعت نہیں پڑھوانی چاہئے اور نہ ہی منبر رسولﷺ پر اس کو بٹھانا چاہئے بلکہ اس کی توہین کرنی چاہئے۔
سوال: مخالفِ شرع مثلاََ ڈاڑھی کترواتا یا منڈواتا ہو، تارکِ صلوۃ ہو اس سے میلاد (نعت) پڑھوانا کیسا ہے؟ فرمایا’’افعال مذکورہ سخت کبائر ہیں اور ان کا مرتکب اشد فاسق و فاجر مستحق عذاب یزداں و غضب رحمن اور دنیا میں مستوجب ہزاراں ذلت و ہوان، خوش آوازی خواہ کسی علتِ نفسانی کے باعث اسے منبرو مسند پر کہ حقیقتہََ مسندِ حضور پُر نور سید عالم ﷺ ہے تعظیماََ بٹھانا اس سے مجلس مبارک پڑھو انا حرام ہے،فاسق(گندے) کو آگے کرنے میں اسکی تعظیم ہے حالانکہ بوجہ فسق (گناہ) لوگوں پر شرعاََ اسکی توہین(ذلیل) کرنا واجب اور ضرور ی ہے‘‘۔( جلد نمبر 23 صفحہ 734)

تیسری شرط: پیسے لینے والے نعت خواں کواورکھانے کا لالچ دے کر میلاد کرانے کا ثواب نہیں ہوتا
سوال: ’’میلاد شریف جس کے یہاں ہو وہ پڑھنے والے کی دعوت کرے تو پڑھنے والے کو (کھانا ) چاہئے یا نہیں؟ اور اگر کھایا تو پڑھنے والے کو کچھ ثواب ملے گا یا نہیں؟‘‘ تو آپ نے فرمایا’’پڑھنے کے عوض کھانا کھلاتا ہے تو یہ کھانا نہ کھلانا چاہئے، نہ کھانا چاہئے اور اگر کھائے گا تو یہی کھانا اس کا ثواب ہو گیا اور ثواب کیا چاہتا ہے بلکہ جاہلوں میں جو یہ دستور ہے کہ پڑھنے والوں کو عام حصوں سے دونا دیتے ہیں اور بعض احمق پڑھنے والے اگر ان کو اوروں سے دونا نہ دیا جائے تو اس پر جھگڑتے ہیں یہ زیادہ لینا دینا بھی منع ہے اور یہی اسکا ثواب ہوگیا‘‘۔(فتاوی رضویہ جلد نمبر 21 صفحہ نمبر 662)

چوتھی شرط: نعت خواں اکثر نعتیں کفریہ پڑھتے ہیں جس پر گناہ ہوتا ہے ثواب نہیں
سوال: منکراتِ شرعیہ پر مشتمل میلاد کیسا ہے؟ جواب:’’ وہ پڑھناسننا جو منکراتِ شرعیہ پر مشتمل ہو، ناجائز ہے جیسے روایات باطلہ و حکایاتِ موضوعہ و اشعار خلاف شرع خصوصاََ جن میں توہینِ انبیاء و ملائکہ علیھم الصلٰوۃو السلام ہوکہ آجکل کے جاہل نعت گویوں کے کلام میں یہ بلائے عظیم بکثرت ہے حالانکہ وہ صریح کلمہ کفر ہے‘‘۔(فتاوی رضویہ جلد نمبر 23 صفحہ 722)

پانچویں شرط: بے نمازی کا وظیفہ (درود، کلمہ، میلاد) اس کے منہ پر ماراجائے گا؟

سوال: ’’ایک شخص وظیفہ پڑھتا ہے اور نماز نہیں پڑھتا ہے یہ جائز ہے یا نا جائز‘‘کے جواب میں فرمایا’’ جو وظیفہ پڑھے اورنماز نہ پڑھے فاسق و فاجر مرتکب کبائر ہے اُس کاوظیفہ اس کے منہ پر مارا جائے گا، ایسوں ہی کو حدیث میں فرمایا ہے، بہتیرے قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن انہیں لعنت کرتا ہے و العیاذ باللہ‘‘۔ (جلد نمبر 6 صفحہ 223)

4۔ ماہ محرم

سوال: محرم کے مہینے میں مرثیے سننا، ماتم کرنا یا دیکھنا، گھوڑا دیکھنا، شیعہ کے گھر کا کھانا اور ان کی مجالس میں جانا کیسا ہے؟ جواب :ناجائز ہے۔
(1) بعض سنت جماعت عشرہ 10 محرم الحرام کو نہ تو دن بھر روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جا ئے گی (2) ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے ہیں(3) ما ہ محرم میں بیاہ شادی نہیں کرتے ہیں”فرمایا "تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے (فتاوی رضویہ جلد 24 ص نمبر 488)

محرم میں نکاح جائز: ‎”ما ہ محرم الحرام و صفر المظفر میں نکاح کرنا منع ہے یا نہیں؟اگر ہے تو کیوں "تو فرمایا کہ "نکاح کسی مہینے میں منع نہیں”(فتاوی رضویہ جلد 11 ص نمبر 265) "ماہ محرم اور خصوصا 9 تاریخ ماه مذکورہ کی شب میں نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں”- فرمایا جائز ہے (فتاوى ر ضویہ جلد 23 ص نمبر 193)

فقیر: ‎” (امام حسین رضی الله عنہ) کا فقیر بن کر بلا ضرورت و مجبوری بھیک مانگنا حرام اور ایسوں کو دینا بھی حرام اور وہ منت ماننی کہ دس برس تک ایسا کریں گے سب مہمل (بےکار) و ممنوع (منع) ہے۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا "گنا ہ کے کام میں کوئى( نذر) منت نہیں” ( فتاوی رضویہ جلد نمبر 24 صفحہ 494-493)

ماتم: ‎”نوحہ ماتم حرام ہے، بیان شہادت حسین ناجائز طور پر جاہلوں میں را ئج (رواج) ہے خود ہی ممنوع "(فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ 488) "اگر نماز بھی بطور روافض (شیعوں کی طرح )پڑھی جا ئے گی ناجائز و ممنوع ہے نہ کہ اور اذکار مجالس محرم شریف میں ذکر شہادت شریف جس طرح عوام میں رائج (رواج) ہے جس سے تجدید حزن (غم تازه کرنا) و نوحہ باطلہ (جھوٹا رونا) مقصود اور اکاذیب و موضوعات سے تلویث موجود (خود ساختہ اور جھو ٹے واقعات بیان کرنا ) خود حرام ہے ” (فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ نمبر 739 )۔

قبر پر مٹی ڈالنا: جناب احمد رضا خاں صاحب سے سوال کیا گیا کہ "قبرمیں سے جس قدر مٹی نکلی وہ سب اس پرڈال دینی چاہئے یا صرف بالشت یا سوا بالشت قبرکو اونچا کرنا چاہئے؟ تو فرمایا کہ” صرف بالشت بھر ( ایک گِٹھ)”(فتاوى رضویہ جلد 9 صفحہ 372) ‎”(قبر کی) بلندی ایک بالشت (ایک گِٹھ) سےزیادہ نہ ہو” (فتاوى رضویہ جلد 9 صفحہ 425) ‎”قبروں پر پانی ڈالنا اس وقت جائز ہے جب مٹی کو پانی ڈال کر پختہ کرنا ہو ورنہ جائز نہیں”۔

جناب احمد رضا خاں صاحب سے سوال کیا گیا کہ "پُرانی قبر ہو یا جد ید( نئی قبر لیکن 10 محرم سے پہلے کی ہو اور 10 محرم آ گئی) اس خاص کر عا شورہ کے دن پانی چھڑ کنا بہتر ہے۔ ‎جواب: بعد دفن قبر پر پانی چھڑکنا مسنون ھے اور اگر مرور زمان (وقت گزرنے) سے اس کی خاک منتشر ہوگئ ہو اور نئی ڈالی گئ یا منتشر ہو جانے کا احتمال ہو تو اب بھی پانی ڈالا جائے کہ نشانی باقی رہے اور قبر کی توہین نہ ہونے پائے، اس کےلیے کوئی دن معین نہیں ہوسکتا ہے جب حاجت ہو اور بے حاجت پانی کاڈالنا ضائع کرنا ہے اور پانی ضائع کرنا جائز نہیں اور عاشورہ کی تخصیص محض بےاصل و بےمعنی ہے۔(فتاوی رضویہ جلد نمبر 9 ص 373)

فضول:‎”قبر اگر پختہ ہے اس پر پانی ڈالنا فضول و بے معنی ہے یونہی اگر کچی ہے اوراس کی مٹی جمی ہوئی ہے ہاں اگر کچی ہے اور مٹی منتشر ہے تو اس کے جم جانے کو پانی ڈالنے میں حرج نہیں جیسا کہ ابتدائے دفن میں خود سنت ہے”(جلد 9 ص 609) ‎یہ لکھنے کا مقصد ہے کہ قبریں بڑی بڑی اونچی کرنا، ‎محرم میں مٹی ڈالنا یا کسی بھی وقت قبروں پرپانی ڈالنا جائز نہیں لیکن اپنی قبر کی حفاظت ضرورکریں۔

گالیاں:‎رافضیوں تبرائیوں (صحابہ کرام رضى الله عنہم کو گالیاں نکالنے والے )کے بارے میں فر مایا کہ یہ کفار اور مرتدین ہیں اور ان کے بارے میں رسالہ رد الرفضتہ (تبرائی را فضیوں کا رد) لکھا (جلد 14 ص نمبر 249 )

سوال: اہلتشیع اس ایک سوال کا جواب نہیں دیتے کہ قرآن حضورﷺ پر نازل ہوا ہے تو حضورﷺ کی کونسی مستند احادیث کی کتابوں کو مانتے ہیں جو قرآن کی تشریح ہوں، ایک حدیث کا نہیں پوچھا بلکہ احادیث کی کتابوں کا پوچھا ہے، جس کے راوی صحابہ کرام اور اہلبیت ہوں۔ ہمارے نزدیک اہلتشیع مسلمان نہیں ہیں کیونکہ ان کا تعلق حضور، اہلبیت اور صحابہ کرام سے نہیں ہے، ان کی احادیث سے نہیں ہے بلکہ انہوں نے منگھڑت کو احادیث کا نام دے کر حضرت امام جعفر رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب کیا ہوا ہے۔

اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا ، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتح شیطان بھی اہلسنت پر ہنس رہا ہے اور سب مجبور ہیں سوائے ہمارے۔ بولیں ورنہ قیامت والے دن مسلمانوں کے ایمان کا جواب دینا ہو گا۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general