فقہ جعفر اور حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ
حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ 80ھ میں پیدا ہوئے اور آپ کا وصال 147ھ میں ہوا یعنی آپ بنو امیہ کے ولید بن عبدالملک کے دور میں پیدا ہوئے اور بنو عباس کے ابوجعفر المنصور کے دور میں وصال کر گئے۔حضرت جعفر بن باقربن علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہ اہلبیت میں سے ہیں اور اُن کا حضور ﷺ کی بیٹی فاطمہ اور داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہونا ہی بہت بڑی فضیلت ہے۔
البتہ اہلتشیع حضرت جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ کو (حضرات علی، حسن و حسین، علی،باقر رضی اللہ عنہ کے بعد) اپنا چھٹا امام مانتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ آپ کو فقیہ مانا جائے یا ”امام“ مانا جائے کیونکہ اہلتشیع کے امام کی بات تو اہلتشیع کے لئے ”حدیث“ کا درجہ رکھتی ہے لیکن اہلسنت کے نزدیک ”امامت“کا عقیدہ حضور ﷺ کی نبوت کے خلاف ہے کیونکہ قرآن میں حضور ﷺ کی اتباع کا حُکم ہے اور کوئی بھی صحابی یا اہلبیت کی بات نبی کریم ﷺکے برابر نہیں ہو سکتی۔
اگر حضرات فاطمہ، علی حسن و حسین و علی و باقر رضی اللہ عنھم نے حضور ﷺ کی اتباع کی تو کونسی احادیث پر کی جن کا علم حضرت ابوبکر و عمرو عثمان رضی اللہ عنھم یا دیگر صحابہ کرام کو نہیں تھا۔ حضور ﷺ کی احادیث و سنت پر چلنا ہی حضور ﷺ سے محبت کا ذریعہ ہے ورنہ اہلتشیع کی محبت ایک نعرہ حیدری لگانے تک ہے مگر وہ حیدر نبی والا حیدر نہیں ہو سکتا جب تک حضور ﷺ کی احادیث و سنت پر عمل نہ کرے۔
اگر فقہ جعفر کا مطلب اہلتشیع کے نزدیک یہ ہے کہ حضور ﷺ کے بعد چھٹے امام ”جعفر صادق“ حضور ﷺ کے برابر ہیں اور امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتاب الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180برس بعد، من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد اور تہذیب الاحکام اور استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310برس بعد لکھتے ہیں وہ کیسے معتبر ہو سکتے ہیں کیونکہ اتباع تو حضور ﷺ کی ہے اور اہلسنت کے چار امام بھی حضور ﷺ کے مقابلے میں نہیں بلکہ حضور ﷺ کی اتباع میں ہیں۔
حضرت نعمان بن ثابت المعروف امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک رحمتہ اللہ علیھم حضرت امام جعفر رحمتہ اللہ علیہ کے شاگردوں میں نہیں ہیں بلکہ شیعہ کی معتبر کتابوں سے علم ہوتا ہے کہ اہلتشی کے معتبر علماء میں زرارہ، محمد بن مسلم، ابوبریدہ، ابوبصیر، شاہین، حمران، جیکر مومن طاق، امان بن تغلب اور دیگر شامل ہیں۔
سوال: آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کا دین کونسا ہے کیونکہ امام جعفر صادق تو حضور ﷺ کے برابر نہیں ہو سکتے۔ اسلئے اہلتشیع یہ بتائیں کہ امامت کا درجہ نبوت کے برابر ہے تو حضرات فاطمہ، علی، حسن و حسین، علی المعروف زین العابدین، باقر رضی اللہ عنھم نے امامت کا حق کیسے ادا کیا؟
جواب: اہلتشع بے دین ہیں ان کا کام حضور ﷺ کی امت میں تفرقہ ڈالنا ہے اور ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہےبلکہ ان کے پاس کربلہ سے پہلے کا ریکارڈ قرآن و سنت کا اسناد کے ساتھ موجود نہیں، اسلئے حضرات علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنھم کے فضائل اہلسنت کی کتابوں سے لیں گے اور اختلافی باتیں بھی اہلسنت کی لے کر اپنی تشریح کریں گے مگر ان کا دین اسلام نہیں ہے بلکہ ختم نبو ت کے خلاف ہے۔
محبت: قرآن پاک کو اکٹھا کرنے والے صحابہ کرام و اہلبیت تھے، حضور ﷺ کے بعد دین قیصر و کسری تک پہنچانے والے صحابہ کرام و اہلبیت تھے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بغاوت میں ایک پلیٹ فارم پر صحابہ کرام و اہلبیت تھے، سبائی و اہلتلشیع کی غلط فہمیوں سے پیدا ہونے والی جمل و صفین کی لڑائی میں شہداء کے جنازے پڑھانے والے صحابہ کرام و اہلبیت تھے، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ ایک دوسرے سے مل جانے والے صحابہ کرام و اہلبیت تھے۔
نعرہ:اہلتشیع کو سمجھ آ جائے تو نعرہ یہ بنتا ہے، اہلبیت کے دُشمن اہلتشیع پر لعن ت بے شمار۔ حضور ﷺ کا دین بدلنے والوں پر لعن ت بے شمار۔ اہلبیت کا نام لے کر دین کو برباد کرنے والوں پر لعن ت بے شمار، یز ید سے بڑھکر یز یدی اہلتشیع پر لعن ت بے شمار
مشورہ: دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف اپنی جگہ پر لیکن دین کے لئے اپنی انانیت کو مٹا دیں ورنہ دین کو دجا لوں کے حوالے کرنے میں ہم سب کا نام آئے گا جس سے قیامت والے دن شرمندگی ہو گی اور اپنی نسلوں کے بھی ہم مُجرم ہوں گے۔ اہلحدیث حضرات بدعت و شرک ختم کرنا چاہتے ہیں تو بتائیں بدعت و شرک کس نے سکھایا ہے؟