Eid Mubahala ki haqeqat (عید مباہلہ کی حقیقت)

عید مباہلہ کی حقیقت


قرآن سورہ آل عمران 61: فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ- ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ ترجمہ: پھر اے محبوب جو تم سے عیسٰی کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔

1۔ مباہلے کی آسان تعریف یہ ہے کہ دو دینی پارٹیاں جہاں کسی عقائد کے مسئلے میں علمی دلائل سے فیصلہ نہ کر پائیں تو اکٹھے ہو کر یہ کہیں کہ یا اللہ ہم میں سے جو بھی غلط ہو اس پر تیرا عذاب ہو۔

2۔ حضور ﷺ نے نجران کے عیسائی حضرات کو ایک فرمان بھیجا کہ (1) اسلام قبول کر لو (2) یا جزیہ ادا کرو (3) یا جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ۔ نجران کی طرف سے ایک بڑا وفد عیسائی مبلغین کا آیا، جس نے حضور ﷺ سے حضرت عیسی علیہ السلام کے خدا (اللہ) ہونے پر خوب بحث کی اللہ کریم نے سورہ آل عمران کی آیت 61 (مباہلہ) نازل فرمائی۔

3۔ آیت مباہلہ جب نازل ہوئی تو مسلم 6220 اور ترمذی 2999 کے مطابق حضور ﷺ نے حضرات فاطمہ، علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم کو اپنا اہلبیت فرمایا اور مباہلے کے لئے تیار فرمایا۔ بخاری 4380 میں حضرت خذیفہ کی روایت ہے کہ عاقب اور سید نجران کے دو سردار مباہلے کے لئے آئے۔ انہوں نے سب سے کہا کہ مباہلہ نہ کرو کیونکہ اگر یہ نبی ہوئے تو ہماری نسلیں اُجڑ جائیں گی۔ اس کے بعد وہ اسلام نہ لائے بلکہ جزیہ دینا قبول کیا تو حضور ﷺ نے جزیہ لینے کیلئے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو ”امت کا امین“ بنا کر بھیجا۔

4۔ اہلتشیع حضرات 24 ذی الحج 9ھ کی آیت مباہلہ سے نہ جانے کیا کچھ ثابت کرتے ہیں اور ساتھ میں عید مباہلہ بھی مناتے ہیں حالانکہ عید تو تب ہوتی جب عیسائی کلمہ پڑھ لیتے لیکن ان پر افسوس ہے کہ جزیہ دیا مگر اسلام قبول نہ کیا۔

سوال: عید منانے والے اہلتشیع سے سوال ہے کہ آیت مباہلہ پر جو ترمذی 2999، مسلم 6220 اور بخاری 4380 کی احادیث بیان کی ہیں، ان کے راوی سعید بن ابی وقاص اور خذیفہ رضی اللہ عنہ ہیں اور امت کا امین ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو فرمایا گیا۔ کیا آپ کے نزدیک اہلسنت کی احادیث کی کتابیں جن میں اہلبیت اور صحابہ کرام کے فضائل بیان ہوئے ہیں، مستند اور قابل قبول ہیں؟

اگر نہیں تو یہ بتا دیں کہ حضور ﷺ کے بعد اہلبیت (حضرات فاطمہ، علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم) نے حضرات ابوبکر، عمر، عثمان کے دور سے لے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنھم کے دور تک کونسی آیات اور احادیث سنا کر اپنے امام اور معصوم ہونے کا اعلان کس صحابی کے سامنے کیا اور دین محمدی اہلتشیع تک کیسے پہنچا؟

نتیجہ: اہلسنت کی کتابوں میں اہلبیت اور صحابہ کرام کے کثیر مناقب اور فضائل موجود ہیں، البتہ اہلتشیع جماعت حضور ﷺ کی احادیث کے منکر یعنی رسول اللہ ﷺ کے منکر ہیں کیونکہ حضور ﷺ نے صحابہ کرام اور اہلبیت کو ایک جیسی تعلیم دی لیکن اہلتشیع بے دین ہیں ان کا حضور ﷺ، صحابہ کرام، اہلبیت سے تعلق نہیں بلکہ دین اسلام کے مخالف ہیں۔

اجماع امت: اہلسنت علماء جو خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اجماع امت، عقائد اہلسنت پر ہیں ان کو چاہئے کہ عوام کو بتائیں کہ اصل فتنہ تفسیقی و تفضیلی و رافضیت ہے جو ہماری صفوں میں پھیل رہا ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف چار کفر یہ عبارتیں ہیں اور دونوں جماعتوں کو سعودی عرب + اہلحدیث نے بدعتی و مشرک کہا۔ اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، جنازے کے بعد دُعا ، قل و چہلم، میلاد، عرس، ذکر ولادت، یا رسول اللہ مدد کے نعرے ہماری پہچان نہیں ہیں۔ تینوں جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے ساتھ ساتح شیطان بھی اہلسنت پر ہنس رہا ہے اور سب مجبور ہیں سوائے ہمارے۔ بولیں ورنہ قیامت والے دن مسلمانوں کے ایمان کا جواب دینا ہو گا۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general